ملکی معیشت: تبدیلیوں کی لپیٹ میں

192

پاکستانی معیشت و سیاست کے لیے اپریل کا رواں ہفتہ انتہائی ہنگامہ خیز رہا۔ جس میں تحریک انصاف کے اوپننگ بیٹسمین اور اہم لیڈر اور وزیر خزانہ اسد عمر اپنے عہدے سے الگ کردیے گئے اور اس طرح اُن کے بارے میں گزشتہ 2 ہفتے سے ملک میں گردش کرتی ہوئی خبروں کا ڈراپ سین ہوا اور ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو مشیر خزانہ بنایا گیا۔ جو ملکی معاشی امور اور پالیسی سازی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ امریکا سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کیا، سال 2000ء سے 2002ء تک سندھ کے وزیر خزانہ رہے اور اس کے بعد 2010ء سے 2013ء تک وفاقی وزیر خزانہ رہے اور اس کے بعد نجکاری اور سرمایہ کاری کے وفاقی وزیر رہے۔ اب دیکھیں پاکستان جو اس وقت شدید ترین معاشی و اقتصادی مسائل میں گھرا ہوا ہے ان کا تجربہ اِن مسائل کے حل میں کتنا کامیاب ہوتا ہے۔
وزارتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کا معاملہ صرف اسد عمر تک ہی محدود نہ رہا بلکہ وزارت پٹرولیم، وزارت صحت، وزارت اطلاعات و نشریات اور وزارت داخلہ میں بھی تبدیلی کی گئی۔ تحریک انصاف کی حکومت جو ملک میں تبدیلی کا نعرہ لے کر قائم ہوئی تھی وہ ملک کی سیاسی، معاشی، قانونی اور سماجی میدانوں میں تو کوئی تبدیلی نہ لاسکی البتہ وزارتوں میں ضرور تبدیلی لے آئی ہے۔ ملک میں تبدیلی یہ ہے کہ افراط زر 3.5 فی صد سے 9.2 فی صد ہوگیا۔ ڈسکاؤنٹ ریٹ 5.75 فی صد سے 10.75 فی صد ہوگیا۔ پٹرول 87 روپے فی لٹر سے 99 روپے فی لٹر ہوگیا، گردشی قرضے 12 ارب سے 16 ارب تک پہنچ گئے، معاشی ترقی کی رفتار 5.6 فی صد سے 3 فی صد تک آگئی۔ کھانے پینے کی اشیا اور دوائیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، اسٹاک مارکیٹ کا انڈکس 53 ہزار سے گر کر 37 ہزار کی حد تک پہنچ گیا اور بے شمار اسٹاک بروکر اپنا کام بند کرکے گھر چلے گئے۔ انسداد تجاوزات کے نام پر ہزاروں دکانوں اور مکانوں کو مسمار کردیا گیا، ڈالر کی قیمت 105 روپے سے 143 روپے تک پہنچ گئی، ٹیکسوں کی وصولی میں کمی آگئی۔ یہ ایک مختصر سی تبدیلی کی جھلک ہے جو پاکستانی عوام کی نظروں کے سامنے ہے، جب کہ حکومت عوام کو آنے والے دنوں میں مزید سخت حالات کے اشارے دے رہی ہے۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ کو ملکی معیشت کے دو اہم امور پر توجہ دینی ہوگی جن میں ایک بیرونی ہے اور دوسرا اندرونی۔ بیرونی شعبہ کا تعلق تجارتی خسارہ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے ہے۔ سال 2018-19ء میں تجارتی خسارہ ماہرین کے نزدیک 40 ارب ڈالر تک جاسکتا ہے اور یہ ملکی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے جس کی وجہ سے روپے کی قدر پر شدید دباؤ ہے۔ اس کے حل کے لیے ایک طرف برآمدات بڑھانے پر توجہ دینی ہوگی اور اس کے لیے پیداواری لاگت کو کم کرنا ضروری ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ دوست ممالک سے تجارتی معاملات میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہوگی، اپنی مصنوعات کے معیار پر توجہ دینا ہوگی، ترسیلات زر کی پاکستان منتقلی کو آسان بنانا ہوگا۔ اس کے علاوہ ملک میں کاروباری ماحول کو بہتر بنانا ہوگا اور بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے لیے ترغیب دینا ہوگی، اگر اِن تمام محاذوں پر حفیظ شیخ صاحب کامیاب ہوجاتے ہیں تو تجارتی خسارہ بھی کم ہوجائے گا، روپے پر ڈالر کا دباؤ کم ہو کر کرنسی کو مستحکم بنادے گا، برآمدات کے بڑھنے سے بیروزگاری میں کمی آئے گی اور معاشی ترقی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔
دوسرا محاذ جس کا نئے مشیر خزانہ کو سامنا ہے وہ اندرونی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی مجموعی معیشت کے حجم میں 40 فی صد کالا دھن ہے، بلیک منی ہے یا غیر دستاویزی ہے۔ ملک کی تمام معاشی سرگرمیوں کو دستاویزی بنانا ہوگا۔ ایف بی آر میں اصلاحات کرکے ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا اور ٹیکس کی وصولی میں واضح اضافہ بہت ضروری ہے۔ اس وقت مالی خسارہ (financial deficit) مجموعی قومی پیداوار کے 6 فی صد کے قریب ہے جب کہ اسے زیادہ سے زیادہ 4 فی صد ہونا چاہیے، اس کا حل یہ ہے کہ ٹیکس وصولی میں اضافہ کیا جائے، دوسرا مسئلہ گردشی قرضوں کا ہے، پاکستان اسٹیل، پی آئی اے اور اس طرح کے دوسرے ادارے جو نقصان میں چل رہے ہیں وہ معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہیں، ہر سال اربوں روپے اس اندھے کنوئیں میں جھونک دیے جاتے ہیں جو پاکستانی عوام کی صحت و تعلیم پر خرچ ہوسکتے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اِن اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے مگر نتیجہ صفر رہا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں اِن وزارتوں کی تبدیلی کے بعد عوام کے لیے کیا تبدیلی آتی ہے۔