آئے ہے بے کسی عشق پہ رونا غالب

410

ہائے کیا زمانے ہوں گے جب ہر طرف عشق کا راج تھا۔ دل پر خوں کی اک گلابی، شراب اور عشق۔ قاتل ادائیں، دلربا انداز، معشوقانہ ناز برداریاں۔ ابرو کا اشارہ گویا ستارہ۔ ایک ہاتھ میں دل، دوسرے میں جگر اور۔۔۔ انتظار یار۔
ہے کس کا انتظار کہ خواب عدم سے بھی
ہر بار چونک پڑتے ہیں آواز پا کے ساتھ
کیا عوام کیا خواص سب عشق کے بیمار۔ آبلوں کا شکوہ، نہ ٹھوکروں کا غم۔ عشق میں سب گوارا، سب پزیرا۔ رشتے دولت سے ما ورا۔ عشق پر استوار۔ محبت ہی محبت کا صلہ۔ یہ وسیع کائنات اور عشق۔ کسی چیز سے دلچسپی نہیں، کسی کام میں دل نہیں، بس عشق۔ فیملی پلاننگ نہ دو بچوں کی تنہائیاں۔ بھری بھری حویلیاں، بھرے بھرے گھر۔ کہیں قہقہے اور کہیں زیر لب تبسم۔ ہونٹوں پر کانپتے نام، پس چلمن لہراتے سائے۔ ایک طرف عشق کے زور، عشق کے ستم دوسری طرف دل خوش فہم کی امیدیں۔ عشق کار ثواب۔ ترک عشق گمراہی۔
اللہ رے گمرہی، بت و بت خانہ چھوڑ کر
مومن چلا ہے کعبہ کو اک پارسا کے ساتھ
شہر بھر میں ایک ہی قاتل، ایک ہی کافر ادا۔ ایک ہی حسین ایک ہی محبوب
الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیوں کر ہو
غالب، اسداللہ خان غالب کی یہ بے مثل غزل لبوں تک آہی گئی ہے تو اس کا ایک شعر اور سن لیجیے:
ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو کیوں کر ہو
اب عالم ہی کچھ اور ہے۔ شہر میں جس طرف نکل جائیں، حسینوں کے پرے کے پرے۔ رنگ ونور میں ڈھلے پیکروں کے ہنگامے۔ چکا چوند چہرے، بکھرتے قہقہے۔ کئی کئی عاشق کئی کئی محبوب لیکن عشق؟ اس گردش ایام میں نہ جانے کہاں کھو گیا، کس گوشے میں جا بسا۔ نہ دامن تار تار نہ گریباں چاک۔ آسماں سے باتیں کرتی قیمتیں برانڈڈ کپڑے، ایک کھڑونچا بھی پڑ جائے تو دل بجھنے لگتا ہے۔ نہ وہ فرصتیں رہیں نہ تصور جاناں کے طویل وقفے۔ کام، کام اور کام۔ اس ترقی پسندی، مغربی تہذیب اور تمدن نے کسی کا کچھ بگاڑا ہو یا نہ بگاڑا ہو لیکن عشق کو ضرور عرش سے فرش پر دے مارا ہے۔ اب نہ انتظار یار رہا اور نہ کسی پیکرکے خطوط کی یاد میں ٹھنڈی آہیں۔ موبائل میں کیپ چر سیلفیاں اور تصاویر۔ گرافکس کی مدد سے محبوب کو جتنا چاہو اپنے سے قریب کرلو، اور قریب اور قریب۔ عشق نہ ہوا جدید ٹیکنالوجی کا کمال ہوگیا۔ اب عشق کو اجنتا اور ایلورا کے غاروں میں نچانے کے لیے کسی ایف ایم حسین کی ضرورت بھی نہیں۔ ایک ذرا سا ٹچ اور پس منظر ہی بدل گیا۔ عشق اب پہلی نظر اور کسی کافر ادا پہ دم نکلنے کا معاملہ نہیں رہا۔ اب کہیں سے ایسی صدائیں سنائی نہیں دیتیں ’’عشق میرا دیوانہ، یہ دیوانہ مستانہ‘‘۔ سلیقہ مندی، قربتوں اور رشتے داریوں میں مناسبت کی تلاش اور پلاننگ نے سب کچھ چھین لیا۔ عشق کی دیوانگی بھی۔ اب سب کچھ فیوچر پلاننگ کے مطابق ہے۔ کیا شادی اور کیا عشق۔ اب وہ آہیں اور جگر کے درد رہے اور نہ پاگل کردینے والی یادیں۔
ہجر، آنسو، درد، آہیں، شاعری
یہ تو باتیں تھیں ہماری، تم کہو
پہلے غم اور الم کا معاملہ ہوتا تو کسی کونے میں منہ لپیٹ کر پڑ رہتے تھے۔ آنکھوں سے جوئے خون اور منہ سے آہیں۔ اب کانوں میں ہینڈ فری اور آن ائر باتیں۔ فیس بک، واٹس اپ۔ نہ جانے کس کس سے رابطے کس کس سے مراسم۔ پسند کے گانے، بے وزن اشعار اور تعریفیں۔ نہ آبلہ پائی رہی اور نہ در در ٹھوکریں اب تو سب نارمل حالات کے اسیر ہوگئے ہیں۔ سب کو نارمل حالات چاہییں۔ ہر کام حساب سے۔ پہلے کسی کے چہرے پر ہوائیاں نظر آتیں، رنجیدہ، افسردہ، نحیف ونزار، دور بین وخورد بین دکھائی دیتا تھا تو اگلے ہی لمحے اسے مریض عشق ڈکلیئر کردیا جاتا تھا اب ڈپریشن باور کیا جاتا ہے اور علاج بقول حضرت واصف ’’ڈپریشن آجائے تو عبادت کرو، پھر بھی ڈپریشن آجائے تو خیرات کرو، پھر بھی ڈپریشن آجائے تو محبت کرو‘‘۔ لیجیے جہاں سے شروع ہوئے پھر وہیں آگئے۔ جو کچھ بھی ہے محبت کا پھیلاؤ ہے۔ تیرے میرے ابد کا کنارہ ہے یہ۔ استعارہ ہے یہ۔ روپ کا داؤ ہے۔ پیار کا گھاؤ ہے۔ پہلے گھاؤ لگتے تھے، زخم ملتے تھے تو لوگ روتے تھے، بسورتے تھے۔ رونی شکل بناتے تھے۔ اب عجب رسم چلی ہے قہقہے لگاتے ہیں، موقع بے موقع منہ پھاڑ کر ہنستے ہیں۔ قہقہے اظہار عشق کا ذریعہ ہوگئے۔ یا للعجب!!! پہلے کہا جاتا تھا:
کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا
عشق ذات کی تکمیل کرتا تھا۔ آدمی کو مکمل کرتا تھا۔ اب ہر ایک عشق سے بے نیاز، عشق سے بیزار۔ نتیجہ چاروں طرف نامکمل لوگ۔ راہ میں ساتھ چھوڑ جانے والے۔ پھولے ہوئے سانسوں سے لفظوں کی جگالی کرنے والے۔ ہر طرف الفاظ ہی الفاظ، جذبوں سے خالی، عشق سے تہی۔ شوگر کوٹڈ۔ عشق طوالت کا متقاضی، ساری عمر کا روگ۔ جو طول نہ پکڑے وہ عشق ہی نہیں۔ یہاں ہر ایک جلدی میں۔ محض دستک پر انحصار۔ کسی کو عشق کی فرصت نہ دماغ۔ عشق اینٹ کا اینٹ سے ربط رکھتا تھا۔ اینٹ کو اینٹ سے جوڑے رکھتا تھا۔ اب بنا عشق دیواریں اپنے ہی بوجھ سے لرزاں، اپنے ہی بوجھ سے گرتی ہوئی۔ کون سمجھائے کون بتائے، بنا عشق ہر چیز عارضی، ہر چیز دھوکا، ہر چیز فریب۔ عشق عبادت ہے۔ عشق ندامت ہے۔ عشق توبہ ہے۔ عشق توبہ کے آنسو ہیں۔ وہ آنسو جو میرے ربّ کو انتہائی محبوب ہیں۔ جن کے لیے اس کے دربار میں قبولیت ہی قبولیت ہے۔ عشق پھول دینے کا عمل ہے۔ بات پھول دینے کی چلی ہے تو ایک بات یاد رکھیے اسلام پھول دینے کے خلاف نہیں ہے۔ بس آپ کے پاس پھول دینے کا حق ہو اور پھول لینے والا اس کا حق دار۔
آخر میں ایک لطیفہ: استاد: ’’بتاؤ کون سا پرندہ سب سے اونچا اڑتا ہے؟‘‘ شاگرد: ’’ہاتھی‘‘ استاد: ’’نالائق، بے وقوف، کس جاہل خاندان سے تعلق ہے تمہارا؟‘‘ شاگرد: ’’امی حکمران پارٹی کی لیڈر ہیں، ابو جرنیل ہیں اور تایا عدالت عظمیٰ کے جج‘‘ استاد ڈرتے ہوئے: ’’شاباش تم ٹھیک کہتے ہو، ہاتھی ہی سب سے اونچا اڑتا ہے۔ کل ہماری دیوار پر بھی تین بیٹھے تھے‘‘۔
مستقبل قریب میں حکمران جماعت کے ایک سیاست دان کے منہ سے مہینہ پندرہ دن میں بے تحاشا نوکریوں کی نوید سنی، اتنی کہ لوگ کم پڑ جائیں گے تو ہمارے منہ سے بھی فی البدیہہ یہی نکلا ’’نالائق، بے وقوف، جاہل‘‘ لیکن جب خیال آیا کہ حکمران جماعت، جرنیل اور اعلیٰ عدلیہ ایک ہی پیج پر ہیں تو چشم تصور میں ہمیں بھی بیرون ملک سے نوکریوں کی تلاش میں لوگوں کے بھرے ہوئے جہاز پاکستان کی سرزمین پر لینڈ کرنے نظر آتے لگے۔ کراچی کے ساحل پر دور دور تک بکھری ہوئی وہ لاشیں بھی نظر آنے لگیں، مغربی ممالک سے نوکریوں کی تلاش میں پاکستان آنے والے جن بدنصیبوں کی کشتیاں ساحل سے کچھ دور الٹ گئیں۔ عشق نہ ہو تو انسان خود کو بھی دھوکا دیتا ہے اور دوسروں کو بھی۔