سیکولرازم۔۔۔ کچھ مزید پہلو

387

پاکستان کے دو سیکولر دانش وروں نے سیکولر ازم اور سیکولر ازم کے عاشقوں کا بھانڈا بیچ چوراہے پر پھوڑ دیا ہے۔
ان میں سے ایک دانش ور جامعہ کراچی کے کلیہ فنون کے سابق ڈین پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر ہیں۔ انہوں نے کراچی میں ارتقا فاؤنڈیشن کے تحت ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیکولر ازم کے حوالے سے کئی اہم باتیں کہیں۔
انہوں نے کہا کہ اردو اور ہندی میں سیکولرازم کے لیے کوئی لفظ موجود نہیں۔ انہوں نے بھارت میں سیکولر ازم کی ابتر ہوتی ہوئی حالت پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں ہندو قوم پرستی سیکولر ازم کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکولر ازم کی ایک سادا تعریف یہ ہے کہ سیکولر ازم کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض مفکرین کے مطابق سیکولر ازم مذہبی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوکسفرڈ ڈکشنری میں لفظ سیکولر ازم کی یہ تعریف مہیا کی گئی ہے۔ “The belief that religion should not be Involved in the organization of society, education etc.”
(روزنامہ ڈان کراچی۔ یکم اپریل 2019ء)
آپ نے پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر کے خیالات ملاحظہ فرمائے اب ان خیالات کا تجزیہ بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔ مونس احمر نے بالکل درست فرمایا ہے کہ اردو اور ہندی میں لفظ سیکولر ازم کے لیے کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے لیے سیکولر ازم اتنا اجنبی ہے کہ ان کی زبانوں میں اس لفظ کو بیان کرنے کے لیے کوئی لفظ سرے سے موجود نہیں۔ اتفاق سے یہ صرف اردو ہندی کا معاملہ بھی نہیں، سیکولر ازم کے لیے عربی اور فارسی میں بھی کوئی لفظ موجود نہیں۔ عربی کی عمر تین ہزار سال سے زیادہ بتائی جاتی ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ عربوں میں گزشتہ تین ہزار سال سے کوئی ایسا زمانہ نہیں آیا جس میں کوئی ایسا لفظ وضع ہوتا جو سیکولر ازم کے لیے کفایت کرتا۔ فارسی کی عمر دو ہزار سال بتائی جاتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایران جیسی قدیم تہذیب کے حامل ملک میں بھی دو ہزار سال سے لفظ سیکولر ازم کا کوئی وجود نہیں۔ ہندی سنسکرت سے نمودار ہوئی ہے اور ہندوؤں کا کہنا ہے کہ سنسکرت کی عمر کم از کم چھ ہزار سال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان میں گزشتہ چھ ہزار سال سے ایسا کوئی عہد نہیں آیا جب سیکولر ازم کے لیے کوئی لفظ تخلیق ہوتا۔ اردو کی عمر ایک اعتبار سے پانچ سو اور دوسرے اعتبار سے بمشکل ڈھائی تین سو سال ہے۔ اسی عرصے میں اردو لفظ سیکولرازم سے پاک رہی ہے۔ زبانیں کسی تہذیب کے اہم تصورات کو بڑی اہمیت دیتی ہیں۔ مثلاً اسلامی تہذیب میں خدا اہم ترین تصور ہے۔ چناں چہ عربی، فارسی اور اردو میں خدا کے 99 نام ملتے ہیں۔ اسلامی تہذیب میں خدا کے بعد اہم ترین ذات رسول اکرمؐ کی ہے۔ چناں چہ عربی، فارسی اور اردو میں رسول اکرمؐ کے سو اسما موجود ہیں۔ ہماری زبان میں محبت کے لیے بھی کئی الفاظ ملتے ہیں۔ مثلاً عشق، محبت، اُلفت، انس، شیفتگی۔ غم زندگی کا اہم تجربہ ہے۔ چناں چہ اس کے لیے بھی ہماری زبان میں کئی الفاظ موجود ہیں۔ مثلاً غم، دُکھ، افسوس، ملال مگر لفظ سیکولر ازم اتنا حقیر ہے کہ عربی، فارسی، اردو اور ہندی میں اس کے لیے کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔ اس کے باوجود سیکولر لوگ سیکولر ازم کو پوری دنیا کے مسلمانوں پر مسلط کرنے کی کوشش اور سازش کرتے رہتے ہیں۔
مونس احمر صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہندوستان میں ہندو قوم پرستی سیکولر ازم کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ یہاں ڈاکٹر صاحب نے عجیب بات کہہ دی ہے۔ ارے بھائی قوم پرستی خواہ وہ مشرقی ہو یا مغربی اسے عہد جدید میں سیکولر ازم ہی نے زندگی فراہم کی ہے۔ جدید قوم پرستی نسل، جغرافیے اور زبان سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اسلام کہتا ہے کہ مسلمان ایک قوم، ایک ملت یا ایک اُمت ہیں تو اسلام کی بنیاد، نسل، جغرافیے اور زبان کی بنیاد پر نہیں۔ عیسائی خود کو سیدنا عیسیٰؑ کے ساتھ تعلق کی وجہ سے عیسائی کہتے ہیں۔ البتہ جدید مغرب کے لوگ خود کو نسل، جغرافیے اور زبان کی وجہ سے فرانسیسی یا برطانوی کہتے ہیں۔
ڈاکٹر مونس احمر نے ایک اہم بات یہ کہی ہے کہ سیکولر ازم کی سادا تعریف کی رو سے سیکولر ازم کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی تو مسئلہ ہے۔ مسلمان اسی لیے سیکولرازم سے نفرت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی ہر چیز مذہبی ہے، ان کے عقاید، عبادات، اخلاقیات، علوم، فنون، شادی بیاہ، زندگی اور موت کی رسمیں، کھانا پینا، سونا جاگنا۔ اب اگر سیکولر ازم مذہب سے لاتعلق ہے تو مسلمان اسے کس طرح قبول کرسکتے ہیں اور کس طرح اسے اپنی انفرادی، اجتماعی اور ریاستی زندگی میں دخیل کرسکتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ سیکولر ازم مذہبی بنیاد پر انسانوں کے درمیان امتیاز کا قائل نہیں۔ اگر ایسا ہے تو یورپ کے کئی ممالک میں برقعے اور اسکارف پر پابندی کیوں ہے اور کچھ خواتین کو بکنی استعمال کرنے کا حق کیوں حاصل ہے۔ فرانس میں جہاں 70 لاکھ مسلمان آباد ہیں مسلمانوں میں بیروزگاری کی شرح مقامی آبادی کے مقابلے پر دوگنا کیوں ہے؟۔
ڈاکٹر مونس احمر نے اوکسفرڈ ڈکشنری سے سیکولر ازم کی یہ تعریف نکالی ہے۔
’’سیکولر ازم ایک ایسا Belief جو کہتا ہے کہ معاشرے اور تعلیم کی تنظیم میں مذہب کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
جناب عالی مذہب ایک Belief ہے اور بقول مونس احمر کے اوکسفرڈ ڈکشنری کہہ رہی ہے کہ سیکولر ازم بھی ایک Belief ہے تو پھر مذہب اور سیکولر ازم میں فرق ہی کیا ہے؟ آخر کیوں انسان بالخصوص مسلمان مذہب کے Belief یا عقیدے کو چھوڑ کر سیکولر ازم کا Belief یا عقیدہ اختیار کریں؟۔ جیسا کہ ظاہر ہے مسلمانوں کے ’’عقیدے‘‘ میں خدا بھی ہے، قرآن بھی، رسولؐ بھی، آخرت بھی اور دُنیا بھی۔ مگر سیکولر ازم کے عقیدے میں نہ خدا ہے، نہ قرآن ہے، نہ رسولؐ ہیں، نہ آخرت ہے، اس عقیدے میں صرف دنیاہے تو کیا مسلمان اتنے احمق ہیں کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر صرف دنیا کے لیے سیکولر ازم اختیار کرلیں جب کہ خود ان کے مذہب میں دنیا کی بھی ایک جگہ ہے۔
یہ تو ایک سیکولر دانش ور کا قصہ ہوا، اب دوسرے سیکولر دانش ور ناصر عباس نیرّ کی کہانی سنیے۔ انہوں نے کراچی کے انگریزی اخبار دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:۔
“Urdu’s identity from Class 1 to PhD is associated with religion. In Urdu’s curriculum, there are lessons on religion. So the real literature which expresses human experience is not there. The spirit of literature is secular but we have teachers of Urdu in our universities who interpret the text of literature in religious terms”. He says we can’t blame madrassas alone when there are Physics PhDs who in their classes teach the need to understand every scientific fact as per religion. “The students think there is only one way to understand the world and that is through religion. The world is divided into black and white, and those who don’t agree with them are kafirs, worthy to be killed.”
(The News-March-31-2019)
ترجمہ:۔ اردو کا تشخص درجہ اوّل سے لے کر پی ایچ ڈی کی سطح تک مذہب سے وابستہ ہے۔ اردو کے نصاب میں مذہبی نوعیت کے اسباق ہوتے ہیں۔ چناں چہ حقیقی ادب جو انسانی تجربے کو بیان کرتا ہے اردو میں موجود نہیں۔ ادب کی روح سیکولر ہے۔ مگر ہماری جامعات میں اردو کے ایسے اساتذہ موجود ہیں جو ادبی متن کو مذہبی تعبیر مہیا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم صرف مدرسوں کو موردِ الزام نہیں ٹھیرا سکتے، کیوں کہ ہمارے یہاں ایسے پی ایچ ڈی ماہر طبعیات ہیں جو اپنی کلاسوں میں کہتے ہیں کہ ہر سائنسی حقیقت کو مذہبی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ طلبہ کا خیال ہے کہ دنیا کو صرف مذہبی تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔ ان لوگوں نے دنیا کو سیاہ و سفید میں تقسیم کیا ہوا ہے اور جو شخص ان سے اتفاق نہ کرے وہ کافر اور موت کا حقدار ہے۔
ناصر عباس نیرّ اردو کے افسانہ نگار بھی ہیں اور نقاد بھی۔ دیکھا جائے تو ان کی مذکورہ بالا گفتگو اتنی اشتعال انگیز ہے کہ صرف اس گفتگو پر پورا کالم لکھا جاسکتا ہے۔ ناصر عباس نیرّ کا سب سے اشتعال انگیز دعویٰ یہ ہے کہ ادب کی روح سیکولر ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کس کا دعویٰ ہے؟ کیا دُنیا کی کسی زبان یا دُنیا کے کسی ادبی متن نے اچانک انسان بن کر یہ فرما دیا ہے کہ ادب کی روح سیکولر ہے؟۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے، اس کے معنی یہ نہیں کہ یہ دعویٰ خود ناصر عباس نیرّ کا ہے۔ ناصر عباس نیرّ اوّل تو سقراط، افلاطون اور ارسطو نہیں ہیں، ہوتے بھی تو ان سے اس دعوے کی دلیل مانگی جاتی کہ ادب کی روح سیکولر ہے، سیکولر لوگوں کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ دعوے کرتے ہیں مگر دلیل نہیں دیتے۔ علمی موضوعات پر کلام کرتے ہیں اور نعروں کا سہارا لیتے ہیں۔ بلاشبہ بہت سے ادیب ادب کو سیکولر سمجھتے ہیں مگر دنیا میں ایسے بہت سے ادیب گزرے ہیں اور اب بھی موجود ہیں جو ادب کو ایک مذہبی تناظر مہیا کرتے ہیں۔ جہاں تک خالص انسانی تجربے کا تعلق ہے تو اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ ہر انسانی تجربے پر اس کے بیان کرنے والے شخص کے کسی نہ کسی عقیدے کا سایہ ہوتا ہے۔ مثلاً کافر کو پوری کائنات میں کہیں خدا نظر نہیں آتا۔ اس کے برعکس اہل ایمان کو ہر طرف خدا نظر آتا ہے، انفس میں آفاق میں، چاند ستاروں میں، پیڑ پودوں میں، صبح میں شام میں۔ چناں چہ ناصر عباس نیرّ ’’خالص انسانی تجربے‘‘ کی تو بات ہی نہ کریں۔ خدا کا شکر ہے ناصر عباس نیرّ نے اردو کو ایک مذہبی زبان کا درجہ دے دیا ہے۔ مگر برادرِ من صرف اردو مذہبی زبان تھوڑی ہے۔ عربی، فارسی، سنسکرت، ہندی، سندھی، پنجابی، لاطینی بھی مذہبی زبانیں ہیں۔ چناں چہ ناصر عباس نیرّ کس کس زبان کی گردن ماریں گے؟۔
کتنی عجیب بات ہے ناصر عباس نیرّ انسانی ساختہ سیکولر ازم کو اتنی بڑی چیز سمجھتے ہیں کہ ادب، فلسفہ، طبیعات، نفسیات، معاشیات، غرضیکہ تمام علوم و فنون سیکولر ہوسکتے ہیں مگر ان کے نزدیک خدا کا بنایا ہوا اسلام اتنا حقیر اور معمولی ہے کہ اس کے اصولوں اور تناظر کو طبیعات، معاشیات، سیاسیات اور ادب پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مسلمان اپنے آپ سے اختلاف کرنے والے کو کافر قرار دے کر مار ڈالتے ہیں تو مسلمانوں نے تاریخ میں کبھی کبھار ہی ایسا کیا ہوگا لیکن سیکولر کمیونزم اور سیکولر مغرب نے تو اپنے کروڑوں حریفوں کو قتل کر ڈالا۔ کیا ناصر عباس نیرّ کو معلوم نہیں کہ چین کے انقلابی رہنماؤں نے انقلاب کے دوران چار کروڑ افراد کو قتل کیا۔ روس میں 80 لاکھ لوگوں کو کمیونسٹ انقلابیوں نے مار ڈالا۔ سیکولر امریکا کے باشندوں نے مائیکل مان کے بقول ’’Americas‘‘ میں آٹھ دس کروڑ مقامی باشندوں کو قتل کر ڈالا۔ امریکا نے صرف عراق میں 16 لاکھ لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ یہ دنیا گزشتہ دو سو سال سے سیکولر لوگوں ہی کے ہاتھ میں ہے اور سیکولر لوگوں نے پوری دنیا کو جہنم میں ڈھال دیا ہے مگر سیکولر لوگوں کو سیکولر لوگوں کا تخلیق کیا ہوا جہنم تو نظر نہیں آتا البتہ مذہب کی غلط تعبیر کرنے والوں سے کہیں ظلم ہو جاتا ہے تو وہ اس کو پورے مذہب اور تمام مذہبی لوگوں سے منسوب کردیتے ہیں۔ سیکولر لوگ اپنے اونٹ بھی ہڑپ کر جاتے ہیں مگر مذہبی لوگوں کے مچھر بھی چھانتے ہیں۔ واہ کیا سیکولر ازم ہے؟۔