صنعتی فضلہ صاف کرکے سمندر برد کرنے کے منصوبے پر کام شروع

189

کراچی (رپورٹ: محمدانور) شہر کی صنعتوں سے نکلنے والے فضلے کو صاف کرکے سمندر برد کرنے کے لیے کمبائنڈ ایفولینٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس (سی ای ٹی پی) کے منصوبے پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے بالآخر عملی کام شروع کر دیا ہے اس مقصد کے لیے ابتدائی طور پر 2 پلانٹس کے کاموں کے لیے ٹینڈرز طلب کرلیے گئے ہیں۔ سی ای ٹی پی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر انجینئر ظہیر عباس نے ” جسارت ” کو بتایا ہے کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کے تسلیم شدہ مقامی اور انٹرنیشنل کنٹریکٹرز سے ٹینڈر مانگے گئے ہیں جو باالتریب 6 جون اور 10 جون کو کھولے جائیں گے۔ ٹینڈرز فارم کنٹریکٹرز کو فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ یہ ٹینڈرز اسی روز کھولے جائیں گے جس روز ٹینڈرز جمع کرانے کی آخری تاریخ ہوگی۔ انجینئر ظہیر عباس نے بتایا کہ ٹینڈرز میں کامیاب ہونے والی فرم کو جتنی جلد ممکن ہوگا ورک آرڈر جاری کردیا جائے گا۔ کامیاب کنٹریکٹر فرمز ایفولینٹ پلانٹس کی تنصیب اور اس سے منسلک انٹرسیپٹر کا کام علیحدہ علیحدہ کیا جائے گا۔انٹرسیپٹر کے کاموں کے لیے مقامی فرم سے ٹینڈرز طلب کیے گئے ہیں جبکہ پلانٹس کی تنصیب کے لیے بین الاقوامی کمپنیوں سے ٹینڈرز لیے جارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ پلانٹس کی تنصیب کا کام ٹینڈر میں کامیاب ہونے والی فرمز ای پی اینڈ کنسٹریکشن کی بنیاد پر کریں گی۔ (Engineering, Procurement and Construction (EPC ) جس کے تحت فرم کو ڈیزائن سمیت تمام امور انجام دینے ہوتے ہیں۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ابتدائی مراحل میں 5 میں سے 2 کمبائنڈ ایفولینٹ پلانٹس کے کاموں کی تکمیل کے لیے ٹھیکے دیے جارہے ہیں۔ یہ پلانٹس ٹرانس لیاری اور کورنگی انڈسٹریل ایریا میں نصب کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ سی ای ٹی پی پروجیکٹ کی 2017ء میں وفاقی حکومت نے باقاعدہ اقتصادی کونسل سے منظوری حاصل کی تھی۔ یہ منصوبہ 11 ارب 79 کروڑ کی لاگت سے57 ماہ کی مدت میں مکمل کیا جائے گا۔ منصوبے کے تحت 5 کمبائنڈ ایفولینٹ پلانٹس شہر کے مختلف صنعتی علاقوں میں نصب کیے جائیں گے‘ جن میں ٹرانس لیاری، ماڑی پور ٹرک اسٹینڈ کے قریب، سائٹ، کورنگی اور گلشن معمار صنعتی ایریا شامل ہیں۔ سی ای ٹی پی کے منصوبے کی تکمیل اور فعال ہونے کے بعد صنعتی علاقوں سے یومیہ 92 ملین گیلن گند آب ٹریٹمنٹ کے بعد سمندر میں بہا یا جاسکے گا جو ان دنوں دیگر سیوریج کے پانی کے ساتھ بغیر ٹریٹمنٹ کے بہادیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے سمندری حیاتیات کو بری طرح نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس منصوبے کے لیے وفاقی حکومت مجموعی اخراجات کا نصف اور صوبائی حکومت آدھے اخراجات برداشت کرے گی۔ خیال رہے کہ سی ای ٹی پی کا منصوبہ 2005ء سے کاغذات میں پھنسا ہوا تھا تاہم روزنامہ جسارت 2015ء سے اپنی خبروں میں اس منصوبے کے سرخ فیتے کا شکار ہونے کی نشاندہی کرتا رہا جس پر 2016ء میں موجودہ اور اس وقت کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے جسارت کی خبروں کا نوٹس لیکر منصوبے کی تکمیل کے لیے محکمہ پلاننگ کو ضروری ہدایت کی تھی جس کے بعد سے منصوبے کے لیے کارروائی شروع ہوگئی تھی۔