پاکستان ملٹری اکیڈمی کا کول میں 139 ویں پی ایم اے لانگ کورس 9ویں مجاہد کورس، 58اینٹی گرنیڈ کورس اور 14 ویں لیڈی کیڈٹ کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوئی صدر مملکت عارف علوی مہمان خصوصی تھے۔ صدر اپنے منصب کے اعتبار سے مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بھی ہیں‘ پریڈ میں سعودی عرب اور سری لنکا کے کیڈٹس بھی شامل تھے صدر مملکت نے پریڈ کا معائنہ بھی کیا اور میڈل بھی دیے اور تقریب سے خطاب کیا‘ صدر کے الفاظ اور ہر جملے میں رہنمائی موجود تھی خطاب میں کہا کہ پاک فوج دنیا کی بہترین اور پیشہ ور فوج ہے اور آپ نے دنیا کی بہترین فوج میں تربیت حاصل کی ہے آپ کو اپنی قوم کے اعتماد پر پورا اترنا ہے پاکستان کی مسلح افواج انتہائی پرعزم اور سخت جان ہیں۔ پاک فوج دہشت گردی اور ملک کو درپیش مختلف خطرات سے پوری طرح باخبر ہے۔ پاک فوج کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے مشرقی محاذ پر حالیہ لڑائی اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ ہماری آپریشنل تیاریوں اور بھر پور جواب نے دشمن کے ناپاک عزائم کو شکست دی۔ کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ قومی سلامتی کی معمولی خلاف ورزی پر بھی بھرپور جواب دیا جائے گا اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان امن کا ہمیشہ خواہاں رہا ہے ہم امن اور برابری اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات چاہتے ہیں‘ صدر کا خطاب ریاست کی پالیسی کے عین مطابق تھا‘ جس میں امن کی بات کی گئی اور تیاری کا عنصر بھی غالب رہا‘ اس خطہ میں امن کی کوشش پاکستان نے ہمیشہ کی ہے لیکن دہلی نے ہماری کوشش آگے نہیں بڑھنے دی اور ابھی حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے انٹرویو میں کہا کہ بھارت سے ایک ہی مسئلہ ہے ‘ وہ ہے کشمیر‘ وزیر اعظم نے کلی طور پر درست کہا‘ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہورہا ہے اور چاہتا ہے کہ کشمیری عوام اپنے مستقبل کے لیے رائے شماری کا حق نہ مانگیں مقبوضہ وادی میں بھارتی قابض فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے قابض فوج نے ضلع شوپیاں کے علاقے گیہند میں محاصرہ کرکے سرچ آپریشن کی آڑ میں مزید 2 نوجوانوں کو شہید کردیا۔ بھارتی قابض فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ دونوں نوجوان مسلح مقابلے میں شہید ہوئے، علاقے میں اب بھی سرچ آپریشن جاری ہے نوجوانوں کی شہادت کے خلاف مقامی افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور بھارت کے خلاف اور اسلام کے حق میں نعرے لگائے۔ اس موقع پر بھارتی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ مشتعل نوجوانوں نے بھارتی اہلکاروں پر پتھراؤ کیا جس کے جواب میں فورسز نے ان پر لاٹھی چارج کیا اور شیلنگ کی۔ مگر مظاہرین کے جوش و خروش اور ثابت قدمی میں کوئی فرق نہیں آیا۔
مقبوضہ کشمیر بھارت کے پنج�ۂ استبداد سے نکل کر آزادی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کے قوی امکانات کشمیریوں کی لازوال قربانیوں اور بھارتی فورسز کے اعصاب شل ہونے سے واضح ہو رہے ہیں۔ اڑھائی تین سال قبل برھان مظفر وانی کی شہادت کے بعد کشمیریوں کے جذبہ حریت کو نئی مہمیز ملی۔ وہ بھارتی فورسز کے کسی ظلم و جبر اور درندگی کے ضابطے کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ تین سال قبل بھارت کے تسلط سے نجات کی جو جدوجہد شروع ہوئی اس میں سر مو فرق نہیں آیا۔ اجتماعی قبروں کی دریافت، چادر و چار دیواری کی بدترین پامالی، بچوں اور خواتین پر تشدد، پیلٹ گنوں کا انسانیت کو شرما دینے والا استعمال اور کیمیائی ہتھیاروں سے زندہ انسانوں کو عمارتوں میں پگھلا کر رکھ دینے کے حربے کشمیریوں کے جذبہ حریت کے سامنے بند باندھنے میں بُری طرح ناکام ہوئے۔ بھارت کی کٹھ پتلی حکومت کی ریاستی مشینری کے ذریعے کشمیریوں کی جدوجہد پر قابو پانے کی تدبیریں بھی ناکام ہوئیں، اس نے مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل پر زور دیا تو اس حکومت کو مودی سرکار نے چلتا کیا اور گورنر راج نافذ کر دیا مگر گورنر راج سے مقاصد حاصل نہ ہو سکے تو صدر راج لاگو کر دیا گیا وہ بھی ناکامی کی دھول چاٹ رہا ہے۔
مسئلہ کشمیر کے فوجی کے بجائے سیاسی حل کی تجاویز اور مشورے بھارت کے اندر بھی دیے جا رہے ہیں حتیٰ کہ بھارتی فوجی کمانڈر بھی اس دیرینہ مسئلے کے سیاسی حل پر زور دے رہے ہیں جن کے اہلکار کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھا کر نفسیاتی مریض بن رہے ہیں، کئی کی گھریلو زندگیاں برباد ہو گئیں، کئی پاگل پن میں مبتلا ہوئے اور کئی خودکشیاں کر رہے ہیں بھارتی فوج کی پندرہویں کور کے جنرل آفیسر کمانڈنٹ لیفٹیننٹ جنرل اے کے بھٹ نے مسئلہ کشمیر کو سیاسی طور پر حل کرنے کے لیے کشمیریوں سے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ فوج کا ایک محدود کردار ہے۔ کشمیر کے پیچیدہ مسئلے کو اچھے نظم و نسق اورسیاسی مذاکرات سے حل کیا جاسکتا ہے۔ فوج صرف معمول کے حالات بحال کرنے کے لیے مدد کر سکتی ہے، امن برقرار رکھنا فوج کا کام ہے لیکن مسئلے کا طویل مددتی حل حکومت کو خود ڈھونڈنا ہوگا۔ بھارتی جنرل نے اعتراف کیا کہ تحریک آزادی کشمیر کو عوام کے بڑے حصے کی حمایت حاصل ہے۔ بڑی تعداد میں مقامی نوجوانوں کا مجاہدین میں شامل ہونا فوج کے لیے تشویش کا سبب ہے، یہ تعداد بڑھ رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ 200 مجاہدین کو شہید کرنے کے باوجود ان کی تعداد میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ سابق بھارتی وزیر خارجہ یشونت سنہا نے گزشتہ دنوں واضح طور پر مقبوضہ کشمیر کے دورے کے بعد ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کشمیر ہاتھوں سے نکل رہا ہے، مودی حکومت کشمیریوں کی تحریک کو طاقت کے وحشیانہ استعمال سے دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسی صورت حال کا ممکن نہیں کہ مودی سرکار کو ادراک نہ ہو، اس نے نہ صرف طاقت کے استعمال میں مزید اضافہ کر دیا بلکہ کشمیریوں کی جدوجہد سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کے خلاف محاذ بھی کھول دیا۔
فروری کے وسط میں جب پاکستان سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھا پلوامہ ڈراما رچا کر اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا پاکستان کی طرف سے بھارت کو ہوش کے ناخن لینے کے مشورے دیے گئے مگر مودی سرکار کے سر پر اس کے میڈیا کی انگیخت پر بدلے کا بھوت سوار تھا پاکستان کی امن کی کوششوں اور کسی بھی مہم جوئی سے باز رہنے کی تنبیہ کے باوجود جارحیت کے ارادے سے رات کے اندھیرے میں بھارتی طیارے پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے۔ پاک فضائیہ کو چوکس پاکر پے لوڈ گرا کر فرار ہو گئے سیاسی و عسکری قیادت نے ہر صورت جواب دینے کا واضح طور پر اعلان کیا دن کے اجالے میں پاک فضائیہ کے شاہینوں نے پاکستانی حدود کراس کرنے پر بھارت کے دو طیارے مار گرائے گئے بھارت کا مقابلہ تین جنگوں میں ہوا ایل او سی پر اس کی شرانگیزی کا منہ توڑ جواب ایک معمول ہے مگر دہشت گردی کی جنگ کے خلاف تجربات صرف پاک افواج ہی کا خاصہ ہیں دشمن کے وار کے خلاف پاک افواج کے بھرپور جواب پر دشمن زخم چاٹ رہا ہے۔ وہ کسی بھی ایڈونچر کا پھر ارتکاب کر سکتا ہے، جس کے جواب کے لیے پاک فوج حکومت اور قوم یکجہت، یکجا اور متحد ہے۔ بھارت کو اس طرح جواب ملے گا جیسا فروری کے آخر میں دو طیارے گرا کر اور پاکستانی سمندر کی طرف رُخ کرنے والی آبدوز بھگا کر دیا تھا۔ حالات واقعات نے ثابت کیا کہ جنگیں اسلحہ کے انباروں اور لاتعداد فوج کے ذریعے نہیں جذبوں سے جیتی جاتی ہیں اور ایسا جذبہ مسلمانوں اور پاکستانیوں سے بڑھ کر کسی میں نہیں ہو سکتا۔ بھارت کے جارحانہ عزائم برقرار رہے اور وہ طاقت کے احمقانہ استعمال پر کاربند رہا تو دو ایٹمی قوتوں کے ٹکرانے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا جس سے خطے کی تباہی تو یقینی ہے، عالمی امن بھی تہہ بالا ہو جائے گا۔