کاش پاکستان میں بادشاہت ہوتی!!

283

 

 

عمران حکومت کے سرکاری ترجمان تو کوئی اور صاحب ہیں لیکن وفاقی وزیر اطلاعات (اب سابق) محترم فواد چودھری بھی اکثر حکومت کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان پر حکومت بلکہ عمران خان کے جذبات کی ترجمانی سجتی بھی خوب ہے۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان اِن دنوں اس بات پر بہت جِھلّائے ہوئے ہیں کہ نیب کی پکڑدھکڑ اور حکومت کے رعب داب کے باوجود نواز شریف اور زرداری سمیت کوئی بھی اپنی جیب ڈھیلی کرنے پر آمادہ نہیں ہے اور انہیں قومی معیشت کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے پوری دُنیا میں ہاتھ پھیلانے پڑ رہے ہیں۔ ایسے میں فواد چودھری نے اپنے قائد کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پاکستان میں بادشاہت ہوتی تو ہم بھی آدمیوں کو اُلٹا لٹکا کر ایک سو ارب ڈالر حاصل کرلیتے۔ ان کا اشارہ سعودی عرب کی جانب تھا جہاں خاندانی بادشاہت قائم ہے اور ولی عہد نے شاہی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملک کے انتہائی مالدار افراد کو ہوٹل میں بند کرکے سو ارب ڈالر اُگلوا لیے ہیں۔ فواد چودھری کے بیان سے یہ حسرت ٹپک رہی ہے کہ کاش پاکستان میں بھی بادشاہت ہوتی اور ہم بھی یہ کارنامہ انجام دے سکتے۔ چودھری صاحب کی یہ حسرت اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظمؒ کی رحلت اور قائد ملتؒ کی شہادت کے بعد پاکستان میں کسی نہ کسی شکل میں بادشاہت ہی کا راج رہا ہے۔ سب سے پہلے ایک بیورو کریٹ ملک غلام محمد نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کرکے اپنی بادشاہت قائم کی تھی، وہ ذہنی اور جسمانی دونوں اعتبار سے ایک مفلوج اور معذور فرد تھا، خود اپنی لکھی تحریر نہیں پڑھ سکتا تھا، جس کا ذکر قدرت اللہ شہاب نے آپ بیتی میں کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ کئی سال تک پاکستان پر بادشاہت کرتا رہا۔ البتہ باضابطہ بادشاہت کا آغاز جنرل ایوب خان کے دور میں ہوا جب انہوں نے جمہوری نظام کی بساط لپیٹ کر اپنی آمریت قائم کرلی اور تمام مخالف سیاستدانوں کو نااہل قرار دے دیا۔ انہوں نے 1956ء کا اسلامی و جمہوری آئین منسوخ کرکے اپنا نام نہاد صدارتی آئین نافذ کیا، جس میں صدر کو فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی حیثیت حاصل تھی اور تمام اختیارات صدر کی ذات میں مرتکز تھے۔ اس صدارتی آئین کے تحت ملک میں بنیادی جمہوریت کا نظام رائج کیا گیا اور اسّی ہزار بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے صدر کا انتخاب کرایا گیا، حالاں کہ اس تکلف کی کوئی ضرورت نہ تھی، جنرل ایوب خان اپنے ایک صدارتی حکم کے ذریعے خود کو تاحیات صدر قرار دے سکتے تھے جس طرح انہوں نے اپنے ہی ایک فرمان کے ذریعے خود کو فیلڈ مارشل بنالیا تھا۔ بہر کیف جنرل ایوب خان کی صدارت میں پاکستان کے عوام بادشاہت کے مزے لوٹتے رہے۔ یہ طلسم اس وقت ٹوٹا جب عوام اس بادشاہت سے اُکتا کر جنرل ایوب کے خلاف نعرے بازی پر اُتر آئے۔
جنرل ایوب خان نے اِن نعروں سے گھبرا کر تختِ شاہی سے اُترنے کا فیصلہ کیا تو اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوج کے سپ سالار کو اپنا جانشین بناگئے جس نے اپنے پیشرو کی پیروی کرتے ہوئے خود کو بادشاہ سلامت بنالیا۔ یہ شخص ہماری تاریخ کا سب سے زیادہ عیاش اور بد کردار بادشاہ ثابت ہوا جس کی ہوسِ اقتدار پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کا سبب بن گئی اور اسلامی تاریخ کا وہ المیہ رونما ہوا جس سے آج تک زخم رِس رہا ہے اور محبان پاکستان کو چُن چُن کر پھانسی پر لٹکایا جارہا ہے۔ اِس عیاش بادشاہ کے بعد ایک عوامی لیڈر نے باقی ماندہ پاکستان پر اپنا تخت اقتدار جمایا تو وہ جمہوریت کی آڑ میں اپنی بادشاہت کا راگ الاپتا رہا۔ اس کا دور ظلم، ناانصافی اور انسانی حقوق کی پامالی کا بدترین دور ثابت ہوا۔ خلقِ خدا چیخ اُٹھی اور اس کی بادشاہت سے نجات کے لیے سڑکوں پر نکل آئی۔ بالآخر ملک میں مارشل لا لگ گیا، فوج آگئی اور جرنیل نے اقتدار سنبھال لیا۔ اس نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ نوے دن کے اندر ملک میں انتخابات کراکے اقتدار منتخب جمہوری نمائندوں کے سپرد کرکے اپنے منصب پر واپس چلا جائے گا، لیکن اختیار و اقتدار کی کشش اور اس کے اندر چھپی ہوئی بادشاہت نے اسے ایسا مسحور کیا کہ نوے دن کا وعدہ نو سال پر محیط ہوگیا۔ اس نے بعداز خرابی بسیار انتخابات کرائے بھی تو اس میں جمہوری عمل کا کوئی شائبہ نہ تھا۔ لوگوں نے اس الیکشن کو سلیکشن سے تعبیر کیا جس کے اُوپر جرنیلی بادشاہت سایہ فگن تھی اور کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی۔
شاید یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا کہ طیارے کے حادثے نے جرنیلی بادشاہت کا خاتمہ کردیا۔ پاکستان ایک بار پھر جمہوریت کے دور میں پلٹ آیا، سیاسی جماعتوں کو عوام میں جانے کا موقع ملا، جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات ہوئے اور یکے بعد دیگرے چار سول حکومتیں قائم ہوئیں لیکن حکمرانوں کے طور طریقے نہیں بدلے وہ جمہوریت کی آڑ میں بادشاہت کرتے رہے۔ ایک صاحب تو پارلیمنٹ میں تین چوتھائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد امیرالمومنین بننے کے چکر میں تھے تا کہ ان کی بادشاہت پر اسلام کی چھاپ لگ جائے اور کوئی چوں نہ کرسکے، لیکن بُرا ہو قسمت کا کہ فوجی جرنیل نے چھاپا مار کر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور خود بادشاہ بن بیٹھا۔ اس کے دور میں نائن الیون برپا ہوا تو اس نے اپنی بادشاہت بچانے کے لیے امریکا کی غلامی اختیار کرلی اور برادر ملک افغانستان پر حملے کے لیے پاکستان کے تمام وسائل امریکا کے قدموں میں ڈھیر کردیے۔ اس کی بادشاہت ظلم، جبر اور ناانصافی سے عبارت تھی۔ کہنے کو اس نے بھی انتخابات کرائے، پارلیمنٹ تشکیل دی، کابینہ بنائی، وزیراعظم مقرر کیا لیکن یہ سب کچھ ایک ڈرامے سے زیادہ نہ تھا۔ وہ مطلق العنان حکمران تھا اور صرف اسی کا حکم چلتا تھا۔ وہ نو دس سال تک پاکستان کی قسمت سے کھیلتا رہا۔ اس نے کتنے ہی بے گناہ لوگ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیے، یہاں تک کہ پاکستان کی عفت مآب بیٹی عافیہ بھی پانچ ہزار کے عوض امریکا کو بیچ دی۔ لیکن قدرت کا قانون ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ اس جرنیلی بادشاہت کو بھی بالآخر زوال آگیا، اسے اقتدار سے دستبردار ہونا پڑا اور ملک میں ایک بار پھر جمہوریت کا احیا ہوا۔ توقع کی جارہی تھی کہ انتخابات کے ذریعے جو منتخب حکومت قائم ہوگی وہ ماضی سے سبق سیکھے گی اور ملک میں جمہوری قدروں کو فروغ دے گی لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ جو صاحب جوڑ توڑ کے ذریعے صدر بنے وہ ایوانِ صدر سے فرمان شاہی جاری کرتے رہے اور ان کے مقابلے میں پارلیمنٹ عضوِ معطل بن کر رہ گئی۔ یہ حکومت اس حال میں رخصت ہوئی کہ ہر طرف اس کی بیڈ گورننس اور لوٹ مار کا چرچا تھا۔ نئے انتخابات ہوئے تو وہ صاحب پھر تیسری بار وزیراعظم بن گئے جنہیں ایک جرنیل نے ایوان وزیراعظم سے نکال کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ خیال تھا کہ انہوں نے ماضی کے تلخ تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہوگا اور وہ کاروبارِ حکومت کو جمہوری انداز میں چلائیں گے لیکن یہ ساری توقع نقش برآب ثابت ہوئی۔ انہوں نے وہی پرانی شاہانہ روِش اختیار کرلی جو ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ پارلیمنٹ کو نظر انداز کردیا گیا، کابینہ کی جگہ کچن کیبنٹ نے لے لی اور حکومت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی۔ آخر آسمان سے پاناما لیکس نازل ہوئیں اور عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے انہیں اقتدار کے لیے نااہل قرار دے دیا۔
پھر گزشتہ سال نئے انتخابات ہوئے تو کپتان کی قیادت میں نئی ٹیم نے اقتدار سنبھال لیا۔ کہا گیا کہ ملک میں تبدیلی آگئی ہے اور نیا پاکستان ظہور پزیر ہورہا ہے لیکن لوگوں نے دیکھا کہ کپتان کے گرد درباریوں کا ہجوم ہے اور وہ اسے بادشاہ بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ وہی پرانی باتیں جو پہلے ہوا کرتی تھیں اب پھر دہرائی جارہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اگر پاکستان میں بادشاہت ہوتی تو ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ پاکستان میں بادشاہ تو ہے لیکن اس میں دم خم نہیں کہ وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لے سکے، اس لیے ہمیں آنے والے دنوں میں زیادہ مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اور بادشاہ سلامت جمہوریت کی مٹی پلید کرتے رہیں گے۔