کمزوری کا اعتراف یا خود احتسابی کا اظہار!

244

نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ کرنے والی پی ٹی آئی کی حکومت 18 اپریل کو اپنی کابینہ میں بڑا ردو بدل کرکے اس بات کو آشکار کرگئی کہ وہ مشکلات کا شکار ہے۔ پریشانیوں نے اسے جکڑ لیا ہے۔ اہم ترین وزارت خزانہ کے وزیر اسد عمر سمیت چھ وزراء کو ان کی موجودہ وزارت سے فارغ کرکے وزیراعظم عمران خان نے کارکردگی نہ دکھانے والے اراکین کا خود احتساب کرتے ہوئے انہیں آئینہ دکھایا ہے۔ مگر اس عمل سے وہ اپنے آپ کو بھی محفوظ نہیں رکھ سکے۔
عمران خان نے وزیراعظم ہوتے ہوئے وزیر داخلہ کا قلم دان اپنے پاس رکھا ہوا تھا جس سے بالآخر وہ دستبردار ہوگئے۔ وزارت داخلہ کا قلم دان وزیراعظم نے برگیڈئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کے حوالے کردیا ہے۔ اس مطلب واضح ہے کہ وہ بھی بحیثیت وزیر داخلہ کوئی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔ جیسے وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر اطلاعات فواد چودھری، وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی، وزیر پٹرولیم غلام سرور خان اور دیگر بھی اپنی کارکردگی نہیں دکھا سکے جس کی وجہ سے ان کے قلم دان تبدیل کرنا پڑے۔
محض 8 ماہ کی مدت میں کابینہ میں اتنے بڑے پیمانے پر ردوبدل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اردو کے سفر میں نہیں بلکہ انگریزی کے سفر (Suffer) میں ہے۔ انگریزی کے سفر کے معنی جھیلنا یا سہنا ہے جسے برداشت کرنا بھی کہا جاسکتا ہے۔ اتفاق سے پوری قوم مجموعی طور پر حکومت کے ہاتھوں Suffer ہی کررہی ہے۔ اور نہ جانے کب تک یہ ایسا ہی کرتی رہے گی۔
وفاقی کابینہ میں ردوبدل سے قبل وزیراعظم عمران خان سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملاقات کی تھی۔ اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ کابینہ میں تبدیلی کے حوالے سے آرمی چیف سے وزیراعظم نے مشورہ کیا یا خود پاک فوج کے سربراہ نے اس بارے میں وزیراعظم کو مشورے دے دیے ۔ یہ بھی واضح نہیں ہوسکا کہ ان دو بڑوں کی ملاقات سے کابینہ میں تبدیلی کا کوئی تعلق بھی تھا یا نہیں۔ مگر یہ شبہ کیا جاسکتا ہے کہ آرمی چیف کی رائے اور انہیں اعتماد میں لیے بغیر ملک کے موجودہ نظام میں اتنی بڑی تبدیلی ممکن بھی تو نہیں ہے۔ یہی تو ’’جمہوریت کم آمریت‘‘ کہلاتی ہے۔
کابینہ میں اس تبدیلی سے جن شخصیات پر ذاتی طور پر اثر پڑا ہوگا ان میں اسد عمر،فواد چودھری اور شہر یار آفریدی قابل ذکر ہیں۔ لیکن جن افراد کو ایک دم فائدہ پہنچا یا پہنچایا گیا ان میں برگیڈئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ اور عبدالحفیظ شیخ اہم ہیں۔ جنہیں علی الترتیب وزارت داخلہ اور خزانہ کی اہم وزارتیں دی گئی ہیں۔ برگیڈئر اعجاز شاہ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سابق چیف رہ چکے ہیں وہ 2004 سے 2008 تک ڈائریکٹر جنرل آئی بی کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ یہ وہ دور حکومت تھا جس کے سربراہ یا کرتا دھرتا سابق صدر و سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف تھے۔ ان پر سیاستدانوں پر دباؤ ڈالنے کے الزامات بھی ہیں۔ جبکہ بے نظیر بھٹو نے اپنے قتل سے قبل اور 16 اکتوبر 2007 میں کراچی میں بم حملے کے کچھ دن بعد لکھے گئے خط میں خود پر قاتلانہ حملے کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام برگیڈئر اعجاز شاہ سمیت چار افراد پر عائد کیا تھا ان میں موجودہ اسپیکر پنجاب اسمبلی اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی، وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم اور سابق آئی ایس آئی چیف مرحوم حمید گل شامل تھے۔
جبکہ وزیر خزانہ بننے والے عبدالحفیظ شیخ پرانے ’’جیالے‘‘ سے بڑھ کر عالمی بینک کی چہیتی شخصیات میں شامل ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت میں 2010 تا 2013 وفاقی وزیر خزانہ کے اسی عہدے پر فائز رہ چکے ہیں جس پر اب عمران خان نے انہیں لگایا ہے۔ اعجاز شاہ اور عبدالحفیظ شیخ میں پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف کے ساتھی ہونے کے باوجود جو اہم بات قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ دونوں پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے لیکن دونوں ہی پر بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا ’’آدمی‘‘ ہونے کا الزام بھی ہے۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ دونوں ہی نے اپنے اپنے صوبوں کی ماضی کی حکومتوں میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کابینہ میں ردوبدل کو اخبارات نے حکومت کے بڑے بڑے برج الٹائے جانا قرار دیا ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ کابینہ میں ردوبدل کرکے یا کروا کر تحریک انصاف کی پوری حکومت خصوصاً عمران خان کو کمزور ترین وزیراعظم کے طور پر متعارف کرادیا گیا۔ ویسے بھی اب کابینہ میں آبی وسائل کے وزیر فیصل واوڈا اور خود وزیراعظم عمران خان کے سوا کوئی بھی ایسا قابل ذکر نہیں رہا جسے تحریک انصاف کا اپنا بنیادی کارکن یا رہنما کہا جاسکتا ہو۔ ایسی صورت میں اس حکومت کو سیاسی جماعتوں کی مشترکہ جمہوری حکومت تو کہا جاسکتا ہے لیکن اسے خالصتاً تحریک انصاف کی حکومت کہنا درست نہیں ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کو ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ جب حکومت کے بڑے بڑے فیصلوں سے قبل آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان ہنگامی ملاقات ہو اور پھر فیصلے کا اعلان کیا جائے تو ایسی حکومت کم از کم خالصتاً جمہوری تو ہلانے کے لائق نہیں ہوتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ اس طرح جمہوریت اور آمریت دونوں ہی کو دانستہ یا دانستہ بدنام کیا جارہا ہے۔ اگر یہ بات درست مان لی جائے تو یہ ملک و قوم کے لیے باعث تعریف نہیں کہلائے گی۔ اس طرح کی حکومتیں کبھی بھی بہتر نتائج نہیں دے سکتیں۔ اگر یہ سب کچھ دانستہ کیا جارہا ہے تو قوم کو یقین کرلینا چاہیے کہ کچھ بھی نہیں بدلے گا سب کچھ ویسا ہی چلتا رہے گا جو 70 سال سے چل رہا ہے۔ فائدہ اٹھانے والے فائدہ اٹھاکر پس پردہ ہوتے رہیں گے۔ جو قوم اپنے اصل رہنماؤں کا انتخاب کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتی اس کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہونا کوئی انوکھی بات بھی تو نہیں۔