صرف نیگلیریا مافیا نہیں اور بھی ہیں…..

315

جسارت کے رپورٹر کی خبر ہے کہ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی نیگلیریا کا ہوا کھڑا کرکے فنڈز جمع کرنے والی مافیا فعال ہوگئی ہے۔ یہ مافیا افواہیں بھی پھیلاتا ہے۔ ڈاکٹروں کو ریسرچ کے نام پر مواد بھی فراہم کرتا ہے۔ اس مواد کی مدد سے اشتہارات شائع کرائے جاتے ہیں۔ نیگلیریا کی ہلاکت خیزی سے شہریوں کو خوفزدہ کیا جاتا ہے کہ جوں ہی ناک میں پانی ڈالا موت واقع ہوجائے گی، اس کا سبب کوئی جرثومہ بتایا جاتا ہے جو ناک کے راستے دماغ تک پہنچتا ہے۔ ایسی خبریں شائع کروائی جاتی ہیں کہ نیگلیریا کا ایک اور مرض چل بسا۔ تیز رفتار خبرناموں اور بریکنگ نیوز کی دوڑ میں کوئی بھی ٹھیر کر یہ جائزہ نہیں لیتا کہ جس فرد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ نیگلیریا کا مریض تھا اس کو کسی ڈاکٹر نے نیگلیریا کا مریض قرار دیا، کیا ڈاکٹر ریکارڈ پر یہ بات ذمے داری سے کہہ سکتا ہے۔ اس کام کے لیے پورا نیٹ ورک سرگرم ہوجاتا ہے، پانی کی خرابی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق پانی ہی کے ذریعے جراثیم دماغ میں پہنچتے ہیں لیکن خراب پانی تو کراچی سے باہر نکلتے ہی سکھر تک اپنی بہار دکھا رہا ہے تو پھر ٹھٹھہ، حیدر آباد اور سندھ کے درجنوں شہروں کے لاکھوں لوگوں کو نیگلیریا میں مبتلا ہونا چاہیے۔ غرض کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگ وضو اور غسل سے خوفزدہ ہوجائیں۔ بات صرف نیگلیریا مافیا کی نہیں ہے، یہ مافیا تو عیدالاضحی کے موقع پر کانگو وائرس سے خوفزدہ کرتا ہے تا کہ لوگ قربانی کے جانور گھروں میں لا کر قربانی نہ کریں۔ کانگو وائرس سال کے 11 ماہ کہاں غائب ہوتا ہے۔ نیگلیریا وائرس کہاں ہوتا ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھیں جس مافیا نے زندگی عذاب کر رکھی ہے وہ پولیو مافیا ہے اس پر فتوے بھی لے لیے گئے ہیں اور سرکار کا ڈنڈا بھی ہے۔ لیکن کسی کو اس پر ریسرچ کرنے کی اجازت نہیں۔ ریسرچ کر بھی لی تو تسلیم نہیں کی جائے گی۔ پولیو مافیا تو نیگلیریا اور کانگو مافیا سے بہت بڑا نیٹ ورک ہے، یہ پوری دنیا میں ہے، اس پر اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں، اس مافیا کے پروپیگنڈے پر ایمان لانا تیسری دنیا کے حکمرانوں کا فریضہ اول ہوتا ہے، اگر اس پر شکوک کا اظہار کردیا تو حکومت بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں تو حکمرانوں کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے فرست نہیں، اتنے اہم امور پر کیا توجہ دیں گے۔ اس قسم کا ایک مافیا جی ایم او بیج ہے۔ کسانوں کو ایسے بیج فراہم کیے جاتے ہیں جن سے کم رقبے پر زیادہ فصل ہوتی ہے لیکن اگلی فصل کے لیے بیج ان ہی لوگوں سے لینے پڑیں گے کیوں کہ ایسی فصلوں میں یا تو بیج نہیں ہوتے یا پھر ان بیجوں میں پیداواری صلاحیت نہیں ہوتی۔ غذائی اشیا کا مزا الگ خراب ہوگیا ہے اور اس کے اثرات انسانی صحت پر جو پڑیں گے ان کا تو ہمارے حکمرانوں کو اندازہ ہی نہیں۔ جو چیز ان فصلوں میں ہوگی وہی کھانے والوں پر اثر انداز ہوگی۔ معاشی طور پر بھی کسان اس بین الاقوامی مافیا کے محتاج ہوجاتے ہیں۔ بھارت میں تو خودکشیاں کرچکے۔ یہی حال دودھ کے معاملے میں ہے، تازہ دودھ کے بجائے ڈبہ پیک دودھ کی مہم چلائی جاتی ہے اس کا کیا سبب ہے۔ صرف یہ کہ پاکستان کی ڈیری کی صنعت تباہ ہوجائے۔ اس شعبے میں لوگ خود کشی تک پہنچ رہے ہیں۔ ڈبہ پیک مافیا کھلے دودھ کے خلاف مہم چلاتا ہے، بکاؤ میڈیا اس کا ساتھ دیتا ہے اور ڈیری فارمرز صرف غصے کا اظہار کرکے رہ جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ لوگ بھینسیں بیچ رہے ہیں اور میڈیا کی مدد سے یہ مافیا بھی کامیاب ہورہا ہے، پھر قوم بے مزہ، بے قوت ڈبہ پیک دودھ ہی خریدے گی۔ جن فصلوں کو جی ایم او کی نذر کیا جارہا ہے آنے والے دنوں میں اس وجہ سے پاکستان کا یہ دعویٰ بھی بے کار ہو کر رہ جائے گا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ جب زراعت بے مزہ اور صحت کے لیے نقصان دہ ہوجائے گی اور محتاجی بین الاقوامی اداروں کے بیج حاصل کرنے کی ہوگی تو ملک زرعی کیونکر دے گا۔ درآمد میں اضافہ اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوگی۔ اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو سب صفایا ہوجائے گا۔ اب سے چند برس قبل تک آلو بخارے اور خوبانی رس دار مزے دار ہوتے تھے اب پھیکے اور بے مزہ ہیں۔ آڑو بڑے ہوگئے بے مزہ ہیں۔ حتیٰ کہ پپیتے میں بھی ہابرڈ آگئے ہیں۔ جس دیس پپیتے کے بیج یوں ہی کچی زمین پر پھینک دیں وہاں چند روز میں پپیتے کا درخت نکل آتا ہے اب اس سے بھی محروم کیا جارہا ہے۔ اور حکومتیں اپنی اسمبلیوں میں ڈاکو پکڑ رہی ہیں۔ پاکستانی حکومت آئی ایم ایف کے ایجنڈے کے مطابق اپنی ٹیم بدل رہی ہے۔ منتخب افراد کے بجائے غیر منتخب لوگوں سے کام چلا رہی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی جیسے جی ایم او بیج۔۔۔ اسمبلی میں بھی مصنوعی قیادت پھر بھی مصنوعی مشیر اور معاونین کی فوج۔ زراعت سے لے کر پارلیمنٹ تک سب کچھ مافیاؤں کے ہاتھ میں ہے، اور سب کے سب جی ایم او۔