مجالسِ کِبار اور دینی مدارس وجامعات (حصہ دوم)

346

 

 

ایک تقریر ہمیں گزشتہ دو عشروں سے مسلسل سننی پڑ رہی ہے، موضوع اور سامعین ایک ہوتے ہیں، مقررین وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں، مدارس کے طلبہ کی ہمدردی میں رچے بسے پرکشش الفاظ کچھ اس طرح ہوتے ہیں: ’’ہم چاہتے ہیں: مدارس کے طلبہ فوج میں جائیں، میڈیکل میں جائیں، انجینئرنگ میں جائیں، زندگی کے تمام شعبوں میں جائیں، وغیرہ ‘‘۔ کیا یہ تقریر کوئی جاکر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہیومنٹیز، آرٹس اور سوشل سائنسز یا میڈیکل کے طلبہ سے کہتا ہے: ہم چاہتے ہیں آپ انجینئر بھی بنیں، ٹیکنالوجسٹ یا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بھی بنیں، وغیرہ۔ دینی مدارس میں طلبہ وطالبات خود چل کر آتے ہیں، این جی اوز کی طرح کوئی ادارہ انہیں گھروں سے ترغیب دے کر نہیں لاتا، ان کے والدین خود بھیجتے ہیں اور ان کے والدین کو پتا ہے کہ وہ کیا پڑھنے جارہے ہیں۔ یہ نہ پتھر کا دور ہے، نہ ظلمت وجہالت کا، یہ میڈیا کے سیلاب کا دور ہے، سوشل میڈیا کو سب استعمال کرتے ہیں۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ دینی مدارس فضا میں معلّق یا پہاڑوں اور غاروں میں بند ایسے ادارے ہیں کہ جن میں پڑھنے والوں کو باہر کی دنیا کی کچھ خبر ہی نہیں ہوتی، وہ اس چوزے کی مانند ہیں جو ابھی انڈے سے باہر نہیں نکلا، کھلی فضا کا انہیں ادراک ہی نہیں، اُس نابینا کی مانند ہیں جسے رنگوں کا شعور اور تمیز ہی نہیں ہے۔
وفاق المدارس الشیعہ کے قاضی نیاز حسین نقوی کہتے ہیں: ہم نے کب لوگوں سے کہا ہے کہ ہم آپ کو ڈاکٹر، انجینئر یا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنائیں گے، ہم نے تو کہا ہے کہ ہم دین کا علم سکھائیں گے اور اس میں ماہر بنائیں گے۔ ایران میں دینی مدارس کے علماء نے تمام شعبے سنبھالے اور چلائے ہیں، میں خود پچیس سال جج رہا ہوں۔ کیا سعودی عرب میں جج کے منصب پر فائز ہونے والے علماء لنکن اِن یا ہارورڈ یونیورسٹی یا آکسفورڈ اور کیمبرج سے پڑھ کر آئے ہیں۔ ہماری بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنی برتری کا سہارا انگریزی زبان کو بنا رکھا ہے، اُسے ایک طرف کریں اور پھر علماء کے سامنے بٹھائیں، فرق سامنے آجائے گا۔
چنانچہ وزیرِ اعظم عمران خان حیرت زدہ رہ گئے کہ علماء جج بھی بن سکتے ہیں، حالاں کہ وفاقی شرعی عدالت اور عدالت عظمیٰ شریعت اپیلٹ بنچ میں علماء شامل رہے ہیں۔ آج اگر اسلامی فقہ وشریعت کو نافذ کردیا جائے تو یہ علماء ہی اس کے اہل ثابت ہوں گے۔ فیملی کورٹس کیوں ناکام ہیں، ان کے فیصلوں کو معاشرے میں قبولیت کیوں نہ مل سکی، اس کا سبب یہی ہے کہ مسلمانوں کے عائلی مسائل کا تعلق اسلامی شریعت اور فقہ سے ہوتا ہے اور فیملی کورٹس میں رونق افروز جج صاحبان کو دینی مسائل اور اُن کے تقاضوں سے بالکل آگاہی نہیں ہوتی، وہ کرائے نامے اور بیع نامے کی طرح محض نام تبدیل کر کے دو صفحوں پر ایک لگا بندھا فیصلہ لکھ کر جاری کردیتے ہیں، انہیں اس کا کوئی احساس نہیں ہوتا کہ یہ حلال وحرام کا مسئلہ ہے۔
’’دین میں جبر نہیں‘‘ کے عنوان سے میں اُن مجالس کا حوالہ دیے بغیر نفسِ مسئلہ ایک کالم میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں، اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی آچکا کہ دونوں نو مسلم لڑکیاں عاقلہ بالغہ تھیں اور قبولِ اسلام کے حوالے سے اُن پر جبر کا کوئی ثبوت نہیں ملا، حالاں کہ اس پر ہمارے میڈیا نے بے حد شور مچارکھا تھا، شاعر نے سچ کہا ہے:
وہ بات، سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات، اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
اس لیے میں نے تجویز پیش کی کہ وزارتِ مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی میں اس کے لیے ایک خصوصی سیکشن قائم کیا جائے، اس میں تمام مذاہب کے نمائندے موجود ہوں، اس مسئلے کو بھی اسی فورم پر پیش کیا جائے اور ثبوت وشواہد سے پہلے جبر کا واویلا مچانے پر پابندی لگائی جائے، جبر کا ثبوت مل جائے تو جبر کرنے والے کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ ہمارے پاس نومسلموں کے اسلام قبول کرنے کے جتنے واقعات آتے ہیں، اُن میں سے بیش تر کا تعلق محبت کی شادی سے ہوتا ہے، پس محبت اور جبر دو متضاد چیزیں ہیں۔
یہی نہیں، مغربی ممالک میں بیش تر صورتوں میں قبولِ اسلام کا محرک یہی ہوتا ہے، میں ایک مرتبہ لیسٹر میں پروفیسر خورشید احمد کی سربراہی میں قائم اسلامک مشن کے ادارے میں گیا، وہاں نومسلموں کی تربیت کا انتظام تھا، مجھے وہاں بھی یہی بتایا گیا کہ اسّی فی صد اسلام قبول کرنے والوں کا سبب شادی کرنا ہوتا ہے۔ بہت کم ہوتے ہیں جو شعوری طور پر دینِ اسلام کا مطالعہ کریں اور اس کو حق اور سچ مان کر دل وجان سے قبول کریں۔ یہ لوگ کم ہوتے ہیں لیکن ان کا وجود نعمتِ غیر مترقبہ ہے، یہ حقیقی معنی میں مشنری ہوتے ہیں، مغرب کے آئینی و قانونی نظام کے اندر رہتے ہوئے انہیں اپنے حقوق کا ادراک ہوتا ہے اور وہ دفاعی پوزیشن اختیار کر کے نہیں، بلکہ پورے ایمان وایقان اور استقامت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، برطانیہ میں یوسف اسلام اور کیلی فورنیا امریکا میں حمزہ یوسف اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔
ایک سوال نصاب پر اٹھایا جاتا ہے اور وہ طبقات اٹھاتے ہیں جنہیں روزِ روشن کی طرح معلوم ہے کہ پاکستان میں ایک نصابِ تعلیم رائج نہیں ہے۔ اکثر اعلیٰ درجے کے انگلش میڈیم اسکولوں میں کیمبرج سسٹم ہے، اے اور اولیول کا نظامِ امتحان ہے، کتب ہانگ کانگ، سنگا پور، برطانیہ وامریکا وغیرہ سے آتی ہیں یا اُن کا چربہ ہیں۔ اُن میں پاکستان کا کوئی حوالہ بھی آپ کو نہیں ملے گا، انہی اداروں کے تعلیم یافتہ لوگ ملک میں اعلیٰ مناصب پر فائز ہوتے ہیں، مگر اُن کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیار فرو تر ہے، سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے بچے بھی پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم پاتے ہیں، یہی حال بیوروکریسی، سیاست دانوں، حکمرانوں اور اشرافیہ کا ہے۔ ہمارے دفاعی اداروں کا نرسری سے لے کر یونیورسٹی تک اپنا معیاری اور یکساں نظامِ تعلیم ہے، سو اُن کے بچے ان اداروں میں تعلیم پاتے ہیں۔ حال ہی میں پختونخوا میں ایک سرکاری سروے میں بتایا گیا ہے کہ گورنمنٹ اسکولوں کے اساتذہ کی مُعتَد بہ تعداد نصاب پڑھانے کی اہلیت نہیں رکھتی، اردو تو بے انتہا کمزور ہے، حالاں کہ اس صوبے میں 2013 سے تحریک انصاف کی حکومت ہے، وہاں کے بارے میں قوم کو تسلسل کے ساتھ تعلیم وصحت میں بہتری کی نوید سنائی جارہی تھی۔ اس کے باوجود سب کو مدارس کی فکر ہے، حالاں کہ مدارس میں طلبہ وطالبات کا تناسب مجموعی قومی تعداد کا بمشکل دو یا تین فی صد ہوگا، مگر سب کو مدارس کی فکر بے چین کیے رکھتی ہے، اٹھانوے فی صد کی فکر کسی کو نہیں ہے۔
گزشتہ عشرے میں اساتذہ وطلبہ کے قتل، اساتذہ وطالبات کی بے حرمتی اور دہشت گردی کے واقعات زیادہ عصری تعلیمی اداروں کے بارے میں رپورٹ ہوئے ہیں، لیکن ہدفِ ملامت دینی مدارس قرار پاتے ہیں۔ دینی مدارس کی عصری تعلیم کے جن شعبوں سے مناسبت ہوسکتی ہے، وہ آرٹس، ہیومنٹیز اور سوشل سائنسز کی فیکلٹیز ہیں۔ ان میں تعلیم پانے والا محکمۂ تعلیم، سول وملٹری سروس، قانون اور دیگر شعبوں میں جاسکتا ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں چند مضامین لازمی ہوتے ہیں جو میٹرک سے بی اے کی سطح تک ہر فیکلٹی میں شامل ہوتے ہیں، باقی متعلقہ شعبے کے اختیاری مضامین ہوتے ہیں۔ انجینئرنگ، میڈیکل، ٹیکنالوجیز، سائنسز، کامرس، آئی ٹی الغرض سب کا شعبہ جاتی نصاب الگ الگ ہے۔
اس لیے ہم نے حکومت کو پیشکش کی ہے کہ پورے ملک اور قوم کے لیے لازمی مشترکہ نصاب بنالیں، ہم بھی اُسے اپنا لیں گے۔ جہاں تک دینی علوم کا شعبہ ہے، اُن میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آسکتی، فنون کی کتابوں میں ردّوبدل ہوتا رہتا ہے، یہ ایک جاری عمل ہے۔ ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ ریاست وحکومت کو دینی مدارس وجامعات سے مسئلہ کیا درپیش ہے تاکہ ہم اُن کے تحفظات کا ازالہ کریں۔ حال ہی میں ایک اجلاس میں مفتی محمد تقی عثمانی نے پوچھا: ہمیں یہ بتایا جائے کہ حکومت اور اس کے ادارے ہمیں سمجھتے کیا ہیں: ہم حکومت اور اداروں کی نظر میں دہشت گرد ہیں، ماہرین تعلیم ہیں، معاشرے میں اصلاح کا فریضہ انجام دیتے ہیں یا کچھ اور ہیں، ازراہِ کرم ہمیں بتادیا جائے۔
حال ہی میں اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی پانچ تنظیموں کے تحت پاکستان بھر میں امتحانات منعقد ہوئے ہیں، نہایت سکون اور نظم وضبط کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچے۔ اسی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مختلف تعلیمی بورڈز کے امتحانات بھی ہورہے تھے اور الیکٹرونک میڈیا پر اسمارٹ موبائل، کتابوں، مائکرو کاپیوں کے ذریعے نقل کرتے ہوئے دکھایا جارہا تھا اور یہ تماشا مختلف شہروں میں جابجا ہورہا تھا۔ پرچے آؤٹ ہونا بھی تقریباً معمول ہے حتیٰ کہ صوبہ خیبر پختون خوا میں پرچہ آؤٹ ہونے کی بنا پر میڈیکل کا انٹری ٹیسٹ ایک بار منسوخ اور ایک بار ملتوی کرنا پڑا، پاکستان بھر کے سرکاری تعلیمی بورڈز کی داستان یہی ہے۔ الزامی انداز میں بات کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا، مجبوراً یہ شِعار اختیار کرنا پڑا ہے، کیوں کہ ہم سب ایک قوم کے فرد ہیں، اگر کہیں کوئی چیز قابلِ افتخار ہے تو سب کے لیے ہے اور کوئی چیز باعثِ ننگ وعار ہے تو سب کے لیے ہے، ہم ایک دوسرے کو ملامت کرکے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے، سب کو مل کر کمزوریوں پر قابو پانا چاہیے اور ملک کو اصلاح اور ترقی کی شاہراہ پر رواں دواں رکھنا چاہیے۔ آپ ایک ہی طبقے کو طعن وتشنیع کا ہدف بناتے رہیں گے تو ردِّ عمل کا آنا فطری بات ہے۔ بائیس کروڑ آبادی کے ملک کو صرف ریاستی طاقت اور جبر سے سدھارا نہیں جاسکتا، اس کے لیے اجتماعی اصلاحی اور تجدیدی کاوشوں کی ضرورت ہے۔