بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف عزائم اور بیانات کی چند جھلکیاں ملا حظہ فرمائیے:
٭ ہندوستان دنیا میں سافٹ ویئر برآمد کرتا ہے اور پاکستان دہشت گرد۔
٭ پاکستان پورے خطے کو خون سے رنگنا چاہتا ہے۔
٭ پاکستان کو جانے والی پانی کی بوند بوندکو روک دیں گے۔
٭ پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیں گے۔
بھارت میں الیکشن آخری مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جو 23مئی 2019 کو اختتام پزیر ہو جائیں گے۔ بھارت کے طول وعرض میں الیکشن نہیں ایک جہنم ہے مسلمان جس کا ایندھن ہیں۔ بھارت کے مسلمان اس ”ہندوتوا“ اور مذہبی جنونیت کے نشانے پر ہیں وزیر اعظم نریندر مودی جس کے پر چارک اور نقیب ہی نہیں مرکز ومحور ہیں۔ وہ مسلمانوں سے شدید نفرت کرتے ہیں اتنی کہ فسادات میں مسلمانوں کے مارے جانے کو گاڑی کے نیچے آجانے والے کتے کی مثل بے وقعت قرار دیتے ہیں۔ مودی حکومت بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ انتہائی وحشیانہ اور پرتشدد سلوک کررہی ہے۔ حکومتی طاقت مسلمانوں کو تباہ اور برباد کرنے کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔ الیکشن کو ووٹ دینے کا نہیں زندگی اور موت کا خون آشام کھیل بنادیا گیا ہے۔ مودی کے دور میں بھارتی جمہوریت موبو کریسی (ہجوم کی حکومت) ہے جس کا ہدف مسلمان ہیں۔ مسلمانوں پر ہندو اکثریت کی طرف سے ڈھائے جانے والے لرزہ خیز مظالم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو آئے روز جاری ہونے والی ویڈیو کلپس میں دیکھا جاسکتا ہے۔ آدمی جنہیں دیکھ کر لرز اٹھتا ہے۔ آسام میں ایک مسلمان قصاب کو ہندﺅں نے پہلے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اسے سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا۔ اتر پردیش (جہاںکا وزیر اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ ہے جو ایک کٹر ہندو اور مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے) میں گوشت کی ایک پوری مارکیٹ کو آگ لگا کر راکھ کردیا گیا۔ ایک بزرگ امام مسجد کو پکڑ کرہندﺅں نے زبردستی شراب اور گائے کا پیشاب پینے پر مجبور کیا۔
ادتیا ناتھ وزیراعظم مودی کا ہم زاد ہے جسے مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ تشدد اور بیان بازی کی اجازت نریندر مودی نے دے رکھی ہے۔ مودی کی شہ پر سوامی کی اشتعال انگیز تقریروں نے ہندوستان میں نہ جانے کب کب اور کہاں کہاں فسادات کی آگ بھڑ کائی ہے اس کا اندازہ کرنا ممکن نہیں۔ اگست 2015 میں سوامی جی نے ہندو والدین کو خبردار کیا تھاکہ وہ اپنی بیٹیوں کو Love جہاد سے بچائیں۔ مسلمان ہندو لڑکیوں کو شادی کے جال میں پھنسا کر مسلمان کرلیتے ہیں۔ ایک تقریر میں وہ کہتا ہے ”اگر وہ ایک ہندو لڑکی کا دھرم بدلوائیں گے تو ہم سو مسلمان لڑکیوں کا دھرم بدلوائیں گے۔ مسلمان اسی طرح بے تحاشا بچے پیدا کرتے رہے تو ایک دن دیش میں آبادی کا توازن بگڑ جائے گا۔ سرکار کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے پر روک لگانے کی یوجنا (منصوبہ بندی) کرے۔ ایک ہندو مارا جاتا ہے تو ہم پولیس کے پاس نہیں جائیں گے بلکہ دس مسلمان ماریں گے“۔ نیویارک ٹائمز میں ایلن باری نے ادتیا کے بارے میں ایک مضمون میں لکھا تھا: ”یہ یوگی وہ انسان نما حیوان ہے جس نے ہندوستان کے ماضی کی مسلم تاریخ کو مٹانے اور از سر نو ایک نئی تاریخ لکھنے کے لیے ایک فوج بنائی تھی جس کا وہ خود چیف تھا۔ اس فوج نے ہندوستانی مسلمانوں پر جو ظلم ڈھائے ہیں اور آج بھی ڈھارہی ہے وہ ہوش ربا ہیں۔ یوگی کہتا ہے: یہ مسلمان دو ٹانگوں والے ایسے حیوان ہیں جن کو روکنا از بس ضروری ہے۔ ہم سب ہندوستان میں ایک مذہبی جنگ کی تیاری کر رہے ہیں“۔ فروری
2015 میں بنارس میں اس نے کہا تھا ”اگر موقع ملا تو ہم ہر مسجد میں گنیش جی کی مورتیاں نصب کریں گے“۔ گزشتہ الیکشن مہم میں یوگی نے مسلمان عورتوں کے بارے میں انتہائی بیہودہ زبان استعمال کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ”اگر میرے بس میں ہو تو مری ہوئی مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکال کر ان پر جنسی تشدد کروں“۔ ادتیا ہر لمحے فرقہ پرستی کی بنیاد پر ہندو اور مسلمانوں میں کشیدگی پھیلانے میں مصروف رہتا ہے۔ اتر پردیش کے ایک گاﺅں سکت پور میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکا جاتا رہا ہے۔ انتہا پسند ہندو کہتے ہیںکہ ان کی حکومت ہے وہ نماز ادا کرنے نہیں دیں گے۔ مسلمانوں کو اگر نماز پڑھنی ہے تو گھر میں پڑھیں۔ 2016 میں پٹھان کوٹ میں ہندوستانی فضائیہ کے اڈے پر حملہ ہوا تو یوگی نے پاکستان کے بارے میں زہر اگلتے ہوئے کہا تھا ”پٹھان کوٹ پر حملے نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ شیطان کو تو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور راہ راست پر لایا جا سکتا ہے لیکن پاکستان کو نہیں“۔ یہ یوگی نہیں۔ یوگی کے پردے میں نریندر مودی ہے۔ یہ نریندر مودی کی فکر، جذبات اور بیانات ہیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد جو باتیں مودی خود نہیں کہہ سکتے ان کے اظہار کے لیے یوگی کو استعمال کرتے ہیں۔
آٹھ برس کی عمر میں نریندر مودی نے آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اوائل عمر سے مودی کے ذہن میں ہندو مذہب کی سر بلندی اور دیگر مذاہب خصوصاً اسلام کی نفی شامل تھی۔ آر ایس ایس 1925 میں قائم کی گئی تھی جس کا بنیادی منشور ہندو مذہب کی ترویج اور حکومت ہے۔ 1949 میں جب بھارتی آئین تشکیل دیا گیا آر ایس ایس نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کے بقول اس آئین میں ہندﺅں کی مذہبی کتاب ”منوسم رتی“ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ آر ایس ایس نے ہندوستان کے جھنڈے ترنگے کو ماننے سے بھی انکار کردیا تھا۔ ان کے خیال میں جھنڈے کا رنگ صرف اور صرف ”زرد“ ہونا چاہیے تھا۔ ہندﺅں کا مقدس رنگ۔ اس کے ہر رکن کے ذہن میں یہ بات راسخ کردی گئی ہے کہ برصغیر صرف اور صرف ہندﺅں کا ہے۔ باقی تمام مذاہب کا اس خطے پر کوئی قانونی یا اخلاقی حق نہیں ہے۔ حالیہ الیکشن میں بی جے پی نے مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی مسلمان سیا ست دانوں کو ٹکٹ دینے سے انکار کیا ہے۔ یوپی اس کی ایک زندہ مثا ل ہے۔ نریندر مودی گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا جب 2002 میں اس کی صوبائی حکومت میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ جو بھارتی تاریخ کا بدترین قتل عام تھا جس میں دو ہزار سے زاید مسلمان شہید کیے گئے۔ نریندر مودی کے دور میں مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی کوششیں اب عام سی بات ہے۔ آر ایس ایس میں بچپن سے شامل ہونے والا مودی اپنی سوچ، فکر اور عمل میں متعصب ترین ہندو ہے۔ نریندر مودی کے پاکستان اور مسلم کش جذبات حددرجہ مشکل، پیچیدہ اور پر تشدد ہیں۔
نریندر مودی کی زندگی کا بنیادی اصول مسلمانوں اور پاکستان سے شدید نفرت ہے۔ اور یہ صرف نریندر مودی تک محدود نہیں ہے۔ بی جے پی کا صدر امتشا بھی پاکستان سے اتنی ہی نفرت کرتا ہے۔ اس نے ایک انٹر ویو میں دو ٹوک لہجے میں کہا تھا ”پاکستان کے وجود کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ لوگ کشمیر کو کشیدگی کی بنیادی وجہ سمجھ رہے ہیں معاملہ اس سے بہت آگے کا ہے“۔ بھارت کی طرف سے پاکستان پر کشمیر میں دراندازی کا الزام ایک دکھاوا ہے۔ نریندرمودی اور بی جے پی کا صدر ہی نہیں پوری بی جے پی پاکستان کے نام سے مشتعل ہوجاتی ہے۔ نریندر مودی نے پوری دنیا میں اس تاثر کو پختہ کیا ہے کہ ہندوستان اور کشمیر میں دہشت گردی پاکستان کروارہا ہے۔ بھارت کی تجارتی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ بھارت کا دورہ کرنے والے ہر بین الاقوامی شخصیت، حکمران اور سیاست دان سے پاکستان کے خلاف بیان جاری کراتے رہے ہیں۔ ان تمام حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے کوئی پاگل ہی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ ”مودی کی جماعت بی جے پی کی کامیابی کی صورت میں کشمیر پر بات چیت کے زیادہ امکانات ہیں“۔ اس پاگل کا کیا نام ہے۔ اگلی قسط میں۔