یہ مغرب ہے

270

1971ءمیں پاکستان دولخت ہورہا تھا۔ پاکستان امریکا کا اتحادی تھا مگر امریکا نے پاکستان کی مدد سے صاف انکار کردیا۔ اس نے پاکستان کی درخواست پر اپنا ساتواں بحری بیڑا پاکستان کی طرف روانہ کرنے کا اعلان کیا مگر یہ بحری بیڑا کبھی پاکستان نہ پہنچ سکا۔ اس لیے کہ یہ بیڑا کبھی پاکستان کے لیے روانہ ہی نہیں ہوا تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ پاکستان نے امریکا سے ایف 16 طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا اور ایک ارب ڈالر کی خطیر رقم پیشگی کے طور پر امریکا کو ادا کردی مگر امریکا نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ ایف 16 دیے نہ رقم لوٹائی۔ امریکا دس بارہ سال تک ہمارے ایک ارب ڈالر دبائے بیٹھا رہا۔ بالآخر اس نے ہمیں اس رقم کے بدلے سویا بین آئل فراہم کیا۔ حالاں کہ ہمیں سویا بین آئل کی ضرورت ہی نہ تھی۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز نے امریکا کے لیے پاکستان کی معیشت تباہ کردی۔ 70 ہزار افراد مروا دیے۔ ملک کی بقا و سلامتی کو داﺅ پر لگادیا مگر امریکا Do more کا راگ الاپتا رہا۔
پاک بھارت کشیدگی کل کی بات ہے۔ یہ کشیدگی بھارت نے پیدا کی مگر امریکا دباﺅ پاکستان پر ڈالتا رہا۔ یہ امریکا ہی تھا جس نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کرانے کے لیے پاکستان پر دباﺅ ڈالا۔ پاکستان کا کوئی پائلٹ بھارت میں گرفتار ہو جاتا تو بھارت اسے مدتوں ”ٹرافی“ کے طور پر لیے پھرتا اور امریکا بھارت کے ساتھ کھڑا ہوتا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر منیر اکرم نے روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے اپنے ایک حالیہ کالم میں کہا ہے کہ پاکستان امریکا کو افغانستان سے باعزت واپسی کا موقع فراہم کررہا ہے مگر امریکا اس کے بدلے میں پاکستان کو کچھ بھی دینے پر تیار نہیں۔ پوری مغربی دنیا دہشت گردی کے سخت خلاف ہے مگر ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین دو دہائیوں سے لندن میں بیٹھ کر کراچی میں دہشت گردی کرارہے تھے اور امریکا کیا خود برطانیہ کو ”معلوم“ نہ ہوسکا کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ یہ مغرب کی کھلی شیطنت ہے۔
مغربی دنیا انسان کی آزادی کی علمبردار ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مغرب اپنے سوا کسی کو آزاد نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مسلم دنیا کا کوئی ملک بھی سیاسی، معاشی اور عسکری اعتبار سے آزاد نہیں۔ نہ مسلم دنیا کے ”بادشاہ“ آزاد ہیں، نہ ”جرنیل“ آزاد ہیں، نہ نام نہاد جمہوری اور سول رہنما آزاد ہیں۔ مغرب جمہوریت کو اپنا بڑا Ideal قرار دیتا ہے مگر مغرب کو دنیا میں جمہوریت بھی وہ چاہیے جو اس کی باندی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا کے کسی بھی ملک میں اگر کوئی اسلامی تحریک جمہوری طریقے سے اقتدار میں آنے لگتی ہے یا آنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو مغرب اس کے خلاف سازش کرتا ہے۔ چناں چہ الجزائر میں اسلامی فرنٹ اقتدار میں نہ آسکا۔ حالاں کہ انتخابات کے پہلے مرحلے میں اس نے دو تہائی اکثریت حاصل کرلی تھی۔ مغرب نے ترکی میں نجم الدین اربکان، فلسطین میں حماس اور مصر میں مُرسی کو نہ چلنے دیا۔ مغرب مساوات کی بات کرتا ہے مگر مغرب کی تخلیق کی ہوئی دنیا میں مساوات خواب بھی نہیں ہے۔ مغرب بھائی چارے یا Fraternity کا بہت شور مچاتا ہے مگر مغرب دنیا کی کمزور اقوام بالخصوص مسلمانوں کو ایک ہزار سال سے اپنا چارہ بنائے ہوئے ہے۔ یہ مغرب ہی تھا جس نے صلیبی جنگیں ایجاد کیں۔ یہ صلیبی جنگیں دو سو سال جاری رہیں۔ یہ مغرب تھا جس نے نوآبادیاتی دور تخلیق کیا۔ یہ دور ڈیڑھ سو سال جاری رہا۔ یہ مغرب ہی ہے جس نے دو عالمی جنگیں برپا کیں۔ ان جنگوں میں ”صرف“ 12 کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ امریکا ہی ہے جس کی فوجیں سو سے زیادہ ملکوں میں موجود ہیں۔ یہ امریکا ہی ہے جس نے 2 بار اپنے ”انسانی بھائیوں“ پر ایٹم بم گرائے۔ یہ مغرب ہی ہے جو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ذریعے کمزور ملکوں کی معیشت کو گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ لیکن مسئلہ محض مغرب کا نہیں۔
مسلم دنیا کے تو حکمران بھی اپنی قوموں کے لیے مغرب ہی ہیں۔ اس لیے کہ مسلم دنیا کے تمام حکمران مغرب کے ایجنٹ ہیں۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں عرب دنیا کے بادشاہوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم ہماری وجہ سے اقتدار میں ہو، ہم نہ ہوں تو تمہاری حکومتیں چار دن میں گر جائیں۔ مسلم دنیا میں جرنیل مارشل لا لگاتے ہیں تو امریکا کی تائید سے، مسلم دنیا میں سول حکمران برسراقتدار آتے ہیں تو امریکا کی تائید سے۔ پیپلز پارٹی کا ”بیانیہ“ یہ تھا کہ بھٹو کو امریکا نے پھانسی چڑھوایا ہے، مگر بے نظیر امریکا کی تائید سے پاکستان لوٹیں۔ اُن کے تاریخی جلوس میں امریکا مخالف نعرے لگے تو بے نظیر نے کارکنوں کو امریکا کے خلاف نعرے لگانے سے منع کردیا۔ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان کو مغرب کے قرضوں میں غرق کردیا ہے اور اب ہمارے بجٹ کا 40 فی صد غیر ملکی قرضوں کے سود کی ادائیگی پر صرف ہورہا ہے یا ہونے ہی والا ہے۔ ملک و قوم پر قرضوں کا یہ بوجھ لادنے والے حکمران خواہ سول ہوں یا عسکری انہوں نے قوم کی آزادی کا سودا کیا ہے اور ملک کی بقا کو داﺅ پر لگایا ہے۔ چناں چہ ہمارے حکمران بھی دراصل مغرب کی توسیع کے سوا کچھ نہیں۔