شہر قائد میں گزشتہ 28 برس کے دوران سرکاری سطح پر ایک بھی نیا قبرستان نہیں بنایا گیا،

286

کراچی (اسٹا ف رپورٹر)شہر قائد کے قبرستان تقریباً 3 بار بھر چکے ہیں،کراچی میں گزشتہ 28 برس کے دوران سرکاری سطح پر ایک بھی نیا قبرستان نہیں بنایا گیا، آخری بار قبرستان کیلئے زمین 1991ء میں مواچھ گوٹھ میں مختص کی گئی تھی،

میئر کراچی وسیم اختر کہتے ہیں کہ شہر کے تقریباً تمام قبرستان 3، تین بار بھر چکے ہیں۔ بااثر مافیا نے قبرستانوں پر قبضہ کر رکھا ہے، جو من مانی قیمتوں پر قبریں فروخت کرتے ہیں، قبروں کے سرکاری نرخ 8500 روپے ہیں،

یاسین آباد قبرستان میں گزشتہ 35 برس سے خدمات انجام دینے والے گورکن غلام محمد کا کہنا ہے کہ مافیا کے کارندے من مانی قیمتیں مقرر کرتے ہیں جو تمام قبرستانوں میں موجود ہیں، یہ لوگ ایک قبر کے 12 سے 15 ہزار روپے وصول کرتے ہیں،

عوام کی اکثریت کو سرکاری نرخ کا علم ہی نہیں ہوتا ہیں۔مافیا کے کارندے عوام کی لاعلمی سے فائدہ اٹھانے ہیں اور متوفی کے اہل خانہ پر جگہ کی کمی کا کہہ کر مزید رقم کیلئے دباؤ ڈالتے ہیں،

کراچی شہر کی آبادی تقریباً 2 کروڑ نفوس تک پھیل چکی ہے جبکہ یہاں مسلمانوں کے رجسٹرڈ قبرستانوں کی تعداد صرف 180 ہے، جن میں 7 کنٹونمنٹ بورڈز میں واقع ہیں، تقریباً 95 فیصد قبرستانوں میں جگہ پر ہوچکی ہے،

میئر کراچی نے سندھ حکومت کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 10 برس کے دوران شہر کے قبرستانوں کیلئے ایک روپیہ بھی مختص نہیں کیا گیا، پیپلزپارٹی حکومت زندہ لوگوں کیلئے کچھ کرنے کو تیار نہیں تو کوئی کیسے توقع کرسکتا ہے وہ مرنے والوں کیلئے کچھ کرے گی،

وسیم اختر نے دعویٰ کیا کہ میں نے سندھ حکومت اور رینجرز کو متعدد بار لکھا کہ قبرستان مافیا کیخلاف کارروائی کریں۔بورڈ آف ریونیو کے رجسٹریشن لینڈ یوٹیلائزیشن ڈیپارٹمنٹ کے انسپکٹر جنرل سید علی احمد شاہ جیلانی نے تعاون نہ کرنے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے قبرستان کیلئے زمین مختص کرنے کی کے ایم سی کی درخواست موصول ہونے پر ضابطے کے تحت کارروائی کی ہے،

یہ ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ فزیبلیٹی پلان ترتیب دیں۔ڈپٹی کمشنر ایسٹ احمد علی صدیقی نے تصدیق کی کہ کے ایم سی کی جانب سے قبرستان کے قیام کیلئے متعدد درخواستیں موصول ہوئیں،

تاہم ان کا کہنا ہے کہ بورڈ آف ریونیو کی جانب سے زمین مختص کرنے کا عمل کچھ طویل ہے، جیسا کہ زمین کا سروے انتہائی ضروری ہے، یہ کام علاقائی اسسٹنٹ کمشنرز نے کراچی میونسپل کارپوریشن کی ٹیموں کے ساتھ مکمل کرلیاہیں،

کے ایم سی ڈائریکٹر برائے قبرستان اقبال پرویز کے مطابق سرجانی ٹاؤن، تیسر ٹاؤن اور گڈاپ ٹاؤن میں تین نئے قبرستان بنانے کیلئے ابتدائی پلان ترتیب دے دیا گیا ہے، اگر یہ منظور ہوگئے تو آئندہ 50 برس کا مسئلہ حل ہوجائے گا، نئے قبرستانوں کیلئے سرجانی ٹاؤن میں 12 ایکڑ، تیسر ٹاؤن میں 64.66 ایکڑ اور گڈاپ ٹاؤن میں 25 ایکڑ زمین مختص کرنے کا منصوبہ ہے،

انہوں نے کہا کہ شہر کے اطراف میں 980 ایکڑ خالی زمین دستیاب ہونے کے باوجود بورڈ آف ریونیو سے قبرستانوں کیلئے زمین کے حصول میں انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ اقبال پرویز نے زور دیا کہ مستقبل قریب میں لوگوں کو اپنے تدفین کیلئے نواحی علاقوں میں جانے پر راضی کرنا ہوگا،

انتظامیہ کی جانب سے شہر کے 6 قبرستانوں میں جگہ ختم ہونے کے باعث تدفین پر پابندی عائد کی جاچکی ہے، جن میں ماڈل کالونی، پاپوش نگر، یاسین آباد، کالونی گیٹ، کورنگی نمبر 6 اور عیسیٰ نگری قبرستان شامل ہیں،

گورکن غلام محمد نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ مافیا ایسی قبروں کو جن پر کئی برس سے کوئی نہیں آیا انہیں گرا کر نئی قبریں بنادیتا ہے، پہلے قبر کو جھاڑیاں اور ملبہ ڈالا جاتا ہے اور جب کوئی اس پر توجہ نہیں دیتا تو وہ قبر کو مسمار کردیتے ہیں،

مافیا سے متاثرہ شہری ذیشان فراز نے بتایا کہ میرے والد کی قبر صرف 4 سال میں ہی مسمار کردی گئی، ان کا انتقال 2012ء میں ہوا تھا، ہم نے عیسیٰ نگری قبرستان میں ان کی تدفین کی تھی، جو شہر کے بیچوں بیچ اور سوک سینٹر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، لیکن 2016ء میں ان کی قبر موجود ہی نہیں تھی،

میں ہر 2 سے 3 ماہ میں ان کی قبر پر جایا کرتا تھا۔ذیشان کے مطابق ان کے والد کی قبر پر کسی اور نام سے نئی قبر موجود تھی، قبرستان انتظامیہ میں سے کوئی بھی اس حوالے سے جواب دینے کو تیار نہیں تھا۔