شیخ رشید احمد‘ شیخ نہیں ہیں‘ پہلی سطر ہی میں یہ اطلاع اس لیے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ رشید احمد بٹ‘ شیخ رشید احمد کیسے بنے اور سیاست میں کیسے ”ان“ ہوئے کسی بھی شخصیت کے بارے میں کوئی کتاب لکھی جائے تو مصنف کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ پڑھنے والے پر حقائق آشکارا کردے‘ فرزند پاکستان‘ شیخ رشید احمد کی آپ بیتی ہے جو جیل میں لکھی گئی‘ لیکن یہ کتاب قاری پر تشنگی کا تاثر چھوڑتی ہے‘ سیاسی شعبدہ باز‘ سیاسی نجومی‘ ابن الوقت‘ چڑھتے سورج کے پجاری‘ سیاست کا محور ذاتی مفاد‘ حاکم وقت کی قصیدہ گوئی میں رطلب اللسان غرض بہت سے نام انہیں دیے جاتے ہیں لیکن ایسے کسی نام سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ شیخ صاحب سدا بہار سیاست دان ہیں اور ان کی اپنی سیاست ہے، اگر کسی کو لیڈر تسلیم کرکے کسی جماعت میں وہ شامل ہوئے تو وہ تحریک استقلال ہے۔ اصغرخان کو واقعی لیڈر تسلیم کرتے تھے لیکن1985 کے عام انتخابات اور ان سے قبل بلدیاتی انتخابات میں پیش آنے والے واقعات نے انہیں اپنی ذات میں کھڑا کردیا بس وہ دن اور آج کا دن‘ شیخ صاحب اپنی ذات کے سوا کسی کے نہیں ہیں۔
طالب علم رہنماءسے چودھری ظہور الٰہی اور تحریک استقلال‘ پھر غیر جماعتی انتخابات‘ اس کے بعد مسلم لیگ‘ یہ شیخ صاحب کا سیاسی سفر ہے راولپنڈی میں حلقے نہ بڑھتے تو قومی اسمبلی کے لیے ان کے بھتیجے راشد شفیق کی کبھی باری نہ آتی‘ بہاول پور جیل نے انہیں بہت کچھ سکھا دیا ہے شورش ملک مرحوم نے اس دوران بہت مدد کی‘ ہر روز ایک نئی خبر اخبار کے صفحات کی زینت بنتی‘ لطیف شاہ مارے مارے پھرتا اور خود کو انہی کے لیے وقف کرلیا‘ سیاسی کارکنوں‘ صحافیوں کو ملاقات کے لیے بہاول پور لے جاتا‘ لطیف شاہ نے تو شیخ صاحب کے لیے پیپلزپارٹی کے جاوید میر سے بھی بہت کام لیا‘ اس کے بعد فیصلہ کیا کہ اب کبھی جیل نہیں جاﺅں گا حالات جیسے بھی ہوں پرامن سیاست کی جائے گی اور یہ بات انہوں نے اپنے عمل سے سچ ثابت کردکھائی۔
نواز شریف کی حکومت برطرف ہوئی تو جنرل مشرف اقتدار میں آئے‘ شیخ صاحب نے ریڈ لائن کراس نہیں کی‘ بلکہ اکھاڑے کے کنارے پر جا کھڑے ہوئے‘ جس نواز شریف نے آپ کے لیے دل کا دروازہ کھولا تھا آڑے وقت میں ان کی اہلیہ کلثوم نواز مرحومہ دست تعاون مانگنے آپ کے در پر آئیں تو آپ نہ صرف ملاقات سے گریزاں رہے بلکہ ان پر لال حویلی کے دروازے بھی بند کرائے۔ سابق وزیراعظم اسیر قفس ٹھیرے‘ مگر شیخ صاحب نے فیصلہ کرلیا تھا اب کبھی بھی جیل نہیں جانا‘ انتخابات ہوئے تو کوشش تھی کہ مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ نہ ملے‘ لیکن راولپنڈی شہر کا موڈ بھی نظروں میں تھا۔ 2002 کے انتخابات میں چاند کے نشان پر الیکشن لڑا‘ یہ انتخابی نشان خود جیت کی کنجی تھا‘ سو انتخابات میں جیت گئے بلکہ راولپنڈی کے حلقوں سے کامیاب ہوئے‘ ایک حلقہ چھوڑا تو ضمنی انتخاب میں حنیف عباسی ایم ایم اے کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے‘ حنیف عباسی کی جیت پر شیخ صاحب کو بہت افسردہ دیکھا۔ اسمبلی کا میدان سجا تو شیخ صاحب چپکے سے قاف لیگ میں چلے گئے، ان کے اس فیصلے سے قریبی لوگ بے خبر رہے‘ فیصلہ وہ بہت پہلے کرچکے تھے مگر شرط یہ تھی کہ قاف لیگ میں شمولیت کا اعلان آخری روز ہوگا اور میر ظفر اللہ جمالی خود لال حولی آئیں گے یہی ہوا‘ جس طرح طے تھا اس کے بعد وہ جمالی کابینہ میں وزیر اطلاعات بن گئے‘ لیکن محمد علی درانی ان کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوئے کہ انہیں وزارت اطلاعات و نشریات کا قلم دان محمد علی درانی کے لیے چھوڑنا پڑا‘ اسے کہتے ہیں ہر سیر کو سوا سیر بھی ہوتا ہے۔ 2008 کے انتخابات اور بعد میں ضمنی انتخاب میں انہیں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ کے ہاتھوں دو بار شکست ہوئی‘ 2013 میں وہ دوبارہ قومی اسمبلی میںواپس آئے‘ 2018 مسلم لیگ (عوامی) اور تحریک انصاف کے مشترکہ امیدوار بنے اور کامیاب ہوئے 2008 میں انہیں لال مسجد‘ بجلی کے بحران اور ملک کے سیاسی ماحول نے کامیاب نہیں ہونے دیا جنرل (ر) پرویز مشرف کی چراگاہ بھی ان کے کام نہ آئی جاوید ہاشمی انتخابی مہم میں انہیں ان کے روحانی استاد مولانا غلام خان کا سبق یاد دلاتے رہے، ہمیں تو ان کی نجی زندگی سے کوئی سروکار نہیں اس امر سے بھی کوئی غرض نہیں کہ فلمی ستاروں میں کتنے مقبول ہیں‘ ہاں ہمیں یہ سب یاد ہے سیاسی گفتگو کے دوران ذومعنویت، برجستگی، فقرے بازی اور مخالفین کا تمسخراڑانے میں یقینا یدطولیٰ حاصل ہے نظیر بھٹو کے بارے میں دشنام طرازی ایک سیاہ باب تو تھا ہی، لیکن رہی سہی کسر بلاول کے بارے میں شعلہ بیانی نے پوری کی آپ کی ذات تو سیاست میں شائستگی، عزت و احترام اور لحاظ و مروت کا آئینہ دار ہونی چاہیے تھی لیکن…. امید ہے کہ یہ بات آگے نہیں بڑھے گی اپنی آخری سیاسی اننگز کو شاندار اور یادگار بنانے کا موقع ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔