پچھلے ہفتے محمد علی جناح یونیورسٹی میں پری بجٹ سیمینار منعقد کیا گیا۔ جس سے سابق صدر ایف پی سی سی آئی (FPCCI) جو کاروباری تنظیموں کا اہم ترین ادارہ ہے، جناب زبیر طفیل، لائف ممبر سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری انجینئر ایم اے جبار اور ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ سوشل سائنسز پروفیسر شجاعت مبارک اور دیگر ماہرین معیشت نے خطاب کیا۔ یونیورسٹی میں معاشیات و مالیات کے طلبہ و طالبات کے لیے اس طرح کے سیمینار اُن کی تعلیم کا حصہ ہوتے ہیں تا کہ وہ کتابی علم کے ساتھ عملی میدان سے وابستہ تجربہ کار ماہرین سے بھی مستفید ہوسکیں۔
جناب زبیر طفیل صاحب نے اپنے خطاب کے پہلے حصے میں ملکی معیشت کی رواں صورتِ حال طلبہ کے سامنے بیان کی، جس میں انہوں نے معاشی ترقی کی رفتار میں کمی، اسٹاک مارکیٹ کی گرتی ہوئی صورتِ حال، روپے کی قدر میں شدید کمی، مہنگائی میں اضافے، تجارتی خسارے اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے کا ذِکر کیا، اور طلبہ کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ دُنیا کی زیادہ تر معیشتوں میں برآمدات اہم بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن پاکستانی معیشت کی بنیاد درآمدات اور غیر یقینی کی اہم وجہ زرمبادلہ کے ذخائر کا کم ہونا ہے۔ پاکستان کے جی ڈی پی کے لحاظ سے زرمبادلہ کے اسٹاک کا تناسب صرف 5 فی صد ہے جب کہ دیگر ممالک میں یہ تناسب 20 فی صد ہے۔چین اور ملائیشیا میں یہ تناسب اوسط سے بھی زیادہ ہے۔
جناب جبار صاحب جو جنوبی ایشیا میں درآمدات و برآمدات کی صورتِ حال پر گہری نظر رکھتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ خطے کے تمام ممالک کے ساتھ پاکستان کو تجارتی معاملات بڑھانا چاہئیں اور اسی سلسلے میں تمام ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی فضا کو کم کرنے میں پاکستان کو سرگرمی سے کوشش کرنا چاہیے۔ جنوبی ایشیاکے 2 بڑے ممالک یعنی پاکستان اور انڈیا کے درمیان اگر تجارت میں اضافہ ہوتا ہے تو اِس سے پاکستان میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا، روزگار کے مواقعے پیدا ہوں گے، معاشی ترقی کی شرح میں بہتری آئے گی۔
سیمینار میں مقررین کی جانب سے اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ مجموعی طور پر دُنیا میں کاروباری سرگرمیاں کم ہورہی ہیں۔ نسل پرستی، دہشت گردی، لاقانونیت اور احتجاجی سیاست میں اضافہ ہورہا ہے۔ حکومتوں کی جانب سے ترقیاتی اور رفاہی اخراجات میں کمی اور سیکورٹی کے اخراجات میں اضافہ ہورہا ہے اور اس طرح دُنیا ایک بار پھر معاشی بحران (Recession) کی طرف جارہی ہے اور اگر تین چار سال میں یہ صورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے تو پاکستانی معیشت مزید بحرانی کیفیت میں آجائے گی۔
پاکستانی معیشت کے ضمن میں مقررین نے طلبہ کو اپنے اس مشاہدے سے بھی آگاہ کیا کہ پاکستان میں نجی شعبے میں کچھ سروسز میں بہتری آئی ہے، مثلاً بینکنگ، ٹرانسپورٹیشن، ٹیلی کمیونیکیشن اور ریٹیل بزنس میں عوام کے لیے آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں، مگر سرکاری شعبے سے تعلق رکھنے والے تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور دوسرے انتظامی شعبوں میں تنزلی اور بدتری دیکھنے میں آئی ہے۔ آنے والے بجٹ کے بجٹ کے لحاظ سے مقررین نے مختلف سفارشات پالیسی ساز اداروں اور اربابِ اقتدارکے سامنے رکھیں۔ مثلاً اس وقت سیلز ٹیکس کی شرح کم از کم 17 فی صد ہے جو کہیں کہیں 30 فی صد تک پہنچ جاتی ہے، اسی سے قیمتوں میں اضافہ اور طلب میں کمی ہوتی ہے۔ اس شرح کو کم کرکے 10 فی صد تک رکھنا چاہیے، اسی طرح حکومت کو ایک جامع انڈسٹریل پالیسی لانا چاہیے جس میں صنعت کاروں کے لیے مختلف مراعات اور ترغیبات شامل ہوں۔ اس وقت سرمایہ کاری صرف رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں ہورہی ہے جس کی کوئی پیداواری حیثیت نہیں ہے۔ حکومت ایسی پالیسی بنائے کہ سرمایے کا بہاﺅ بجائے پراپرٹی کے صنعتوں کی طرف ہوجائے، یہ ملکی معیشت کے لیے بہتر ہے۔ اس کے علاوہ نیب اور ایف آئی اے کی طرف سے جو تفتیش اور انکوائری کا سلسلہ چل نکلا ہے اس سے کاروبار رُک گیا ہے، جب تک یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا معاشی سرگرمیوں میں بہتری نہیں آئے گی۔ سرکاری ٹیم کے نئے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا اضافہ ہوچکا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی معاشی تصویر میں یہ کیا رنگ بھرتے ہیں۔