سری لنکا کے گرجا گھروں پر حملوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟

299

ایسٹر کے دن سری لنکا میں تین گرجا گھروں اور تین ہوٹلوں میں دھماکوں کے فوراً بعد جن میں 320افراد ہلاک اور پانچ سو افراد زخمی ہوئے ہیں، کسی توقف کے بغیر سری لنکا کے مسلمانوں کی قدرے گمنام تنظیم نیشنل توحید جماعت پر ان حملوں کا الزام لگایا گیا ہے اور تین روز بعد داعش نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملے اس نے کیے ہیں۔ باخبر عناصر نے داعش کے اس دعوے کو قابل اعتبار قرار نہیں دیا۔ اول تو اس سے پہلے کئی حملوں کے بارے میں داعش کا دعویٰ غلط ثابت ہوا ہے اور اس وقت جب کہ داعش کی خلافت کا خاتمہ ہو چکا ہے، یہ دعویٰ محض یہ ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ داعش اب بھی اتنے منظم حملے کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ داعش کے اس دعوے کو بیش تر مغربی ممالک میں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ہے کیوںکہ داعش کی طرف سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے جب بھی داعش نے حملے کیے ہیں اس نے حملہ آوروں کی تصاویر اور ان کے نام شائع کیے ہیں۔ مسلم کونسل آف سری لنکا کے نائب صدر حلمی احمد نے بھی داعش کے دعوے پر شبہ ظاہر کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے تین سال قبل نیشنل توحید جماعت کے سربراہ ظہران ہاشمی کی شدت پسند سرگرمیوں کے بارے میں حکومت کو خبردار کیا تھا لیکن حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی اس دوران ظہران ہاشمی، ملک سے فرار ہوگئے اور اب بھی لاپتا ہیں۔ حلمی احمد کی رائے میں نیشنل توحید جماعت اتنی بڑی اور منظم تنظیم نہیں کہ وہ بیک وقت چھ مقامات پر دھماکے کر سکے۔
سری لنکا کی حکومت کی طرف سے اب یہ کہا جارہا ہے کہ یہ حملے، نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر حملوں کے جواب میں کیے گئے ہیں۔ یہ بات بعید از قیاس ہے اگر کرائسٹ چرچ کے حملوں کا بدلہ لینا ہوتا تو نیوزی لینڈ یا آسٹریلیا میں حملوں کی صورت میں لیا جاتا کیوںکہ کرائسٹ چرچ کا حملہ آور آسٹریلیا کا شہری تھا۔ اتنی دور سری لنکا میں جس کا کرائسٹ چرچ کے حملوں سے کوئی تعلق نہیں تھا بدلہ لینے کی کوئی منطق سمجھ میں نہیں آتی، دوم یہ بات بے حد اہم ہے کہ سری لنکا کے مسلمانوں کا مسیحیوں کے ساتھ کوئی تنازع یا کشیدگی نہیں رہی ہے۔ دونوں سری لنکا میں اقلیت ہیں اور حتی کہ پچھلی خانہ جنگی میں جو چھبیس سال تک جاری رہی، مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیاں دوستی اور امن و آشتی کی فضا رہی ہے۔ سری لنکا کی ک±ل دو کروڑ پچانوے لاکھ کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد دس فی صد ہے اور مسیحی ساڑھے سات فی صد ہےں۔ ہندو بارہ فی صد ہیں اور سنہالی بودھ ستر فی صد ہیں۔
سری لنکا میں گرجا گھروں پر حملوں کے تناظر میں ایک اہم پہلو نظروں سے اوجھل رہا ہے یا عمداً اس کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ سری لنکا کی اکثریت بودھوں کی مسلمانوں سے دیرینہ عداوت اور دشمنی ہے جو وقتاً فوقتاً تشدد اور فساد کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ سری لنکا میں بدھ مت
کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ سری لنکا کا جزیرہ بودھوں کا ملک ہے اور یہاں رہنے کا کلی اختیار بودھوں کو ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ چھبیس سال تک تامل ٹائیگرز اور حکومت کے درمیان لڑائی کے دوران بودھ بالکل خاموش بیٹھے رہے، وجہ یہ تھی کہ بودھ تامل ٹائیگرز کی قوت کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن جیسے ہی 2009 میں تامل ٹائیگرز کو شکست ہوئی اور خانہ جنگی ختم ہوئی اچانک بودھوں میں قوم پرستی کی لہر اٹھی اور بودھ شدت پسندوں نے بودھو بالا سینا (بودھ طاقت کی فوج) قائم کی جس کا نشانہ مسلمان بنے اور منظم طور پر مسلمانوں کے خلاف حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ 2011 میں بودھوں نے جنوبی شہر امپارا میں مسجد اور مسلمانوں کی دکانوں پر حملے کیے۔ حکومت کی خاموشی سے بودھوں کی سینا کی ہمت بندھی اور اس نے بڑے پیمانے پر سری لنکا کے وسطی صوبہ Kandy میں مساجد اور مسلمانوں کی دکانوں پر حملے کیے یہ حملے اتنے شدید تھے کہ حکومت کو دس روز کے لیے ہنگامی حالت نافذ کرنی پڑی۔ اس تشدد کے دوران مسلمانوں کے 464مکانات اور دکانیں تباہ کر دی گئیں۔ دو سال قبل سری لنکا کے بودھوں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی شدت اختیار کر گئی تھی جب برما میں بودھوں نے روہنگیامسلمانوں کا قتل عام کیا تھا اور ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو ان کے وطن سے بے دخل کر دیا تھا۔ ا±س وقت اس بات کا خطرہ تھا کہ کہیں مسلمان، سری لنکا کے بودھوں سے برماکے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام
کا بدلہ نہ لیں۔ اس پس منظر میں سری لنکا کے گرجا گھروں پر حملوں کے فوراً بعد مسلمانوں پر ان حملوں کا الزام معنی خیز نظر آتا ہے جس کا حکومت پر حاوی بودھوں کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے۔ بہت سے مسلمانوں کو شبہ ہے کہ ان حملوں کے پیچھے در اصل بودھوں کی شدت پسند سینا کا ہاتھ ہے جس کے پاس اتنے بڑے پیمانے پر حملوں کے لیے وسائل ہیں اور اس کے کارکنوں کو تربیت بھی حاصل ہے۔
ایسٹر کے حملوں کے بارے میں صحیح حقائق، صدر میتھری پالاسری سینا اور وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے کے درمیان شدید اختلافات کی وجہ سے سامنے نہیں آسکے ہیں۔ صدر سری سینا کٹر بودھ ہیں اور کہا جاتا ہے کہ بودھوں کی آبادی کی اکثریت ان کی حامی ہے اور اسی کی بنا پر انہوں نے 2015 میں انتخاب جیتا تھا اور انہوں نے رانیل وکرما سنگھے کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا لیکن پارلیمنٹ میں بغاوت بھڑکنے کے بعد صدر سری سینا نے وکرما سنگھے کو برطرف کر کے پارلیمنٹ تحلیل کر دی۔ لیکن سپریم کورٹ کی فل بینچ نے پارلیمنٹ کی تحلیل غیر آئینی قرار دے کر وکرما سنگھے کو دوبارہ وزیر اعظم بحال کر دیا۔ انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے دو ہفتے قبل صدر سری سینا کو خبردار کر دیا تھا کہ گرجا گھروں پر حملوں کا خطرہ ہے۔ لیکن وزیر اعظم وکرما سنگھے کا کہنا ہے کہ انہیں اس بارے میں تاریکی میں رکھا گیا۔ یوں انہوں نے صدر سری سینا کو دوش دیا ہے کہ بڑی حد تک صدران حملوں کے ذمے دار ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر اور وزیر اعظم کے درمیان شدید اختلافات کیا صورت اختیار کرتے ہیں اور آیا اصل حقائق منظر عام پر آئیں گے؟