تاریخ اور زندہ تاریخ

372

امریکا کے سابق وزیر خارجہ ہینری کسنجر نے تاریخ کو قوموں کا حافظہ کہا ہے۔ کسنجر کی یہ بات سو فی صد درست ہے مگر تاریخ کی یہ بحث بہت آگے جاتی ہے۔ لیکن اس سے قبل کہ یہ بحث آگے جائے آپ کو معروف صحافی اور کالم نگار محمود شام کے ایک کالم کا اقتباس ملاحظہ کرنا ہوگا۔ محمود شام نے لکھا۔
”میں اپنے ماہ و سال سے مغلوب ہوگیا تھا۔ میرے احباب، میری تحریر سے دل گرفتہ ہوگئے۔ صبح دم دور دراز مقامات سے فون، ایس ایم ایس اور وٹس ایپ۔ ایک جملہ مجھ سے ارتجالاً سرزد ہوگیا۔ لیکن یہ ڈاکٹر سید جعفر احمد جیسے ثقہ محقق کو بھی پسند آگیا۔ ”تم اپنے 72 سال کو خطے کی صدیوں سے لڑواتے رہے“ اب میں خود اس جملے کی تشکیل پر حیرت زدہ ہوں۔ ہم 1947ءسے اسی کشمکش میں تو ہیں۔ صدیوں کو اپنا کر مالا مال ہونے کے بجائے ہم ان کو عاق کرکے مفلس ہورہے ہیں۔
آپ سن رہے ہیں نا۔ ذرا سی توجہ کی ضرورت ہے۔ ٹی وی سے نظریں ہٹا کر یہ سطور پڑھیں تو یہ دل میں اُتریں گی۔ کسی بھی سرزمین میں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں گزشتہ صدیاں پہلے سے موجود ہوتی ہیں۔ ماں باپ یہ اثاثہ منتقل کرتے ہیں۔ پھر جوں جوں بچہ بڑا ہوتا ہے یہ صدیاں اس کے شعور میں داخل ہوتی رہتی ہیں۔ وہ جس چیز کو بھی پہلی بار دیکھتا ہے اس کے نقطہ نظر میں بھی یہ صدیاں اپنا عکس ڈال رہی ہوتی ہیں“۔
(روزنامہ جنگ۔ 14 فروری 2019ئ)
اب ہم ایک بار پھر ہینری کسنجر کی طرف لوٹتے ہیں۔ ہینری کسنجر نے تاریخ کو قوموں کا حافظہ قرار دیا ہے مگر تاریخ کے بارے میں اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قوموں کی ایک تاریخ ”زندہ“ ہوتی ہے اور ایک تاریخ ”مردہ“ ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے سیکولر اور نیم سیکولر، لبرل اور نیم لبرل عناصر برسوں سے یہ خلط مبحث پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان میں تاریخ بھی ”اسلامی“ اور ”غیر اسلامی، ”پرائی“ اور ”اپنی“ ہوگئی ہے۔ اس لیے محمود شام نے یہ فرمایا ہے کہ ہم پاکستان کی 72 سالہ تاریخ کو اس خطے کے لوگوں کی صدیوں کی تاریخ سے لڑواتے رہے ہیں۔ محمود شام کے اس خیال پر ڈاکٹر سید جعفر احمد جیسے سیکولر اور سوشلسٹ دانش ور نے تالیاں بجائی ہیں اور محمود شام نے ان تالیوں سے پیدا ہونے والی موسیقی پر وجد میں آتے ہوئے خود کو داد دی ہے اور کہا ہے کہ واہ مجھ سے کیا فقرہ سرزد ہوگیا۔
پاکستان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو خود کو موئن جو دڑو کی تہذیب اور تاریخ سے وابستہ کرتے ہیں۔ چناں چہ محمد بن قاسم ان کے لیے ولن اور مداخلت کار یا Invaderہیں اور راجا داہر ان کے لیے ”ہیرو“ ہے۔ حالاں کہ تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کو مداخلت کار تسلیم کیا جائے تو ہندوﺅں کی عظیم اکثریت کو بھی Invader تسلیم کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ مسلمان ”مقامی“ نہیں ہیں تو آریہ بھی مقامی نہیں تھے۔ چوں کہ ہندوﺅں کی اکثریت آریوں کی نسل سے ہے اس لیے ہندوﺅں کی اکثریت بھی غیر مقامی ہے۔ فرق یہ ہے کہ مسلمان ”نئے مداخلت کار“ ہیں اور ہندو ”پرانے مداخلت کار“ لیکن یہاں اصل مسئلہ یہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے ایک تاریخ زندہ ہوتی ہے اور ایک تاریخ مردہ ہوتی ہے۔ آریوں سے پہلے ہندوستان میں دراوڑ آباد تھے مگر آریوں نے آکر دراوڑوں کی تاریخ کے بیشتر اجزا کو پرانا بنادیا اور آریوں کی تاریخ ہندوستان کی اصل اور زندہ تاریخ بن گئی۔ اسلام کی آمد سے قبل عربوں کی تاریخ کو ”عہد جاہلیت“ کہا جاتا تھا۔ اسلام کی آمد کے بعد عربوں کی تاریخ بدل کر رہ گئی اور ”اسلامی تاریخ“ بن گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عہد جاہلیت کی تاریخ ”مردہ“ ہوگئی اور اسلام کی تاریخ ”زندہ“ تاریخ بن گئی۔ چناں چہ عربوں نے پھر کبھی عہد جاہلیت کی تاریخ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ انہوں نے اپنے عہد جاہلیت کو یاد بھی کیا تو ”عبرت“ حاصل کرنے کے لیے“۔
اسلام برصغیر میں آیا تو برصغیر کی تاریخ ہندو ازم کی تاریخ تھی۔ آریوں کی تاریخ تھی مگر اسلام نے کروڑوں لوگوں کو مسلمان کرکے ایک نئی تاریخ کا آغاز کیا۔ اس تاریخ کے علمبرداروں کے لیے موئن جو دڑو، ہڑپہ اور ہندو ازم کی تاریخ میں کوئی معنی نہیں رہ گئے۔ اس لیے کہ اب ان کے لیے موئن جو دڑو، ہڑپہ اور ہندو ازم کی تاریخ ”مردہ تاریخ“ تھی اور اسلام کی تاریخ ”زندہ تاریخ“ تھی۔ زندگی اور موت کا یہ اصول بہت اہم ہے۔ جب کوئی انسان مرجاتا ہے تو پھر مسلمان اسے جلد از جلد دفنانے اور ہندو اسے نذر آتش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ البتہ بندریا کے بارے میں سنا بھی ہے اور دیکھا بھی ہے کہ جب اس کا کوئی بچہ مر جاتا ہے تو وہ اسے کئی دن تک سینے سے لگائے پھرتی رہتی ہے۔ مگر بندریا بھی اتنی ذہین ہوتی ہے کہ اسے چند روز کے بعد معلوم ہوجاتا ہے کہ اُس کا بچہ مرچکا ہے۔ چناں چہ چند روز بعد وہ اپنے مردہ بچے کو کہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جاتی ہے مگر ہمارے سیکولر، لبرل اور جدیدیت زدہ افراد کو ”تاریخ کے مُردے“ سے اتنی دلچسپی ہے کہ وہ اسلام کی زندہ تاریخ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے، البتہ وہ موئن جودڑو اور ہڑپہ کی مردہ تہذیبوں کو سینے سے لگائے گھومتے ہیں اور دوسروں سے بھی کہتے ہیں کہ مُردوں کو کیوں بھول گئے ہو۔
زندہ تاریخ سے زندہ تعلق صرف مسلمانوں کا قصہ نہیں۔ کمیونسٹ انقلاب سے قبل روس عیسائی ملک تھا اور اس کی تاریخ عیسائیت کی تاریخ تھی مگر کمیونسٹ انقلاب کے بعد روس میں صرف عیسائیت ہی ازکارِ رفتہ نہیں ہوئی بلکہ روس کی تاریخ بھی مردہ قرار پائی۔ کمیونسٹوں نے کہا کہ انقلاب سے پہلے روس کی تاریخ غلامی اور سرمایہ داروں کے استحصال کی تاریخ تھی۔ اس تاریخ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، اب روس کی تاریخ 1917ءسے شروع ہوگی۔ چین کے انقلاب سے پہلے چین کی تاریخ کنفیوشس ازم اور ماﺅ ازم کی تاریخ تھی مگر 1949ءکے بعد یہ تاریخ مردہ قرار پائی اور کمیونسٹوں نے ماضی کی ایک ایک یادگار کو فنا کردیا اور کہا کہ ماضی کو یاد کرنے کی ضرورت نہیں، اب چین کی تاریخ 1949ءسے شروع ہوگی۔
جدید یورپ کی تاریخ میں بھی ایک زندہ تاریخ ہے اور ایک مردہ تاریخ ہے۔ یورپ اپنے مذہبی ماضی کو مسترد کرتا ہے اور اسے یاد بھی نہیں کرنا چاہتا۔ اس کے برعکس وہ نشاط ثانیہ کے بعد وجود میں آنے والے یورپ کو اصل یورپ سمجھتا ہے اور وہ نشاط ثانیہ کی تاریخ ہی کو اصل تاریخ یا زندہ تاریخ سمجھتا ہے۔ مگر مسلمان ممالک کے سیکولر اور لبرل عناصر کہیں موئن جودڑو، ہڑپہ اور فراعنہ کی تاریخ سے چمٹے ہوئے ہیں اور کہیں انہیں برصغیر میں ”متحدہ ہندوستان“ کی تاریخ آواز دیتی ہوئی نظر آتی ہے اور انہیں خیال آتا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل ہندو اور مسلمان ایک ہی تو تھے۔ یہاں تک کہ ان کا ”تاریخی تجربہ“بھی ”ایک“ تھا۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔
مسلمان برصغیر میں ایک ہزار سال سے موجود ہیں مگر اپنے جداگانہ مذہبی، تہذیبی اورتاریخی تشخص کے ساتھ۔ ان کا یہی تشخص اصل تشخص ہے کیوں کہ یہی ”زندہ تشخص“ ہے۔ کبھی کبھی آدمی بیمار بھی ہوجاتا ہے اور بیماری طویل بھی ہوجاتی ہے مگر اس کے باوجود آدمی خود کو بیماری کے حوالے سے نہیں پہچانتا۔ اسے معلوم ہوتا ہے بیماری، بیماری ہے اور صحت، صحت ہے۔ ہمیں ایک دن ایک صاحب ملے کہنے لگے نظیر اکبر آبادی بڑا زبردست شاعر ہے اس نے ہندوﺅں کے تہوار ہولی اور دیوالی پر بھی نظمیں لکھی ہیں۔ ہم نے کہا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ نظیر اس ”کام“ میں تنہا یا اکیلے کیوں ہیں۔ اردو کے لاکھوں شاعروں میں سے پچاس ساٹھ نے بھی ان کی پیروی کیوں نہ کی؟۔ کہنے لگے کیوں نہ کی؟ ہم نے عرض کیا کہ اس لیے کہ ہولی اور دیوالی مسلمانوں کا تہذیبی اور تاریخی تجربہ نہیں ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اقبال نے اپنی شاعری میں وطن پرستی کی ہے۔ انہوں نے مہاتما گوتم بدھ اور گرو نانک کو سراہا ہے اور رام کو امام ہند کہا ہے۔ اقبال نے ایسا ہی کیا ہے۔ مگر ان کا یہ رنگ ان کے پہلے شعری مجموعے بانگ درا تک محدود رہ گیا۔ اقبال کے تین دیگر اردو مجموعوں اور فارسی کلام میں ان چیزوں کا سایہ بھی کہیں موجود نہیں۔ انسان کا ”نظریہ“ بدل جاتا ہے تو اس کا تہذیبی اور تاریخی تجربہ بھی بدل کر رہ جاتا ہے۔
ہندو کہتے ہیں کہ اسلام ایک غیر مقامی چیز ہے مگر اردو تو برصغیر کی خاک سے اُٹھی ہے۔ لیکن گاندھی نے فارسی کے ساتھ ساتھ اردو کا بھی گلہ گھونٹنے کی کوشش کی اور اس زمانے میں جب قیام پاکستان کی جدوجہد شروع بھی نہیں ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گاندھی فارسی کی طرح اردو کو بھی مسلمانوں کی زبان سمجھتے تھے۔ ”ہندوستان کی زبان“ نہیں۔ اگر ہمیں ٹھیک یاد ہے تو گاندھی نے 1924ءیا 1925ءمیں یہ مشہور فقرہ کہا تھا۔
”With you withoutyou, Inspite of you“۔ یعنی ہم آزادی کی جدوجہد کریں گے، مسلمانوں کے ساتھ، ان کے بغیر یہاں تک کہ ان کی مزاحمت کے باوجود۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سی چیز تھی جو گاندھی کے شعور میں مسلمانوں کو ہندوﺅں سے جدا کررہی تھی۔ قائداعظم دو قومی نظریے کے علمبردار تھے مگر گاندھی تو ”متحدہ قومیت“ کے پرستار تھے۔ چناں چہ انہیں تو کسی صورت میں بھی مسلمانوں کو خود سے جدا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مگر گاندھی نے مسلمانوں کو خود ہندوﺅں سے الگ کیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ گاندھی کے نزدیک متحدہ قومیت کی تاریخ ”مصنوعی تاریخ“ تھی۔ ”مردہ تاریخ“ تھی۔ اصل تاریخ دو قومی نظریے کی تاریخ تھی۔ مگر سیکولر اور لبرل عناصر دو قومی نظریے کی تاریخ کو صرف ”72 سالہ تاریخ“ کہہ کر اس کی توہین کررہے ہیں اور وہ اس کے مقابلے پر اس تاریخ کو لاکر کھڑا کررہے ہیں جو زندہ تاریخ نہیں ہے۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمان اپنی چودہ سو سالہ تاریخ سے محبت کرتے ہیں تو سیکولر اور لبرل عناصر انہیں ”ماضی پرست“ کہتے ہیں مگر یہی عناصر پاکستان کے لوگوں کو موئن جودڑو کی پانچ ہزار سالہ تاریخ سے منسلک ہونے کی دعوت دیتے ہیں اور انہیں اپنے ”ماضی پرست“ ہونے کا خیال بھی نہیں آتا۔ ہینری کسنجر نے غلط نہیں کہا کہ تاریخ قوموں کا حافظہ ہوتی ہے مگر صرف زندہ تاریخ، مردہ تاریخ کو کوئی صحت مند انسان حافظے میں زندہ رکھنے کی کوشش نہیں کرتا، اس لیے کہ یہ تاریخ شعور پر بوجھ بن جاتی ہے۔ غالب نے اسی لیے کہا ہے۔
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا