اسد عمر کو کس کے کہنے پر ہٹایا،اندر کی بات سامنے آ گئی

1022

سابق وزیر خزانہ اور وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی اسد عمر کو عہدے سے ہٹانے کی اندرونی وجوہات سامنے آگئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسد عمر کو وزارت سے ہٹانے کی وجہ ان کی معاشی پالیسیاں نہیں بلکہ سیاسی وجوہات تھیں۔
وزارت خزانہ میں موجود عہدے داران اور تحریک انصاف کے اعلیٰ اراکین کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کے کامیاب دورے اور آئی ایم ایف کے مجوزہ بیل آؤٹ پیکیج پر ایڈجسٹمنٹ کے بعد اسد عمر خود بھی وزیراعظم سے اس قسم کے اقدام کی توقع نہیں کر رہے تھے اور وزارت سے ہٹانا ان کے لئے ایک بڑا سرپرائز تھا۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ اسد عمر آئی ایم ایف پیکج کی سخت ترین شرایط کو تبدیل کرانے کے بعد ساتھی کابینہ اراکین کے ساتھ خوشی منا رہے تھے لیکن انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ وزیراعظم نے ان کے لیے دوسرا پلان تیار کررکھا ہے۔ وزارت میں تبدیلی نہ صرف اسد عمر بلکہ واشنگٹن میں موجود آئی ایم ایف کے اعلیٰ حکام کے لئے بھی سرپرائز تھا۔
کابینہ کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ وزیراعظم کا خیال تھا کہ اسد عمر کے قلمدان میں تبدیلی سے اپوزیشن اور میڈیا کی تحریک انصاف کے خلاف تنقید میں کمی آئے گی لیکن وزیراعظم اس بات کی امید نہیں کر رہے تھے کہ اسد عمر وزارت خزانہ کے علاوہ کوئی دوسرا عہدہ لینے سے بھی انکار کر دیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اسد عمر کے خلاف کچھ مفاد پسند گروپس نے بھی وزیراعظم کی رائے کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ چینی کے کاروبار سے منسلک افراد کی جانب سے چینی پرسبسڈی دینے کی وجہ سے اسد عمر کی شدید مخالفت کی گئی۔ بینکاروں کا گروپ بھی بیکنگ سروسزکی ریگولیشن کی وجہ سے اسد عمر کے خلاف تھا۔ تیسرا گروپ رئیل اسٹیٹ ٹائیکون پر مشتمل تھا جو پنجاب ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ٹیکس کے لیے مارکیٹ کی بنیاد پر قیمتوں کا تعین متعارف کرانے کے خلاف تھے۔ ان تمام گروپس کے ایوانوں میں موجود نمائندگان کی جانب سے وزیراعظم کو یہ احساس دلایا گیا کہ اسد عمر اس اہم پوزیشن کے لیے ٹھیک انتخاب نہیں ہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے میڈیا یوسف بیگ مرزا کا کہنا ہے کہ اسد عمر کو عہدے سے ہٹانے کے پیچھے کوئی سیاسی مقاصد نہیں تھے اور نہ ہی ایسا کوئی پریشر گروپ ہے جس نے اس فیصلے میں کردار ادا کیا ہو۔