اب میئر سڑک بھی نہیں کاٹ سکے گا

179

سندھ حکومت کی جانب سے بلدیہ کراچی کے کئی محکمے ہڑپ کرنے کے بعد بلدیہ کراچی کے بچے کھچے اختیارات پر بھی قبضہ کرنے کے اقدامات شروع کردیے ہیں۔ کراچی کی معروف شاہراہ یونیورسٹی روڈ کی کھدائی اور شہریوں کو ہونے والی پریشانی کے حوالے سے جسارت میں خبروں کی اشاعت کے بعد کمشنر کراچی نے تمام شہری اداروں کا اجلاس طلب کرکے جو نوٹس لیا ہے اور جو احکامات دیے ہیں وہ بلدیہ کراچی کے نچلی ترین سطح کے اختیارات ہاتھ میں لینے کے مترادف ہیں۔ یہ محض زبان کی پھسلن نہیں ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے بقیہ اختیارات اور پیسوں کے حصول کی جنگ ہے۔ کمشنر کراچی نے حکم جاری کیا ہے کہ ڈپٹی کمشنرز کی اجازت کے بغیر شہر میں کوئی ادارہ سڑک کی کھدائی نہیں کرسکے گا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کمشنر نے یونیورسٹی روڈ کو 15 دن میں بحال کرنے کی ہدایت کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو دے دی۔ جب کہ کھدائی کے الیکٹرک نے کر رکھی ہے۔ کیا اسے بھی کمشنر کی لاعلمی کہا جائے۔ ہمارے خیال میں یہ لاعلمی نہیں ہے بلکہ کے الیکٹرک کی طاقت ہے کہ اس کا نام بھی نہیں لیا جارہا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ روڈ کٹنگ کا ایک طریقہ کار ہے۔ جس کو کسی سڑک کی کٹائی کرنی ہوتی ہے وہ متعلقہ ادارے یونین کونسل، زیڈ ایم سی یا کے ایم سی کو درخواست دیتا ہے۔ ادارہ سڑک کی کٹائی کی مطلوبہ لمبائی چوڑائی کا جائزہ لے کر روڈ کٹنگ چارجز کا تعین کرتا ہے۔ پھر روڈ کٹنگ کا ایک چالان تیار کیا جاتا ہے اس چالان کو بینک میں جمع کرائے بغیر کوئی ادارہ روڈ کٹنگ نہیں کرسکتا۔ چالان کی رقم سڑک کی مرمت اور اسے پہلے جیسا بنانے کے لیے بلدیہ کا بلڈنگ اینڈ روڈز کا محکمہ استعمال کرتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بلدیہ کا یہ محکمہ روڈ کٹنگ چارجز بھی وصول کرلیتا ہے اور سڑکوں کی مرمت بھی نہیں کرتا۔ اس کا ثبوت شہر میں جابجا ٹوٹی ہوئی سڑکیں ہیں۔ اختیارات ڈی سی کے پاس جانے کے بعد یہ حالات مزید خراب ہوجائیں گے کیوں کہ کونسلر وغیرہ سے تو دباﺅ ڈال کر کام کروایا جاسکتا ہے، ڈی سی صاحب تو ملیں گے ہی نہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ محض چند اختیارات کا تو مسئلہ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اگر روڈ کٹنگ چالانوں کا حساب لگائیں تو صرف کراچی میں روزانہ ہزاروں مقامات پر چھوٹی بڑی سڑکیں کاٹی جاتی ہیں، کہیں باقاعدہ چالان دے کر اور کہیں کھانچا دے کر۔ لیکن کوئی ادارہ اگر روڈ کٹنگ کرتا ہے تو وہ باقاعدہ ڈرائنگ بنا کر بلڈنگ اینڈ روڈز کے شعبے کو دیتا ہے۔ یونیورسٹی روڈ کے معاملے میں بھی گڑبڑ واضح ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ بلدیہ نے اجازت دی، کبھی کہا جاتا ہے کہ دوسری زیڈ ایم سی نے اجازت دے دی اور کمشنر کراچی کہہ رہے ہیں کہ کام مکمل کرکے روڈ کٹنگ چالان جمع کرادینا۔ معمولی سا حساب بھی لگائیں اور 20 یا 30 فٹ کی سڑک کاٹ کر پائپ گزارنا ہو تو 15 سے 25 ہزار روپے کا چالان بنتا ہے۔ یہ چالان بنانے والا پانچ سے دس ہزار الگ لے لیتا ہے۔ پھر یہ چالان بینک میں جمع کرانے کے بعد کٹنگ ہوتی ہے اور اصولاً مرمت فوراً ہوجاتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا صرف اس ایک مثال سے سمجھ لیں کہ یہ چھوٹا سا اختیار کہیں سے اربوں روپے کھانے کا معاملہ ہے۔ اب تک بلدیہ کا محکمہ یہ کام کرتا تھا اس کے اختیارات کے تحت سروسز، سب انجینئر، ایگزیکٹو انجینئر، چیف انجینئر اور پھر منتخب نمائندے حصے دار ہوتے تھے۔ اب یہ ساری رقم دوسرے راستے پر چلی جائے گی۔ کمشنر نے اختیارات ڈی سی کو دیے ہیں، ڈی سی اے سی کو دیتا ہے، وہ ڈی آئی جی اور ایس پی کو دے گا اور وہ ایس ایچ او اور پھر اے ایس آئی اور سپاہی تک اختیار منتقل ہوجائے گا۔ یہیں سے ریورس میں مال اوپر کی طرف چلے گا۔ پہلے اس کا رُخ بلدیاتی افسران اور منتخب قیادت کی طرف ہوتا تھا۔ اب ایس آئی سے ایس اچ او، ایس پی اور جتنا اوپر جاسکتا ہے یا جاتا ہے جائے گا۔ لیکن یہ بات محسوس ہورہی ہے کہ میئر سے یہ اختیار بھی لے لیا گیا ہے۔ اگرچہ ایس ایل جی او میں ترمیم کی کوئی اطلاع نہیں، کمشنر نے محض زبانی اعلان کیا ہے۔ لیکن اس ملک میں زبانی احکامات پر بہت کچھ ہوجاتا ہے۔ بس سوال یہ ہے کہ سارے شہر کو کھود ڈالنے والے میئر کراچی کیا اب ایک سڑک بھی نہیں کاٹ سکیں گے۔ اسمبلیوں میں بیٹھے متحدہ کے اراکین کیا کررہے ہیں کیا انہیں معلوم نہیں یہ غلط ہورہا ہے۔ بعد میں مظلوم بننے کی کوشش اور مہاجر اور کرااچی کارڈ کھیلا جائے گا۔ کس کو عوام سے دلچسپی ہے۔ اختیار لینے والے بھی مال کے چکر میں ہیں اور اختیار کا رونا رونے والے بھی۔