ججوں کی نہیں احساس ذمے داری کی کمی ہے

215

سابق چیف جسٹس جناب ارشاد حسن خان کا ارشاد گرامی ہے کہ ہمارے ہاں مقدمات کے فیصلے تکلیف دہ حد تک تاخیر کا شکار ہوتے ہیں بعض صورتوں میں تو مقدمات نسل در نسل بھی چلتے ہیں۔ موصوف کا یہ معصومانہ سوال قابل غور ہے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ان کے خیال میں یہ عمومی سوال ہے جو سسٹم سے پوری طرح آگاہ نہ ہونے والے عوام ہی نہیں خواص بھی زور دار طریقے سے اٹھاتے ہیں۔ موصوف نے اس عمومی اور خواصی سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا ہے کہ ججوں کی تعداد بڑھا دی جائے تو انصاف کی فراہمی میں حائل رکاوٹیں ختم ہوجائیں گی۔ خدا جانے! ہمارا مقتدر طبقہ ہاتھ گھما کر ناک پکڑنے کی لت سے کب نجات پائے گا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ ججوں کی تعداد بڑھا دی جائے تو مقدمات کے فیصلوں کی تعداد بھی بڑھ جائے گی مگر یہ ممکنہ حل نہیں، کیوں کہ یہ آدھا سچ ہے، شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ آدھا سچ بھی نہیں۔ نظام عدل کی لگام تھامنے والے حقائق سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں کیوں کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا اصل سبب اپیل در اپیل کا اذیت ناک سلسلہ ہے۔ سول کورٹ مدعی یا مدعا علیہ کے مقدمے کو عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج کردیتی ہے تو اپیل کی سماعت کے لیے ضروری ہے کہ ثبوت پیش کیے جائیں ورنہ مقدمہ خارج کردیا جائے، مگر ہمارے ہاں نظام عدل میں عدالتوں کی رونق برقرار رکھنے کے لیے اپیلوں کی سماعت معمول کا کام ہے۔ حیرت ہے کہ سول کورٹ کسی مقدمے کو عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج کرتی ہے تو سیشن کورٹ ”نہ رو! میرے لعل“ کہہ کر آغوش میں لے لیتی ہے اور جب سیشن کورٹ اسی بنیاد پر مقدمہ خارج کرتی ہے تو ہائی کورٹ اپنی باہیں پھیلائے اس کی منتظر ہوتی ہے اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہائی کورٹ دھتکار دے تو عدالت عظمیٰ، عظمیٰ مائی بن کر اپنی پناہ میں لے لیتی ہے اور بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ عدالت عظمیٰ پانچ دس سال بعد کوئی قانونی سقم تلاش کرکے مقدمہ واپس سول کورٹ کے حوالے کردیتی ہے۔
تاخیر کی حمایت میں محترم ارشاد حسن خان نے ایک مثال دی ہے، فرماتے ہیں: ایک بس میں پچاس افراد کی گنجائش ہے تو پانچ سو مسافروں کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے دس پھیرے لگانا پڑیں گے۔ ظاہر ہے اس صورت میں تاخیر لازمی امر ہے۔ موصوف کی مثال سن کر ہمیں بہاولپور کی ای ڈی او محترمہ ارم بخاری یاد آگئیں۔ ایک دوست نے پٹا ملکیت کے لیے درخواست دی تو اس کے کرائے دار نے بھی درخواست دی کہ مکان کا اصل مالک وہ ہے، یوں مقدمہ تاخیری حربوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ دوست نے ہم سے مدد چاہی تو ہم چند صحافی دوستوں کے ہمراہ محترمہ سے ملے۔ قبل ازیں ہم اس معاملے میں مقامی اخبارات میں بہت سے کالم اور خبریں شائع کراچکے تھے۔ ارم بخاری صاحبہ نے کہا، تم ہمارے خلاف جتنا چاہو لکھو مگر پٹا ملکیت نہیں بن سکتا۔ حیران ہو کر استفسار کیا ”کیوں نہیں بن سکتا“۔ اس لیے نہیں بن سکتا کہ کراچی جانے والا مسافر پشاور کی بس میں سوار ہوجائے تو وہ کراچی نہیں پہنچ سکتا۔ ان کا جواب حیرت کا دوسرا جھٹکا تھا، وضاحت چاہی تو کہا۔ پٹواری کے رجسٹر اور داخلہ رسید میں درج نام مختلف ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ داخلہ رسید کے نام کے مطابق پٹواری کے رجسٹر میں درج نام درست کرایا جائے، اس کے بعد ہی پٹا ملکیت کی کارروائی ہوگی۔ ان کی ہدایت پر عمل کیا گیا تو پٹا ملکیت بن گیا۔
مقدمات میں تاخیری حربوں سے نجات کے لیے جعل سازی پر مبنی مقدمات پر جرمانہ اور سزا دی جائے تو عدالتوں سے مقدمات کا بوجھ کم ہوگا اور اپیل در اپیل کے ابلیسی چکر سے بھی نجات مل جائے گی اور پھر مقدمات کے فیصلے بھی جلد ہونے لگیں گے۔ تاخیر سے نجات پانے کا حل بہت آسان ہے مگر صاحب اختیار رونق میلے کے عادی ہیں اور عادت بہت بُری ہوتی ہے۔ ہم نے بھاگ دوڑ کرکے اپنے دوست کا پٹا ملکیت بنوا دیا تھا مگر مقدمے سے اس کی نجات پندرہ سال بعد بھی نہیں چھوٹی، کیوں کہ اس کے کرائے دار نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹادیا تھا مگر اپیل در اپیل کے باعث اب تک مکان پر قابض ہے، ان دنوں مقدمہ ہائی کورٹ میں چل رہا ہے اور اذیت ناک بات یہ ہے کہ بہاولپور ہائی کورٹ میں پانچ سال گزرنے کے بعد آج تک پیشی نہیں ہوئی، کبھی پیشی منسوخ کردی جاتی ہے اور کبھی جسٹس صاحبان لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسادیتے ہیں۔ محترم ارشاد حسن خان صاحب انصاف میں تاخیر کا بنیادی مسئلہ ججوں کی کمی نہیں احساس ذمے داری کی کمی ہے۔ سماعت سے قبل فائل پڑھ لی جائے تو نسل در نسل تک مقدمات نہ چلیں۔