بھارت کے اخبارٹائمز آف انڈیا نے ”چین کس طرح ایشیا میں امریکا کے عسکری دیو کی جگہ لے رہا ہے؟“۔ کے عنوان سے ایک طویل مضمون میں چین کی عسکری اور اقتصادی اصلاحات اور جدیدیت کے سفر کا جائزہ پیش کیا ہے۔ اس مضمون میں چین کی فوجی طاقت اور اُبھار کے مختلف مراحل اور ادوار کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس طویل مضمون کا خلاصہ یہی ہے کہ چین ایشیا کی حد تک اب امریکا کی بالادست پوزیشن کو عسکری اعتبار سے نہ صرف چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے بلکہ امریکا کی جگہ لینے کے قریب تر بھی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ چین اب اقتصادی ہی نہیں عسکری دیو بھی ہے اور اب یہ دونوں میدانوں میں ایشیا کی حد تک امریکا کی بالادستی کو شہ مات دینے کے قریب ہے۔ ایشیا کے مسائل کا ایشین حل اور ایشیا کی قسمت کے مالک ومختار ایشین عوام جیسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھتا ہوا چین دنیا کی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ چین امریکا کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے مقام تک تو پہنچ چکا ہے اور اب وہ اس سے آگے بڑھنے کی خاطر محنت کررہا ہے۔ چین ماوزے تنگ کے اس اصول پر برسوں خاموشی سے عمل پیرا رہا کہ ”طاقتور وہی ہے جس کی فوج طاقتور ہے“۔ اسی اصول کے تحت چین نے پیپلزلبریشن آرمی کو جدید خطوط پر استوار کیا اسے جدید تربیت اور اسلحہ سے لیس کیا اور طاقتور فوج کے اندر کرپشن کو اکھاڑ پھینکنے کے نظام کو سریع الحرکت اور موثر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ فوج کے اندر بدعنوانی کی شکایت ملی تو پیپلز لبریشن آرمی کے داخلی نظام نے اس بدعنوان عنصر کو اُگل ڈالنے میں لمحوں کی تاخیر نہیں کی۔ چین کے موجودہ صدر ژی جن پنگ کو چینی فوج میں اس جدیدیت کا معمار قرار دیا جا رہا ہے۔ ژی جن پنگ ہی نے چین کے مخفی عزائم کو اعتماد کے ساتھ افشاءکرکے بتادیا کہ چین اقتصادی دنیا میں اپنے تصور کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ 2013 میں ون بیلٹ ون روڈ جیسے بعد میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا نام دیا گیا کے آغاز کا اعلان اس سمت کا پہلا قدم تھا۔
دنیا اس حقیقت کا اعتراف تو کر رہی تھی کہ چین ایک متبادل اقتصادی اور عسکری آرڈر کے لیے کام کررہا ہے مگر اس کے خدوخال کیا ہوں گے اس پر بات پوری طرح کھلنے نہیں پائی تھی۔ چین کے اس تصور کو عمل کی دنیا تک پہنچنے سے روکنے کی کوششیں بھی کسی واضح نام اور شکل وصورت کے بغیر جاری تھیں۔ کراچی اور بلوچستان میں عشروں سے جاری سرگرمیوں کا تعلق گوادر کی بندرگاہ سے تھا جو ایک بڑی اقتصادی طاقت بننے کے سفر میں چین کا اہم سنگ میل تھا۔ خود پاکستان کے لیے اس کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ 2013 میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اعلان کرکے چین نے زمانے کی ہواﺅں کے آگے اپنا چراغ رکھ دیا۔ یہ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ ایشیا، افریقا اور یورپ کو سڑکوں، ریلوے لائنوں اور بندگاہوں سے مزین کرکے جوڑنے اور ایک مشترکہ اقتصادی سرگرمی کے فروغ کا منصوبہ تھا۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو چین نے دنیا بھر کے ملکوں کوشراکت کی دعوت کے ساتھ کھول دیا مگر پہلے مرحلے پر جھجکتے اور جھینپتے ہوئے چند ہی ملک اس راہ پر چلنے پر آمادہ ہوئے۔ اس جھجک اور خوف کی وجہ امریکا اور بھارت کا منصوبے کی کھلی مخالفت اور روس اور جاپان کا تحفظات کے ساتھ مخالفت کرنا تھی۔ بھارت اور امریکا کے لیے تو اس منصوبے کو روکنا عزت اور انا کا معاملہ بن کر رہ گیا۔ بھارت نے پاک چین اقتصادی راہداری کے گلگت بلتستان سے گزرنے کا بہانہ بنا کر مخالفت پر کمر باندھ لی اور امریکا نے بھارت اور جاپان کی ناراضی کو بہانہ بنا کر معاندانہ روش اختیار کی۔ بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے پہلے اجلاس میں چھیاسٹھ ملکوں نے اس معاہدے میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی اور اب یہ تعداد بڑھ کر ایک سو پندرہ تک پہنچ چکی ہے جبکہ انتیس عالمی تنظیموں نے بھی اس منصوبے میں شرکت کے لیے دستخط کیے ہیں۔
2013 میں شروع ہونے والے اس منصوبے کی مرحلہ وار تکمیل 2049 میں ہوگی اور یوں یہ اگلی صدی اور زمانوں کا منصوبہ ہے۔ جن ملکوں نے اس منصوبے میں شرکت کے لیے دستخط کیے تھے ان ملکوں میں اسی بلین ڈالر سرمایہ کاری ہو چکی ہے اور چین کے ساتھ ان ملکوں کا تجارتی حجم چھ ٹریلین تک پہنچ چکاہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ ان ملکوں میں تین لاکھ مقامی لوگوں کو روزگار فراہم ہو گیا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ فورم کا دوسرا اجلاس اس لحاظ سے اہم رہا کہ روس نے تحفظات کے باجود اس منصوبے میں شرکت کا اعلان کیا۔ روسی صدر ولادی میرپیوٹن نے بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے خطاب کرتے ہوئے اسے علاقے کے ملکوں میں مشترکہ تجارت کے روسی منصوبے جیسا ہی قرار دیا۔ امریکا اس اہم عالمی سرگرمی سے الگ رہ کر اپنے عزائم اور ارادوں کا اظہار کر گیا۔ اس اجلاس کے موقع پر پاکستان اور چین کے درمیان آزاد تجارت کے معاہدے پر بھی دستخط ہوئے۔ بیلٹ اینڈ روڈ اجلاس کے موقع پر روس کے صدر ولادی میرپیوٹن اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اپنے ملکوں کی اہمیت کے لحاظ سے اہم رہے۔
روس خطے کا ایک اہم ملک ہے اور بیلٹ اور روڈ منصوبے میں روس کی شرکت اس منصوبے کو عالمی ساکھ اور اعتبار فراہم کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے جبکہ پاکستان اس منصوبے کے سب سے اہم حصے یعنی سی پیک کا مرکزی کردار ہے۔ اس سفر میں پاکستان کے لیے امکانات کے نئے جہان آباد اور پنہاں ہیں وہیں یہ پاکستان کے منصوبہ سازوں کے لیے امتحان بھی ہے۔ چین کے اس منصوبے کو چھوٹی معیشتوں کے لیے پھندہ کہنے والے بھی کم نہیں اور انہیں اپنے موقف کے حق میں دلیل کے لیے سری لنکا کی ایک بندرگاہ کی مثال ہاتھ آگئی ہے۔ جس میں سری لنکا حکومت چین کو قرض کی ادائیگی نہ کرسکی اور نتیجے کے طور پر چین نے اس بندرگاہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اندر خانے کیا کہانی ہے؟ اس کا کسی کو علم نہیں سری لنکا تیزی سے علاقائی سیاست میں چین کے قریب جا رہا ہے اور بھارت اسے اپنی طرف گھسیٹ رہا ہے۔ بھارت سری لنکا کی بندرگاہ میں گوادر والا کھیل کھیلنا چاہتا ہو جس کی وجہ سے چین کو براہ راست اس کا کنٹرول حاصل کرنا پڑا۔ بہرحال جو بھی ہو چھوٹے ممالک کو اس مثال سے لمحہ بھر کے لیے سوچنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو چین کے ساتھ تمام منصوبوں میں شفافیت کو اپنا نا چاہیے۔ یہ ایک کاروباری سرگرمی ہے اور اس کا بنیادی مقصد محض چینی تجارتی قافلوں کو راہداری فراہم کرنا نہیں بلکہ اپنے لوگوں کا میعار زندگی بلند کرنا اور معاشی خوش حالی کو ان کی دہلیز تک لانا ہے۔ کاروبار میں لحاظ اور مروت کی کچھ حدود وقیود ہوتی ہیں۔ پاکستان کو ان حدود وقیود کا لحاظ کرنا ہوگا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے اس بڑی عالمی اقتصادی سرگرمی میں چین کا طفیلی، شہ بالا اور دُم چھلہ بن کر رہنے کے بجائے مکمل شراکت دار بن کر رہنا ہوگا۔ شراکت داری کی یہ خوُبُو چین ہمارے اندر زبردستی پیدا نہیں کر سکتا۔ یہ صلاحیت ہمیں اپنے اندر خود پیدا کرنا ہوگی۔ اپنے نظام کو کرپشن سے پاک کر کے، کام کرنے اور دیانت کے اصول اپنانے کی عادت ڈال کر ہم اس منصوبے کے فعال اور اچھے شراکت دار بن سکتے ہیں بصورت دیگر سرد جنگ کی طرح ہمارا مقدر شہ بالا بننا ہوگا۔