خلا پر کنٹرول کی جنگ

230

 

اکتوبر 2017 ءمیں زمین سے ہزاروں کلومیٹر اوپر روسی سیٹلائٹ آہستہ آہستہ فرانسیسی اور اطالوی سیٹلائٹ ایتھنا فدس کے قریب پہنچ گیا جسے فرانس نے روس کی جانب سے جاسوسی کا اقدام قرار دیا ۔ ایک بات جس کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس سے قبل یہی روسی سیٹلائٹ، جو کہ ’لخ‘ یا ’اولمپ کے‘ کہلاتا ہے، امریکی فوجی سیٹلائٹ جی ایس ایس اے پی کے 10 کلومیٹر قریب پہنچ گیا تھا ۔ 2010ء سے چین نے بھی مخصوص اہداف تک اپنا سیٹلائٹ بھیجنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ممالک کے یہ خفیہ اقدامات خلا میں فوجی تسلط قائم کرنے کی کوششوں کا اظہار ہیں ۔ گو کہ امریکا، روس اور چین کے پاس میزائل یا براہ راست تصادم کے ذریعے دشمن کی سیٹلائٹ تباہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ یہ ممالک ایسی شعاعوں کی تیاری پر بھی کام کر رہے ہیں جو مخالف سیٹلائٹ کو اندھا کرنے یا نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہیں، تاہم انسان کی جانب سے خلا میں جانے کی چھ دہائیاں گزرنے کے بعد ابھی تک اس قسم کا کوئی تصادم یا حملہ نہیں ہوا ہے کیونکہ خلا کی اصل جنگ دوسروں کے سیٹلائٹ کو مدار میں تباہ کرنا نہیں بلکہ جیم کرنا، ہیک کرنا اور دوسرے سائبر معاملات سے متعلق ہے۔
سیکور ورلڈ فاونڈیشن کے ڈائریکٹر پروگرام پلاننگ برائن ویڈن نے کہا ہے کہ خلا میں فوری طور پر مخالف سیٹلائٹس کے تصادم کا خطرہ نہیں ۔ میرے خیال میں یہ سب کچھ انٹیلی جنس اور نگرانی کے مقاصد کے لیے کیا جا رہا ہے۔ برائن ویڈن کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد دوسروں کی سیٹلائٹس کی تصاویر حاصل کرنا اور یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ امریکی فوج نے پہلی بار 1991ء کی خلیجی جنگ میں زمینی آپریشنز کے لیے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کی۔ اس جنگ میں امریکا نے اسمارٹ بموں کو گرانے کے لیے گلوبل پوزیشننگ سسٹم (جی پی ایس)کا استعمال کیا۔ اس نظام میں پہلی بار خطرات اس وقت بے نقاب ہوئے جب خلیجی جنگ کی ایک دہائی بعد ایران نے امریکی سیٹلائٹ کے سگنلز جام کرنے کی کوشش کی۔
حالیہ برسوں میں روس نے بحیرہ بالٹک کے ارد گرد امریکا اور اس کے اتحادیوں کے جی پی ایس سگنلز جام کیے۔ اس کے بعد امریکا اور اس کے اتحادی سگنلز جام کرنے کی ٹیکنالوجی کا توڑ نکالنے پر مجبور ہو گئے۔ اب سائبر سیکٹر بشمول سول اور فوجی دونوں نے جیمنگ اور سائبر حملوں سے بچاؤں کے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ نارویجن کمپنی ’کے سیٹ‘ کے ڈائریکٹر قومی سلامتی پروگرام مارک نیپ کے مطابق اس وقت یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ ہم نے خلا کے حوالے سے خطرات پر قابو پا لیا ہے۔ ’ہم یہ جانتے ہیں کہ ان خطرات پر کیسے قابو پانا اور انہیں کم کرنا ہے، ہمیشہ نئے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں۔‘
پینٹاگون امریکی صدر کی آشیرباد سے خلائی فوج قائم کرنے کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس کے لیے کانگریس کی منظوری کا انتظار ہے۔ مجوزہ خلائی فوج 20 ہزار افراد پر مشتمل ہو گی اور یہ آرمی، نیوی، میرینز اور ائرفورس کی طرح فوج کا باقاعدہ حصہ ہو گی۔ خلا کی نگرانی اس خلائی فوج کی سب سے اہم ترجیح ہو گی۔