نیب اور معیشت: کیا واقعی ایک ساتھ نہیں چل سکتے؟

327

ملک میں جمہوریت کے تسلسل کے تیسرے تاریخی دور حکومت کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسے ملک کی دو بڑی جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دونوں سیاسی پارٹیوں کے مرکزی رہنما ’’کرپشن کے حمام میں ننگے ہیں‘‘۔ ان میں تین بار وزیر اعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف تو اب ملزم سے ’’ترقی‘‘ پاکر مجرم بھی قرار پا چکے ہیں۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور دیگر لیڈرز ابھی تک ملزم ہی ہیں۔ عدالت سے یہ ابھی تک مجرم ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کرسکے۔ مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کو بدعنوانی کے مقدمات میں ملوث ملزمان کی پارٹیاں بھی کہا جاسکتا ہے۔ تاہم ان دونوں جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں کو موجودہ حکمرانوں سے شکایات کے ساتھ ان کے طرز حکمرانی پر بھی شدید اعتراض ہے۔ پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور ان کے صاحبزادے و پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ نیب اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بلاول زرداری نے اس جملے میں معیشت کی جگہ جمہوریت کہا تھا۔ عام خیال ہے کہ صرف بلاول ہی کیا بلکہ آصف زرداری اور نواز شریف بھی اس بات پر متفق ہوںگے کہ نیب اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ کم ازکم نیب کی موجودہ آزادی اور خود مختاری کے ساتھ تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ملک سے کرپشن کے خاتمے کا خواہش مند کوئی بھی ذی ہوش نیب ہی کیا کسی بھی احتسابی ادارے کے حوالے سے اس طرح کی بات نہیں کرسکتا۔ البتہ نیب کا قانون مزید سخت بنانے اور کرپشن کے مقدمات کے لیے ’’اسپیڈی کورٹس‘‘ قائم کرنے کے لیے ہر سمجھدار آدمی خواہش مند ہوگا۔ آصف زرداری نے اگر نیب کے ساتھ معیشت کا ذکر کیا ہے تو یہ بات یقینا انہوں نے اپنے مشاہدے یا تجربے سے کہی ہوگی۔ مگر ذہن میں سوال آتا ہے کہ کیا آصف زرداری معیشت کو بھی کرپشن کہتے یا سمجھتے ہیں؟
کسی کا ذاتی ذریعہ معاش اگر کرپشن ہو تو اردو لغت میں معیشت کے معنی ’’زندہ رہنا‘‘ بھی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آصف علی زرداری نے اسی تناظر میں یہ کہا ہو کہ معیشت اور نیب ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ بات تو سو فی صد درست ہے کہ کرپٹ لوگ، نیب کی موجودگی میں باآسانی زندہ نہیں رہ سکتے۔ ان کی زندگیاں اجیرن بن جاتی ہیں اور جب پورا معاشرہ ہی کرپٹ ہوجائے تو جمہوریت اور نیب کا جھگڑا تو ہوگا۔ اس لیے یہ بات بھی درست تسلیم کی جاسکتی ہے کہ جمہوریت اور نیب ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ کیا نیب کو ختم کرکے بدعنوانوں کو کھلی چھوٹ دیدی جائے یا جمہوریت کو خیرباد کہہ دیا جائے؟ اگر ہمارے سیاست دان قوم کے حقیقی رہنما ہوتے تو ان سوالات کا جواب دے سکتے تھے۔ ظاہر ہے کہ کرپشن اور کرپٹ عناصر کو آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اب تک صرف سلیکٹڈ کرپٹ شخصیات کے احتساب سے بھی کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوسکا تو قوم کے منتخب وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر نے سخت احتساب کے لیے اتفاق رائے اور مشاورت سے نیب کا چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو بنایا۔ ایک جج سے اگر کسی نے یہ توقع رکھی تھی کہ وہ ’’ان کے‘‘ سوا سب کو احتساب کے قانون میں جکڑے گا تو اس میں جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال صاحب کا کوئی قصور نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ نیب جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں اچھا کام کررہا ہے اور اسے ایسا ہی کرتے رہنا چاہیے۔ خیال ہے کہ نیب کی طرف سے بلا امتیاز احتساب کی وجہ سے مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے درمیان نیب ہی کو ختم کرنے پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ اگر خدا نخواستہ نیب سمیت کسی بھی احتساب کے ادارے کو ختم کیا گیا تو یہ پاکستان کی ناکامی اور یہاں کے کرپٹ لوگوں کی کامیابی ہوگی۔
بین الاقوامی نیوز سائٹ ’’فوکس نیوز پوائنٹ‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ میاں نواز شریف دنیا کے نمبر ون کرپٹ سیاستدان ہیں۔ اس رپورٹ میں دنیا کے نو دیگر بدعنوان سیاستدانوں میں آصف زرداری کا نام نہیں ہے۔ یہ بات آصف زرداری اور ان کے رشتے داروں کے لیے اطمینان کا باعث ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ پوری قوم اس رپورٹ کو بوگس قرار دے۔ مگر میری نظر میں وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی یہ بات بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ شہید بھٹو کی نظریاتی جماعت کرپشن کے ہاتھوں شہید ہوچکی ہے، جس کا ہمیں دلی افسوس ہے، عوام کے پیٹ اور جیب خالی ہیں کیوںکہ آپ کی جماعت اور رہنماؤں نے نظریات کی سیاست کو دفن کر کے ذاتی مفادات اور کاروبار کے نظریہ کو گلے لگایا۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ پیپلز پارٹی میں رہ چکی ہیں اس لیے ان سے زیادہ اس پارٹی کو کوئی دوسری جماعت کا کارکن نہیں جانتا ہوگا۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اگرچہ اطمینان بخش نہیں ہے بلکہ اب زیادہ غیر یقینی پائی جاتی ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ کرپشن میں ملوث سیاست دان ہیں۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے سیاستدانوں کے ساتھ مذہبی اور ماہرین معاشیات کی کانفرنس بلاکر ان سے رائے لینی چاہیے اور انقلابی فیصلے کرانا چاہیے۔ اس مجوزہ کانفرنس میں کرپشن کے الزام میں ملوث کسی بھی ایسے شخص کو نہیں بلایا جائے تاکہ وہ اپنے مفادات کی بات کرکے وقت ضائع نہ کرسکے۔ یہ کانفرنس ایوان صدر میں بھی بلائی جاسکتی ہے جس میں خصوصی طور پر چیف جسٹس کے ساتھ آرمی چیف کو بھی مدعو کیا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ملک میں ایسی باتیں بڑھ جائے گی کہ ’’نیب اور معیشت یا جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔