یکم مئی آیا اور گزر گیا

185

یکم مئی محنت کشوں کا عالمی دن ہے تمام دنیا اور پاکستان میں یہ دن جوش و خروش سے منایا جاتا ہے محنت کش طبقہ شکاگو کے محنت کشوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے، جنہوں نے روزانہ سولہ، سولہ گھنٹے غلاموں کی طرح کام لینے کے خلاف قربانیاں دے کر آٹھ گھنٹے اوقات کار مقرر کرائے۔ پاکستان میں یہ دن محنت کش جلسے، جلوس و ریلیاں منعقد کرکے جوش وخروش سے مناتے ہیں لیکن‘ بات اس سے آگے نہیں بڑھتی‘ وہی بھٹیاں اور وہی مزدور‘ دن رات ان کی زندگیاں انہی بھٹیوں کی نذر ہورہی ہے جب چمنی سے دھواں اٹھتا ہے تو مزدور کے خون پسینے کی بو بھی اسی میں آتی ہے لیکن صنعت کار‘ آجر طبقہ‘ اس طبقاتی جنگ میں مزدور کے مقابل کھڑا ہوتا ہے‘ اسے چمنیوں سے دھواں اٹھتا ہوا اچھا لگتا ہے مگر جب اجرت دینے کا وقت آتا ہے تو یہی آجر اپنے مفادات کے پیچھے چھپا ہوا ملتا ہے‘ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے منشور میں مزدور کی فلاح بہبود کا پروگرام شامل رہا ہے مگر عملاً تمام سیاسی جماعتوں کی صفوں میں روشنی نہیں بلکہ قبر سے زیادہ گھپ اندھیرا ہے‘ جی اسی قبر میں مزدور آجر کی صنعت کی امپائر کھڑی کرتے کرتے ایک روز اس میں جا سوتا ہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا‘ محنت کشوں کے بنیادی حقوق کی پاسداری کے ساتھ ساتھ اسلامی مساوات، سماجی تحفظ، جمہوریت اور قومی اقتصادی خودکفالت کی پالیسی اپنا کر غربت، جہالت، بیماری، بے روزگاری اور سماج میں اونچ نیچ کے نظام تبدیل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا کسی سیاسی جماعت‘ مزدور تنظیم کے پاس ایسا کوئی ڈیٹا نہیں ہے جس سے اندازہ ہو کہ اس وقت ملک میں کتنے مزدور آئین میں دیے ہوئے حق سے محروم ہیں‘ کیا پارلیمنٹ اس بات سے واقف ہے کہ جب کسی ادارے کی نج کاری کا چراغ جلایا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں کتنے مزدوروں کی نوکری آخری ہچکی لے رہی ہوتی ہے؟ یہ پارلیمنٹ عوام اور مزدوروں کے ووٹ سے تشکیل پائی ہے لیکن پارلیمنٹ میں کبھی مزدور پالیسی اور محنت کشوں کے احوال پر بحث نہیں ہوئی۔
21 ویں صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود آج دنیا میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کی پالیسیوں کو اپنانے، قومی مفاد عامہ کے اداروں کو نج کاری کے حوالے کرنے اور لیبر کے حقوق کو کنٹریکٹ، عارضی ملازمت اور اْن کے ضمانت شدہ حقوق وقوانین پر عمل نہ کرنے کا نظام چل رہا ہے سماج میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے، صنعتوں، تجارت اور زراعت میں اجارہ داری قائم ہورہی ہے جبکہ آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل نمبر 3 میں تحریر ہے کہ حکومت ملک میں استیصالی نظام کا خاتمہ کرے گی اور آرٹیکل نمبر 9 کے تحت ریاست کی یہ بنیادی ذمے داری ہے کہ عوام کو بنیادی ضروریات مع روزگار، تعلیم، علاج معالجہ، پانی وبجلی اور رہائش کی سہولت فراہم کرے اور ملک میں سماجی انصاف پر مبنی نظام قائم کرے۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بھی محنت کشوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی اور برصغیر ہندوپاک کی اسمبلی میں محنت کشوں کے حقوق کے ابتدائی قوانین منظور کرائے وہ انڈیا پوسٹل ورکرز یونین کے اعزازی صدر بھی منتخب ہوئے اور محنت کشوں کے حقوق کے لیے جدوجہد فرمائی۔ قیام پاکستان کے بعد اْنہوں نے ٹیکسٹائل ملز کا افتتاح کرتے ہوئے اعلان کا کہ آجر کی ذمے داری ہے کہ وہ کارکنوں کی عزت، معقول اْجرتیں، سماجی تحفظ اور خوشگوار کام کا ماحول مہیا کرے کیوںکہ خوش کن کارکن بہتر کارکردگی سرانجام دے سکتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں محنت کشوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت کے باوجود فرسودہ مزدور قوانین اور ان پر عمل درآمد کے فقدان کی وجہ سے ملک کے محنت کشوں کی اکثریت مع زرعی، غیر منظم شعبہ اور بینکوں اور خود حکومت کے بعض اداروں مع نادرا میں محنت کشوں کو قانون کے تحت انجمن سازی و اجتماعی سوداکاری کا حق نہیں۔ کروڑوں محنت کشوں کی موجودگی میں ملک کے لیبر قوانین پر ریاست کی عمل درآمد کی مشینری نہ ہونے کے برابر ہے اور صرف ملک میں 572 لیبر انسپکٹر ہیں۔ محنت کشوں کے لیبر قوانین مع کم ازکم اْجرت، سماجی تحفظ، کام پر حادثات سے روک تھام اور اوقات کار پر عمل درآمد، کمسن بچوں کی جبری مشقت اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمہ پر عمل نہیں ہوتا۔ حکومت نے آئی ایل او کنونشن کی توثیق کرکے یہ ذمے داری لے رکھی ہے کہ وہ اپنے قوانین اور اْن پر عمل درآمد کی پالیسی اْن کے ہم آہنگ کرے گی اور کارکنوں کو پالیسی ساز فیصلے لینے سے قبل سالانہ قومی سطح پر سہ فریقی لیبر کانفرنس منعقد کرے گی جو 2011ء کے بعد منعقد نہیں کی گئی۔ آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹرانسپورٹ اور کانوں میں سب سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔ بڑھاپے میں کارکنوں کو سوشل سیکورٹی اسکیم کے تحت مفت طبی سہولت رکھنے کے بجائے بند کر دی جاتی ہے۔ ورکرز ویلفیئر فنڈ میں ایک کھرب ستر کروڑ روپے وفاقی وزارت خزانہ میں منجمد ہیں جبکہ کارکنوں کو بچوں کی تعلیم کے لیے وظیفہ، بچی کی شادی اور موت پر خصوصی امدا د کے حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے ملک میں ہر عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے ملک کے محنت کشوں وغریب عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے منشور پیش کیا لیکن عمل نہیں ہوتا‘ ملک کے سرمایہ دار و جاگیردار طبقہ کی اکثریت ٹیکس ادا نہیں کرتی اور بعض نے اربوں روپے غیر ملکی بینکوں میں جمع کرا رکھے ہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی نج کاری سے سبق سیکھتے ہوئے بجلی، ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل ملز کے قومی اداروں کو آئی ایم ایف کے دباؤ پر مجوزہ نج کاری کے حوالے کرنے کے بجائے قابل اور دیانت دار انتظامیہ کے ذریعے اس کی کارکردگی میں اضافہ کرائے۔ان ا قتصادی سماجی حالات کی اصلاح کے لیے محنت کشوں کو اپنی تنظیموں کو یکجا کرکے ملک کے محب الوطن عناصر وجماعتوں سے مل کر اپنی جدوجہد کو کامیاب کرنا ہوگا۔ ملک کا محنت کش طبقہ یہ دن مناتے ہوئے اپنے بھرپور عزم کا اظہار کر رہا ہے کہ پاکستان میں محنت کشوں کے بنیادی حقوق کی پاسداری کے ساتھ ساتھ اسلامی مساوات، سماجی تحفظ، جمہوریت اور قومی اقتصادی خودکفالت کی پالیسی اپنا کر غربت، جہالت، بیماری، بے روزگاری اور سماج میں اونچ نیچ کے نظام کو جلدازجلد ختم کیا جائے پیپلز پارٹی کے منشور کا حصہ ہے مگر ادارے تباہ کردیے گئے ہیں جبکہ پارلیمنٹ کو دوہرے معیار پر لاکر کھڑا کردیا گیا ہے، روزگار کے مواقع پیدا کرنا اولین ترجیح ہے۔ عوام کے حقوق کا تحفظ ریاست کی اولین ذمے داری ہے پیپلز پارٹی کا انتخابی منشور اب یہ رہ گیا ہے کہ بے نظیر بھٹو کا نامکمل مشن مکمل کرنا ہے سابق حکومت کا معاشی ریکارڈ خراب ترین ر ہا ہے، مسلم لیگ ن کے دور میں کیا کچھ نہیں ہوا اب کشکول توڑنے والوں نے جتنے قرضے لیے اتنے قرضے پاکستان کی تمام حکومتوں نے مل کر بھی نہیں لیے اس وقت گردشی قرضہ گیارہ ہزار ارب کی خطر ناک حد تک پہنچ چکا ہے نوجوان روز گار مانگ رہا ہے کسان پانی اور کھاد مانگ رہا ہے مزدور کسان دوست پالیسیوں کا کہیں کوئی وجود ہے؟ آج ہر طرف انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔