پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور قائد اعظم پاکستان کو عہد جدید میں اسلام کی تجربہ گاہ بنا کر ثابت کرنا چاہتے تھے کہ اسلام صرف ماضی کے لیے نہیں تھا حال اور مستقبل کے لیے بھی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کے معاشرے کو بلند خیالات اور بے مثال تجربات کا حامل ہونا چاہیے تھا مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کے معاشرے کو ’’طالبان خان‘‘ اور ’’بلاول صاحبہ‘‘ کے لچر جھگڑے میں اُلجھا دیا ہے۔ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ ہمارا اشارہ کس طرف ہے۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بلاول زرداری عمران خان کو ’’سیاسی گالی‘‘ کے انداز میں ’’طالبان خان‘‘ کہا کرتے تھے۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد سے وہ عمران خان کو ’’slected priminster‘‘ کہہ رہے تھے۔ اس کے جواب میں شیخ رشید نے بلاول کو ’’بلّو رانی‘‘ کہنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ حامد میر شیخ رشید اور بلاول کے قصے میں قوم لوط کا حوالہ لے آئے۔ انہوں نے اپنے کالم میں سوال اُٹھایا کہ آخر شیخ رشید بلاول کے حوالے سے کیا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ ترین ’’واردات‘‘ یہ ہے کہ عمران خان نے بلاول کو ’’صاحبہ کہہ دیا ہے۔ اس سلسلے کی دوسری وارادات شیخ رشید کا یہ بیان ہے کہ اگر بلاول میں کوئی ’’تکنیکی خامی‘‘ نہیں ہے تو پھر انہیں ’’صاحبہ‘‘ کہلانے پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اس مسئلے پر شہباز شریف اور مریم نواز نے بھی بیان بازی کی ہے اور کہا ہے کہ عمران خان کے تبصرے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کیسے انسان ہیں۔ عمران خان نے بلاول کو صاحبہ کہا بہت بُرا کیا مگر شریف خاندان کے اراکین اس سلسلے میں زبان نہ ہی کھولیں تو بہتر ہے۔ ان کے گھٹیا پن سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ یہ میاں نواز شریف ہی تھے جنہوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست کے دور میں انتخابات سے ذرا پہلے پنجاب میں بے نظیر بھٹو کی خود ساختہ ننگی تصاویر ہیلی کاپٹر سے گروا کر انہیں عوام تک پہنچایا تھا۔ یہ نواز شریف ہی تھے جنہوں نے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد پر دس کروڑ روپے کھاجانے کا گھنائونا اور بے بنیاد الزام عاید کیا تھا۔ چودھری شجاعت حسین نے اپنی خود نوشت ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں لکھا ہے کہ شریف خاندان کے ساتھ ان کا معاہدہ ہوا تو میاں شہباز شریف قرآن اُٹھا لائے اور کہا کہ یہ ضامن ہے کہ ہم آپ سے کیے گئے معاہدے کی ایک ایک شق پر عمل کریں گے مگر شریفوں نے چودھری شجاعت کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر ہرگز عمل نہ کیا اور بتا دیا کہ ان کی نظر میں قرآن پاک کی کیا قدر و قیمت ہے۔ اتنے بھیانک، شرمناک اور کریہہ پس منظر کے حامل ’’شریف‘‘ عمران خان کو ’’بدمعاش‘‘ کہتے ہوئے اچھے نہیں لگتے، مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست ’’ذاتیات‘‘ اور ’’گالم گلوچ‘‘ سے کیوں اَٹ گئی ہے؟۔
جب تک پاکستان کے معاشرے میں نظریات کی سیاست ہورہی تھی ہماری قومی زندگی میں نظریات ہی یا نظریات ’’بھی‘‘ زیر بحث آتے تھے۔ معاشرے میں ایک طرف مولانا مودودی، جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے نظریات تھے۔ ان کا تصور زندگی تھا۔ ان کا عالمی تناظر یا world view تھا۔ دوسری طرف سوشلسٹوں اور مغرب زدگان کے نظریات تھے، ان کا تصورِ زندگی تھا، ان کا ’’ورلڈ ویو‘‘ تھا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک اپنی اصل میں صرف اینٹی بھٹو تھی مگر اسے بہرحال تحریک نظام مصطفی کا نام دیا گیا تھا اور اس میں عوام کا جوش و جذبہ اس کے مذہبی تشخص ہی کی وجہ سے تھا ورنہ قومی اتحاد ایک بھان متی کا کنبہ تھا جس میں ولی خان اور اصغر خان جیسے سیکولر اور لبرل عناصر بھی شامل تھے۔ ان لوگوں کا کسی نظام مصطفی سے دور پرے کا بھی واسطہ نہ تھا۔ بھٹو صاحب وڈیرے اور سول آمر تھے مگر نمائش ہی کے لیے سہی ان کے بھی کچھ نظریات تھے۔ ان کا ایک تصور معیشت تھا اس تصورِ معیشت کے تحت انہوں نے ’’قومیانے‘‘ کی پالیسی اختیار کی۔ اس پالیسی نے ملک کی معیشت کو تباہ کردیا مگر بہرحال بھٹو نے اپنے نظریے کے مطابق معیشت کو چلانے کی کوشش کی۔ مگر اب پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اس کا کوئی نظریہ ہی نہیں۔ خاص طور پر ہماری سیاست میں کسی بھی نظریے کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ظاہر ہے کہ جب سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہوگا تو پھر شخصیات اور ذاتیات ہی زیر بحث ہوں گی۔ پھر نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کو ’’خلائی مخلوق‘‘ کہیں گے۔ عدالت عظمیٰ نواز شریف کو ’’مافیا‘‘ اور ’’گاڈ فادر‘‘ قرار دے گی۔ بلاول عمران خان کو ’’طالبان خان‘‘ اور سلیکٹڈ وزیراعظم کہیں گے اور جواب میں عمران خان بلاول کو ’’صاحبہ‘‘ قرار دے کر ان کی شخصیت کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے۔
دوسر امسئلہ یہ ہے کہ جب معاشرے کے نظریات نہ ہوں تو پھر معاشرے کی سیاست ’’مفادات کا کھیل‘‘ بن جاتی ہے۔ چناں چہ ہمارے سیاست دانوں کی عظیم اکثریت مفادات کے تحفظ کے لیے سیاست کررہی ہے۔ مفادات کے کھیل میں صرف مفادات اہم ہوتے ہیں۔ مذہب، اخلاق یا کردار نہیں۔ عمران خان کہا کرتے تھے کہ وہ کبھی سرمائے اور Electables کی سیاست نہیں کریں گے مگر گزشتہ انتخابات سے چند روز پہلے انہوں نے ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سرمائے اور Electables کے بغیر انتخابات نہیں جیتے جاسکتے۔ عمران خان کی بات غلط نہیں تھی مگر انہوں نے اپنے نظریات کو بدل کر ثابت کردیا کہ ان کا تبدیلی کا نعرہ محض ایک دھوکا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ بھی شریفوں اور بھٹوز کی طرح مفاد پرست ہیں۔ ان کے لیے اقتدار کسی چیز کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ بجائے خود مقصد ہے۔ ظاہر ہے جب سیاست مفادات کی اسیر ہوگی تو پھر وہ شخصیات اور ذاتیات کے گرد ہی طواف کرے گی اور اس سے لازماً ’’طالبان خان‘‘ اور ’’بلاول صاحبہ‘‘ جیسے توہین آمیز القابات نمودار ہوں گے۔ مفاد پرستی کے کھیل میں مذہب، اخلاق، تہذیب اور کردار کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
کچھ عرصہ پہلے جنرل جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ دینی مدارس یا تو موذن اور پیش امام پیدا کرتے ہیں یا دہشت گرد۔ اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ جدید تعلیمی اداروں سے بالعموم یا تو دنیا پرست پیدا ہوتے ہیں یا ملک توڑنے والے یا پھر کرائے کے فوجی ڈھالنے والے اور مغرب کے ایجنٹ۔ اسی لیے ممتاز ڈراما نگار اور افسانہ نویس اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ ملک کو چھوٹے لوگوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ ملک کو بڑے لوگوں نے تباہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ بڑے لوگوں کی فیکٹریاں جدید تعلیمی ادارے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں جدید علوم پڑھائے جاتے ہیں اور جدید مغربی علوم کے بارے میں اکبر الٰہ آبادی نے بے مثال بات کہی ہے۔ اکبر نے فرمایا ہے۔
علوم مغربی کے بحر میں غوطے لگانے سے
زباں گو صاف ہوجاتی ہے دل طاہر نہیں ہوتا
اکبر کے اس شعر کا عوامی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو اکبر کہہ رہے ہیں کہ مغربی علوم پڑھنے سے انسان بک بک کرنا سیکھ جاتا ہے لیکن اس سے انسان کا دل حسد، بغض، نفرت اور عداوت جیسے کریہہ خیالات و جذبات سے پاک نہیں ہوتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کی عظیم اکثریت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مغربی علوم پڑھ کر بک بک کرنا تو سیکھ گئے ہیں مگر انہیں حقیقی تہذیب چھو کر بھی نہیں گزری۔ خیر سے عمران خان اور بلاول دونوں مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھے ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسجد میں موذن اور پیش امام ہونا عمران خان اور بلاول ہونے سے لاکھ گنا بہتر ہے۔ خدا کا شکر ہے کسی موذن اور کسی پیش امام نے جنرل یحییٰ کی طرح نہ ملک توڑا، نہ جنرل نیازی کی طرح دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالے، نہ جنرل پرویز مشرف کی طرح ملک کی فوج کو امریکا کے لیے کرائے کی فوج بنایا۔ نہ کسی کو ’’طالبان خان، سلیکٹڈ پرائم منسٹر‘‘ اور ’’بلاول صاحبہ‘‘ کہا۔
بلاشبہ بلاول کے چہرے، زبان وبیان اور لب و لہجے میں ایک نسائیت ہے مگر کسی کی نسائیت کا مذاق اُڑانا ایسا ہی ہے جیسے کسی لنگڑے، لُونجے، اندھے یا کانے کا مذاق اُڑایا جائے۔ کوئی انسان جان بوجھ کر لنگڑا، لونجا، اندھا یا کانا نہیں بنتا۔ بلاول کی نسائیت بھی ان کی کسی کوشش کا حاصل نہیں۔ چناں چہ ان کی نسائیت کا مذاق اُڑانا افسوس ناک اور شرمناک ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان کی ’’مردانگی‘‘ نے ماضی میں جو ’’گُل‘‘ کھلائے ہوئے ہیں انہیں دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ مردانگی بھی کافی شرمناک چیز ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات کچھ اور ہے۔
یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست اگر نظریات سے بے نیاز رہے گی تو اس میں ذاتیات کا عنصر بڑھتا ہی جائے گا۔ بعض احمق کہتے ہیں نظریات کا زمانہ ختم ہوگیا۔ نظریات کا زمانہ کبھی ختم نہیں ہوتا، لیکن اگر مان لیا جائے کہ نظریات کا زمانہ واقعتاً ختم ہوگیا ہے تو ہمیں اپنے انفرادی اور اجتماعی وجود کی پوری قوت صرف کرکے کم از کم اپنے معاشرے میں نظریات کے زمانے کو واپس لانا ہوگا۔ جدید مغربی فلسفے کے بانی ڈیکارٹ نے کہا تھا میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں۔ مگر ہمارے مغرب زدہ جرنیل مغرب زدہ سیاست دان اور مغرب زدہ دانش وروں کا نعرہ ہے۔
’’ہم نہیں سوچتے اس لیے ہم ہیں‘‘۔
ڈیکارٹ زندہ ہوتا تو یہ صورتِ حال دیکھ کر خودکشی کرلیتا اور مرنے سے پہلے کہتا اگر تم پڑھو گے تو سوچو گے، نہیں پڑھو گے تو سوچو گے بھی نہیں۔ پھر تم ایک دوسرے کو ’’طالبان خان‘‘ اور ’’بلاول صاحبہ‘‘ کہو گے۔