مفتی منیب الرحمن
سیدنا سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ (ایک بار) رسول اللہؐ نے شعبان کے آخری دن ہمیں ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، (یہ) مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک رات (ایسی ہے جو) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں (نوافل کے لیے) قیام کو نفلی عبادت قرار دیا ہے، سو جو (خوش نصیب) اس مہینے میں کوئی نفلی عبادت انجام دے گا، تو اُسے دوسرے مہینوں کے (اسی نوع کے) فرض کے برابر اجر ملے گا اور جو اس مہینے میں کوئی فرض عبادت ادا کرے گا، تو اسے (اسی نوع کے) غیرِ رمضان کے ستر فرائض کے برابر اجر ملے گا۔
یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے، یہ دوسروں سے ہمدردی اور ان کے دکھوں کے مداوے کا مہینہ ہے، یہ ایسا (مبارک) مہینہ ہے کہ اس میں مومن کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے، جو شخص اس مہینے میں کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے گا، تو یہ اس کے لیے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ بنے گا، اس کے سبب اس کی گردن نار جہنم سے آزاد ہوگی اور روزے دار کے اجر میں کسی کمی کے بغیر اُسے اُس کے برابر اجر ملے گا۔ (سلمان فارسی بیان کرتے ہیں:) ہم نے عرض کی: یارسول اللہؐ! ہم میں سے ہر ایک کو اتنی توفیق نہیں ہے کہ وہ روزے دارکو روزہ افطار کرائے، آپؐ نے فرمایا: یہ اجر اُسے بھی ملے گا، جو دودھ کے ایک گھونٹ یا ایک کھجور یا پانی پلا کر ہی کسی روزے دار کو روزہ افطار کرائے اور جو شخص کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھلائے، تو اللہ تعالیٰ اسے (قیامت کے دن) میرے حوضِ (کوثر) سے ایسا جام پلائے گا کہ (پھر) وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہیں ہوگا۔ یہ ایسا (مبارک) مہینہ ہے کہ اس کا پہلا عشرہ (باعثِ نزولِ) رحمت ہے اور اس کا دوسرا عشرہ وسیلۂ مغفرت ہے اور اس کا آخری عشرہ نارِ (جہنم) سے آزادی کا سبب ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے ماتحت (خدام اور ملازمین) کے کام میں تخفیف کرے، تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور اسے نار (جہنم) سے رہائی عطا فرمائے گا۔ (شعب الایمان للبیہقی)
یہ رمضان اور روزے کے فضائل کے بارے میں رسول اللہؐ کا ایک جامع اور ایمان افروز خطبہ ہے۔ باہر کی دنیا کے بارے میں تو ہمیں زیادہ معلومات نہیں ہیں، لیکن ہمارے ہاں ماشاء اللہ! ’’استقبالِ رمضان‘‘ کی مجالس منعقد ہوتی ہیں۔ رمضان کسی شخص کا نام نہیں ہے کہ کہیں سے اس کی آمد متوقع ہے تاکہ ہم آگے بڑھ کر اس کا استقبال کریں اور کہیں کہ آپ کے آنے سے ہمارے ہاں رونقیں ہوں گی، ہمیں مَسرّت وشادمانی نصیب ہوگی۔
دراصل استقبالِ رمضان ایک وجدانی، روحانی اور باطنی کیفیت کا نام ہے۔ پس لازم ہے کہ رمضان المبارک کی اِن بے شمار نعمتوں اور اجر وثواب کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے لیے ہم نہ صرف اپنے آپ کو نظریاتی اور عملی طور پر تیار کریں، بلکہ دوسروں کو بھی ترغیب دیں تاکہ ایک اجتماعی کیفیت پیدا ہو، رمضانِ مبارک کی بدنی ومالی عبادات ہمیں بار معلوم نہ ہوں بلکہ ان سے روحانی راحت نصیب ہو۔
یہ داخلی ترغیب وآمادگی جذبۂ اخلاص ورضا کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔ (الاحزاب 2) یہاں قلب سے مراد گوشت کا وہ لوتھڑا نہیں ہے، جو انسان کی رگوں میں جگر سے حاصل ہونے والے پاک وصاف خون کو رواں رکھتا ہے، کیونکہ ایسے شواہد ملتے رہتے ہیں کہ تخلیق انسانی کی سنّتِ جاریہ کے برعکس کبھی کبھی بعض بچوں کے سینے میں پیدائشی طور پر دو دل بھی ہوتے ہیں، بلکہ اس سے مراد قلبِ انسانی کے اندر خیر وشر کی ترغیبات ومیلانات کو اپنے اندر جذب کرنے کی وہ استعداد ہے جو قدرت نے ہر انسان کے دل ودماغ میں ودیعت کی ہے اور خیر وشر کی یہ کشمش جس طرح انسانی وجود سے باہر کی دنیا میں ہمیشہ سے موجود چلی آرہی ہے، اسی طرح یہ کشمش انسانی وجود کے اندر بھی برپا ہے، علامہ اقبال نے کہا ہے ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
ایک ہی دل میں کفر اور ایمان، ہدایت اور گمراہی، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور راہِ حق سے انحراف، صدقہ وخیرات کرکے غریبوں کی ہمدردی اور سنگ دلانہ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے غیر معمولی نفع اندوزی اور استیصال جمع نہیں ہوسکتے۔ بدقسمتی سے ہم اپنے نفسِ لوّامہ یعنی ضمیر اور نفسِ امّارہ کو بیک وقت خوش رکھنا چاہتے ہیں اور اسی کا نام دو عملی اور رویّوں کی منافقت ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے: ’’باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صَیّاد بھی‘‘۔ ہم ہر چیز کا دو نمبر ایڈیشن ایجاد کرنے کے ماہر ہیں۔ غریبوں اور ناداروں کے لیے افطار کا اہتمام کرنے کے متبادل کے طور پر ہم نے اُمرا کی عالی شان افطار پارٹیوں کے معاشرتی رسم کو پروان چڑھایا اور اسے بااثر حلقوں میں سماجی روابط بڑھانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ رمضان المبارک کے ’’قیامُ اللیل‘‘ کا بدل ہم نے سہ روزہ، پنج روزہ تراویح میں ختم قرآن کا شعار اپنایا تاکہ اُس کے بعد بازاروں کی رونقیں سجادی جائیں۔ ایک طرف مصنوعی تاجرانہ حربوں سے معاشرے کے زیریں طبقات پر رمضان میں غیرمعمولی مہنگائی کا عذاب مسلط کرنا اور دوسری طرف غریب پروری کے اظہار کے لیے چوراہوں اور فٹ پاتھوں پر دستر خوان سجانا ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً ہمارے ملک میں قتلِ ناحق اور تخریب وفساد کے جو واقعات ہوتے ہیں، انہیں بھی مذہب سے جوڑ دیا جاتا ہے، فیاللعجب…
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
اسی طرح ہمارے ہاں ایک نیا کلچر متعارف ہوا ہے کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے خطبے میں ’’اَلوَداع اَلوَداع یا شھرَ رمضان‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ چند سال قبل ایک خطیب صاحب نے اس کی بابت دریافت کیا: میں نے انہیں بتایا کہ نہ شریعت میں اس کی کوئی اصل ہے اور نہ قرونِ اولیٰ سے یہ شِعار ثابت ہے۔ انہوں نے کہا: ہماری انتظامیہ اور مقتدی کہتے ہیں کہ یہ تو آپ کو خطبے میں پڑھنا ہوگا۔ میں نے کہا: میرے عزیز! امام تو دینی رہنما ہوتاہے، آپ نے کب سے غلامی کو اپنا شِعار بنالیا ہے۔ ایک کمیٹی کی غلامی کا یہ عالم ہے تو جہاں مذہب سرکار کی غلامی میں ہے، وہاں مذہبی آزادی کا تصور کیسے ممکن ہے۔ مزید یہ کہ نعت خواں حضرات کو بھی ایک نیا عنوان ہاتھ آگیا ہے: ’’آج رمضان کی الوداع ہے‘‘ کے عنوان سے رقت آمیز لہجے میں اشعار پڑھے جاتے ہیں اور لوگ چار آنسو بہا کر رمضان المبارک کے حقوق سے عہدہ برا ہوجاتے ہیں۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی انہی چیزوں کو فروغ دے رہا ہے، کیونکہ رمضان میں کاروبار کی تشہیرکے لیے مذہبی عنوان ضروری ہے۔ اسی طرح پوری قوم کی طرف سے ’’توبہ‘‘ کا فریضہ بھی خوش آواز نعت خواں اسٹیج پر یا اسٹوڈیو میں بیٹھ کر انجام دے دیتے ہیں، یہ مذہبی عقیدت اور جذباتیت کا کاروباری استعمال ہے۔