افغانستان وہ بد قسمت ملک ہے جس میں گزشتہ 40 برسوں سے جنگ کے بادل نہ صرف منڈلا رہے ہیں بلکہ نہایت گھن گرج کے ساتھ برس بھی رہے ہیں۔ وہ افغانستان جو ماضی قریب میں دنیا کا ابھرتا ہوا ملک بنتا جارہا تھا اب پتھروں کے زمانے کے مناظر پیش کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ایک طویل عرصے سے جاری جنگ نے افغان عوام کی ہرکیفیت پر، خواہ وہ معاشی ہو، اقتصادی ہو یا ذہنی و جسمانی، بہت بری طرح اثر ڈالا ہے۔ مسلسل جنگ کی وجہ سے وہ کئی صدیوں پیچھے چلا گیا ہے۔ دنیا کے برابر آنے اور اپنے عوام کو ہر لحاظ سے دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ کھڑا کرنے میں اس کو ایک طویل عرصہ درکار ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب ملک پر چھائے بدامنی اور جنگ کے بادل چھٹ جائیں اور افغانستان مکمل امن کا گہوارہ بن جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے افغان عوام اور خود افغانستان گردش زمانہ کی لپیٹ میں آیا ہے پاکستان اس کی ہر مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہا ہے اور ایک سچے پڑوسی ہونے کے ناتے اس بات کے لیے کوشاں رہا ہے کہ افغانستان اس صورت حال باہر نکل سکے۔ جب روس نے افغانستان کی سر زمین پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھا اور اس کو ایک آسان ہدف سمجھ کر دنیا کی طاقتور ترین فوج اور جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے لیس ہو کر افغانستان میں داخل ہوا تو اس کا خیال تھا کہ یہ ایک ایسا ملک جس کے پاس باقاعدہ تربیت یافتہ فوج بھی نہیں ہے اور جنگی ہتھیار بھی روس کے اپنے ہتھیاروں کے مقابلے میں بچوں کے کھلونے ہیں جس کی وجہ سے وہ بآسانی افغانستان پر قابض ہوجائے گا اور وہاں پاؤں جمانے کے بعد پاکستان کو بھی زیر کرتا ہوا گرم سمندروں میں داخل ہوکر دنیا کی ایک بہت بڑی طاقت بن جائے گا۔ اس وقت پاکستان ہی تھا جس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس موقع پر بہر صورت افغانستان کا ساتھ دے گا۔ پاکستان بہت اچھی طرح اس بات سے واقف تھا کہ دنیا کے ایک بہت بڑے عفریت کے سامنے وہ کنجشک فرو مایہ بھی نہیں لیکن وقت کا تقاضا تھا کہ شکست و فتح کے تفکر میں پڑنے کے بجائے بڑھتے اور چڑھتے سیلاب کے سامنے بند باندھا جائے اور اس سے پہلے کہ سیلاب سب کچھ بہا کر لے جائے اس کی پیش بندی کر لی جائے۔ چنانچہ نتائج کی پروا کیے بغیر پاکستان اس جنگ کا حصہ بنا اور دنیا نے دیکھا کہ وہ ہتھیار جو روس کی نظر میں کھلونا تھے اور وہ عوام جن کو وہ آسان ہدف سمجھ رہا تھا۔ ان کھلونا ہتھیاروں اور نحیف و ناتوں انسانوں نے روس جیسی طاقت کو نہ صرف ریت کی دیوار کی مانند ڈھا دیا بلکہ اس کو اقتصادی لحاظ سے اتنا کمزور کردیا کہ اپنی ضم شدہ کئی ریاستوں کو خود سے جدا کر دینے پر ایسا مجبور ہوا کہ آج تک وہ آزاد کی گئی ریستوں کو اپنی یونین کا حصہ نہیں بنا سکا۔
اسی دوران میں ہوا یہ کہ امریکا کو بھی افغانستان میں مداخلت کا موقع ملا اور اس نے کمزور افغانستان میں جنگی مدد کے بہانے اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی۔ اس کی یہ کوشش اس لیے بار اور ثابت ہوئی کہ ایسے ناگفتہ بہہ حالات میں ڈوبتے کو تنکے کی ضرورت تھی۔ افغان عوام اس مدد کو بھی خدائی مدد خیال کر بیٹھے اور اس فریب میں مبتلا رہے کہ امریکا کی مدد کی یہ پیشکش مخلصانہ ہے لیکن بد قسمتی سے افغان عوام کا یہ خیال، خیالِ خام ہی ثابت ہوا۔ حقیقت حال تو جب سامنے آئی جب افغان عوام کے سامنے امریکا کے شیطانی عزائم کھلے اور افغانستان پر مکمل قبضہ کرنے کے منصوبے آشکار ہونا شروع ہوئے لیکن جب تک بہت وقت گزرچکا تھا اور افغان سرزمین پر امریکا اپنے پاؤں کافی حد تک جما چکا تھا۔
روس کو شکست دینے کے بعد افغان عوام کے سامنے آگ کا ایک دریا اور تھا جس کے پار اترنا لازمی تھا۔ مسلسل جدو جہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس طرح روس ناکامی کا شکار ہوکر افغان سرزمین چھوڑنے پر مجبور ہوا بالکل اسی طرح آج کل امریکا بھی افغانستان سے راہ فرار ڈھونڈ رہا ہے۔ روس کی تو سرحدیں افغانستان سے ملتی تھیں اس لیے اسے فرار ہونے میں کسی حد تک آسانی ہوئی لیکن امریکا کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی سرحدیں نہ ملنے کی وجہ سے اس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ بغیر افغانی جنگجوؤں اور پاکستانی حکومت کی مدد کے افغانستان سے باہر جاسکے۔ بعض اوقات اندازوں کی غلطیاں بھی قوموں کو مشکلات میں ڈال دیا کرتی ہیں۔ اس سارے عرصے میں پاکستان کی سرزمین بھی امریکا کے استعمال میں آئی۔ افغانستان میں دہشت گردوں کی صفائی کے بہانے پاکستان نے امریکا کو یہ موقع دیا کہ وہ اس کے ہوائی اور زمینی راستے استعمال میں لا سکتا ہے۔ یہ اس وقت کے حکمرانوں کی یقینا ایک غلطی تھی لیکن جنگ میں ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ اندازوں کی اسی غلطی کا خمیازہ تا حال پاکستان بھگت رہا ہے لیکن اب عمران خان کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے کسی متنازع معاملے میں نہیں پڑے گی۔ چنانچہ عمران خان کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان اب افغانستان کے اندرونی تنازع میں نہیں پڑے گا۔ افغانستان میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات سے پاکستان اضطراب میں ہے۔ افغانستان کے تنازعات نے 40 سال سے دونوں ممالک کو بہت نقصان پہنچایا۔ طویل انتظار کے بعد افغان امن عمل خطے میں امن کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔ افغان قیادت خود اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی‘‘۔
عمران خان کی بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ پاکستان کو افغانستان کے کسی بھی متنازع معاملے میں نہیں پڑنا چاہیے لیکن ان کو یہ بھی لازماً سوچنا ہوگا کہ کیا افغانستان کے معاملات سے مکمل لاتعلقی پاکستان کے مفاد میں ہے؟، اور کیا پاکستان واقعی افغان جنگ سے باہر آسکتا ہے؟۔ پاکستان جس جنگ کا حصہ گزشتہ 40 سال سے بنا ہوا ہے اس سے باہر نکلنا شاید اتنا سہل نہیں جتنا سمجھا اور کہا جارہا ہے۔ اس دوران ہم افغانستان کے کئی گروہوں سے تلخیاں بڑھا چکے ہیں جس کی وجہ سے یہ ضروری ہے کہ ان کا ازالہ کیا جائے۔ اس میں ایک نہایت ضروری بات یہ بھی ہے کہ خود پاکستان میں جن گروہوں نے پاکستان کی خاطر جو بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دی ہیں ان کے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر بھی نظرثانی کی شدید ضرورت ہے۔ ان کے خلاف کی گئی کارروائیاں بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں جس کا اگر اعادہ نہ کیا گیا تو آنے والی وقت میں یہ بھی پاکستان کے اندر ایک خلفشار کا سبب بن سکتی ہیں۔ ان ساری باتوں پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور فکر کی ضرورت ہے۔ ان کا حل صرف اور صرف بہت سنجیدہ اور مثبت مذاکرات ہیں خواہ وہ افغان حکومت کے ساتھ ہوں، افغان جنگوؤں کے ساتھ ہو یا پھر پاکستان کی وہ جہادی تنظیمیں جو پاکستان کے لیے اپنی قربانیاں دیتی آئی ہیں ان کے ساتھ مذاکرات ہوں۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جو خطے میں پائیدار امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔