مسئلہ ٔ مسعود کا چینی حل

238

چین نے آخر کار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی قرار داد کا ویٹو واپس لے کر قرارداد کی منظوری کا راستہ ہموار کر دیا اور یوں سلامتی کونسل نے مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دے دیا۔ جس کے بعد ان کا نام اقوام متحدہ کی پابندیوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔ اس پابندی کے بعد مسعود اظہر کے اثاثے منجمد ہوجائیں گے ان کے سفر پر پابندیاں ہوں گی اور وہ اپنے ساتھ اسلحہ رکھنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ سلامتی کونسل نے جہاں مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دیا وہیں ان پر پلوامہ سمیت بھارت میں ہونے والے کسی بھی حملے میں ملوث ہونے کے الزام کو تسلیم نہیں کیا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے پریس بریفنگ میں کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی پابندیوں پر فوری عمل درآمد کے اقدامات کرے گا۔ چین نے امریکا اور بھارت کی اس قرارداد کو چار مرتبہ ویٹو کیا تھا اور امریکا نے سلامتی کونسل کی قرارداد کو بائی پاس کرتے ہوئے ایک اور قرارداد لاکر اپنا فیصلہ ٹھونسنے کی کوشش کی تھی مگر چین کی شدید مخالفت کے بعد امریکا نے متبادل قرارداد اور متبادل فورم استعمال کرنے کا ارادہ ترک کیا تھا۔ سلامتی کونسل اس سے پہلے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو بھی اسی طرح کی پابندیوں کا شکار کیا تھا مگر عملی طور پر اس فیصلے کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ اب مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے سے بھی عملی سطح پر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس فیصلے کو نریندر مودی اپنی ایک بڑی کامیابی بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان بھی اس فیصلے پر زیادہ ناخوش نہیں۔ اس طرح لگتا ہے کہ یہ فیصلہ سب کی جیت کے اصول یعنی ’’وِن وِن فارمولے‘‘ کے تحت ہو اہے۔
چین کافی عرصے سے اس کوشش میں تھا کہ اس مسئلے کا کوئی قابل قبول حل نکالا جائے۔ چین اس معاملے پر پاکستان اور بھارت دونوں سے رابطے میں تھا۔ چینی قیادت کی طرف سے متعدد مواقع پر یہ کہا گیا تھا کہ وہ بہت جلد ایک قابل قبول حل کے قریب پہنچ جائیں گے۔ اس حل میں بھارت کی خوشی کا پہلو یہ ہے کہ ایک اور پاکستانی شہری پر دہشت گردی کا لیبل لگ گیا جبکہ پاکستان کے اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ پلوامہ حملے کو اس کیس سے الگ کیا گیا اور کشمیریوں کی تحریک کو براہ راست دہشت گردی کے الزام سے بچالیا گیا۔ اس طرح چین نے ’’میڈ ان چائنا‘‘ حل تلاش کرکے سب کی خوش کا سامان کر دیا۔ امریکا نے جو یک طرفہ حل تلاش کرنے کی راہ اختیار کی تھی اس میں پاکستان کو دیوار کے ساتھ لگایا جانا مقصود تھا۔ اس میں کلی طور پر بھارت کے مفادات کا خیال رکھا گیا تھا چین نے اس عمل میں رکاوٹ ڈال کر بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی خوش کردیا۔ اسے مسئلہ مسعود اظہر کا ایشین یا چینی حل کہا جا سکتا ہے۔
اس مسئلے پر ایک دلچسپ مضمون ماسکو میں مقیم ایک امریکی ریسرچر اور تجزیہ نگار انڈریو کاربکو نے یوریشیا فیوچر میں ’’مودی نے مسعود ٹرافی جیتنے کے لیے بھارت کی عالمی ساکھ فروخت کر دی‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ مضمون نگار لکھتے ہیں مودی مسعو اظہر کو سلامتی کونسل سے دہشت گرد قرار دلوانے کے لیے پاگل ہوئے جا رہے تھے مگر جب یہ ہوا تو سلامتی کونسل کے اعلامیے میں مسعود اظہر کے خلاف ان الزامات کا کوئی ذکر نہیں تھا جو بھارت مدتوں سے لگاتا چلا آرہا تھا۔ بھارت نے مسعود اظہر پر2001 میں پارلیمنٹ حملے 2008 ممبئی 2016 پٹھان کوٹ اور آخر میں پلوامہ حملوں کا الزام عائد کیا مگر اس اعلامیے میں ان میں کسی ایک واقعے کا ذکر نہیں۔ مضمون نگار لکھتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ بھارت نے اپنے یہ الزامات واپس لے لیے ہیں۔ اس طرح بھارت نے اپنا اعتبار ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ہے۔ اب عالمی برادری بھارتی الزامات اور دعوئوں کو قطعی اہمیت نہیں دے گی۔ مضمون نگار نے لکھا ہے کہ مودی نے خود درخواست کی کہ بھلے سے مسعود اظہر پر الزامات نہ دہرائے جائیں مگر انہیں دہشت گرد قرار دیا جائے۔ اس سے مودی کو دوسری بار انتخاب جیتنے میں مدد مل سکتی ہے۔ چین نے پاکستان کی طرف سے گرین سگنل ملنے کے بعد اپنا ٹیکنیکل ہولڈ ختم کر نے کا فیصلہ کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ چین افغانستان اور کشمیر جیسے مسائل کا بھی ایشین حل نکالنا چاہتا ہے تاکہ تمام فریق مطمئن ومسرور ہو کر امن کی راہ پر گامزن ہوں۔ بھارت نے ابھی تک چین کی اس کوشش کو تسلیم نہیں کیا اور امریکا بھی چین کی ایسی کسی بھی کوشش کو ناکا م بنانے کی کوششیں کرتا ہے یوں لگتا ہے کہ چین کو مسئلہ کشمیر کا ایشین حل نکالنے کا موقع دیا جائے تو یہ لاینحل نظر آنے والے بہت سے مسائل قابل قبول انداز میں حل ہو سکتے ہیں۔ امریکا نے دنیا میں مسائل حل کرنے کے نام پر نت نئے مسائل ہی پیدا کیے۔ مشرق وسطیٰ سمیت مسائل کے حل کے نام پر اس بے تدبیری کی داستانیں تاریخ میں جا بجا بکھری ملتی ہیں۔ چین کا اپنا خاموش اور ٹھنڈا ٹھار سا اسٹائل ہے۔ یہ اسٹائل گزشتہ تین عشروں میں چین کے اقتصادی اُبھار کے دوران دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس میں طاقت آزمائی آخری آپشن ہوتا ہے۔ خود بھارت کے ساتھ دوکلام تنازعے کو چین نے برتر پوزیشن کے ساتھ حل کیا مگر بھارت کی انا کو زخمی کیے بغیر اور آتشیں اسلحہ کے بجائے لاتوں اور گھونسوں سے کام چلا کر بھارت کا دماغ بھی درست کرلیا اور اپنا مقصد بھی حاصل کیا۔ کہیں ضروری ہوا تو پتھرائو سے بھی کام چلا لیا گیا۔
دنیا میں مہلک ترین اسلحہ کے حامل ملکوں کی افواج کے درمیان لاتوں اور گھونسوں کی لڑائی اپنی نوعیت کا ایک یادگار اور دلچسپ واقعہ بھی ہے اور یہ مسائل کے حل کے چینی اسٹائل کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ خدا جانے چین نے ایسا کون سا منتر پھونکا کہ بھارت دوکلام میں اپنی مونچھ نیچی کرنے اور دُم دبانے پر مجبور ہوا۔ گولی چلی نہ خون بہا، لاشیں اُٹھیں نہ آہ وزاری ہوئی، بارود پھٹا نہ تصادم نے تشدد کی شکل اختیار کی اور مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ چین نے افغانستان کے ایشیائی حل کی کوششیں شروع کیں تو پاکستان نے طالبان پر دبائو بڑھا کر بہت سے فیصلے کر الیے وگرنہ امریکا پاکستان پر جس قدر دبائو ڈال رہا تھا پاکستان ردعمل میں عملی طور ہر ڈومور کے جواب میں نو مور کہہ تو نہیں کر رہا تھا۔ یہ چین ہی تھا جس نے ہر قدم پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف بھی جا ری رکھا اور پاکستان کو مفاہمت کے لیے ایک بامقصد رول پر بھی آمادہ کیا۔ آخر کار امریکا کو مارا ماری کی پالیسی ترک کرکے افغان مسئلے کے چینی نسخے کی طرف لوٹنا پڑا۔ کشمیر کے معاملے میں بھی چین ایک بہترین اور قابل قبول حل نکال سکتا ہے اور چین اس پوزیشن میں بھی ہے۔ امریکا نے مسئلے کے حل سے زیادہ لیپا پوتی اور بھارت کی پردہ پوشی سے معاملات آگے بڑھانے کی کوشش کی اس کا نتیجہ یہ نکلا مسئلہ گمبھیر ہوتا چلا گیا۔ اب دوکلام کے بعد مسعود اظہر کیس نے خطے کے مسائل کے ’’ایشین حل‘‘ کے لیے چین کی خود اعتمادی کو مزید بڑھا دیا۔ اس سے خوبصورت حل اور کیا ہوسکتا ہے کہ دونوں فریق خوشی سے پھولے نہیں سمار ہے بھارت احساسِ فتح سے جھوم رہا ہے اور پاکستان بھارت کی شکست کے نشے میں مخمور ہے اور دونوں کا ردعمل چنداں غلط بھی نہیں۔