فُغانِ رمضان

340

جب سے ہمارا آزاد الیکٹرونک میڈیا وجود میںآیا ہے، نفع نقصان کا تخمینہ آج تک کسی نے نہیں لگایا کہ اس نے ہمیں دیا کیا ہے اور ہم سے لیا کیا ہے؟۔ اگرچہ آزاد میڈیا کے باوجود کرپشن کے آگے کوئی مضبوط بند تو نہیں باندھا جاسکا، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی بدولت کرپشن کے خلاف ایک توانا آواز بلند ہورہی ہے اور وقت کے حکمران ہمیشہ خوف زدہ رہتے ہیں۔ سو بلاشبہ یہ ایک مثبت پہلو ہے، اسی طرح بہت حد تک اب خبروں پر پردہ ڈالے رکھنا اور حقائق کو چھپانا عملاً ممکن نہیں رہا۔ اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہمارے آزاد میڈیا نے ہمارے سیاسی وسماجی مسائل کا کوئی مثبت اور قابلِ عمل حل پیش کرنے کے بجائے سنسنی خیزی پر زیادہ توجہ دی ہے، اس کا سبب غیرتعمیری مسابقت ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دلیل واستدلال پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے شور وغوغا بہت زیادہ ہے۔ معقولیت پر جارحانہ انداز کو ترجیح دی جاتی ہے، پہاڑی ندی نالوں جیسا شور زیادہ ہے، سمندر جیسا سکوت اور دلیل واستدلال کی سَطوت وشوکت کم ہے۔ اِس کا سبب ریٹنگ بتائی جاتی ہے جو بجائے خود ایک سربستہ رازہے، جس کی حقیقت سے میڈیا کی مارکیٹنگ کا شعبہ اور تشہیری ادارے ہی واقف ہوتے ہیں۔ اور اس میں بھی ذرہ بھر شک نہیں کہ آزاد میڈیا نے ہماری معاشرتی اور دینی اقدار کی پامالی کی صورت میں بھاری قیمت بھی وصول کی ہے۔
اس میں سے ایک رمضان المبارَک کی تقدیس کی پامالی ہے۔ رمضان المبارَک میں لوگ عام دنوں کے برعکس ذہنی اور فکری طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں، عبادات کا ذوق بڑھ جاتا ہے اور یہ رمضان المبارک کی برکات کا ایسا اعجاز ہے جو ہر کس وناکس کو صاف نظر آتا ہے۔ رمضان المبارَک کی فضیلت اور روزے کے احکام قرآن میں بیان کیے گئے ہیں اور احادیث کا ذخیرہ تو رمضان المبارک اور عبادتِ صوم کے فضائل سے معمور ہے۔ آپ ؐ کا ارشاد ہے: ’’جب رمضان داخل ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں رہتا اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا۔ سرکش شیطان جکڑ دیے جاتے ہیں اور ان کو زنجیریں پہنادی جاتی ہیں‘‘۔ الغرض مجموعی ماحول کو نیکیوں کے لیے سازگار بنادیا جاتا ہے اور گناہوں کے لیے ناسازگار۔ مگر میڈیا نے رمضان کی مارکیٹنگ شروع کردی، طرح طرح کے ٹائٹل سانگ، سلوگن اور رمضان کے نام پر لَہو ولَعَب اور تماشے سج گئے۔ انعام رمضان، مہمان رمضان، شان رمضان، ایمان رمضان اور نہ جانے کیا کیا عنوان ایجاد کیے گئے، ایک دل جلے نے کہا کہ بہتر ہے کہ سب ایک ہی ٹائٹل رکھ لیا جائے اور وہ ہے: ’’دکان رمضان‘‘، لیکن ٹائٹل میں کیا رکھا ہے، ’’دکان رمضان‘‘ ہی کا منظر تو ہر سو نظر آتا ہے اور اب ماشاء اللہ اداکارائیں بھی ماہِ رمضان میں جنت کا راستہ دکھانے کے لیے میدانِ عمل میں رونق افروز ہیں، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی قرآن مجید اور رمضان کی تقدیس سے کیا نسبت ہے؟۔
رمضان المبارَک کا مقدّس عنوان، مردوزن کا مخلوط اجتماع، بازاری ماحول، نہ نماز کی فکر بلکہ نماز سے دوری کا پورا اہتمام، اب صرف میلا ٹھیلا رہ گیا ہے، بیچ میں بس تھوڑا سا مذہب کا تڑکا اور چٹخارے کے لیے مذہب کی چٹنی ہے، باقی مارکیٹنگ ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے والے بھی کیا مارکیٹنگ کریں گے، جو رمضان کے پروگرام کرنے والے مایۂ ناز سیلز پرسن مذہب کا خوبصورت ٹائٹل لگا کر کرتے ہیں، ان کی مہارت لاجواب ہے اور اس کی قیمت بھی وہ خوب وصول کرتے ہیں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ ایک معروف ٹیلی ویژن چینل کے مارکیٹنگ کے شعبے میں رمضان کے سحر وافطار کے اشتہارات کے حصول کی بابت میٹنگ ہورہی تھی، تو بتایا گیا کہ لاہور کی اذان بِک گئی ہے، کراچی کی اذان کا سودا ابھی باقی ہے، اگر یہی کچھ کرنا ہے تو کم ازکم رمضان کے تقدس کو تو پامال نہ کیا جائے، کوئی اور عنوان بھی رکھا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (۱) ’’اور ان لوگوں کو چھوڑ دیجیے، جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا ہے اور جن کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور اس (قرآن) کے ساتھ ان کو نصیحت کرتے رہو، کہیں یہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہلاکت میں مبتلا نہ ہوجائیں، (الانعام: 70)‘‘۔ (۲) ’’جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا لیا تھا، تو آج کے دن ہم ان کو نظر انداز کردیں گے، جس طرح انہوں نے اِس دن کی ملاقات کو بھلا رکھاتھا اور وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے، (الاعراف: 51)‘‘۔
سو رمضان المبارک زبانِ حال سے فریادی ہے کہ اُس کی تقدیس وحُرمت کا دامن بقول علامہ اقبال ’’جفا پر وفا‘‘ کا دلکش لیبل لگا کر تار تار کیا جارہا ہے۔ بھانڈپن اور آوارگی کو مذہب اور رمضان کے پُرکشش غلاف میں لپیٹ کر دین کے حصہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ دین کے ساتھ ایک تقدیس واحترام کا تصور ذہن میںآتا ہے، اسے آرٹ بنا کر آرٹسٹوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور شوخی وطنّازی کی نذرکردیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جسے آرٹسٹ بننا ہے وہ تقدیس کا چولا اتار کر اپنے اصل رنگ میں آجائے، آرٹ کے شعبے لاتعداد اور رنگارنگ ہیں۔ جس نے بھانڈپن اور جُگت بازی کا شعبہ اختیار کرنا ہے، وہ اس رنگ میں آئے، لیکن دورنگی چھوڑ دے۔ کسی فقہی اصول یا ضرب المثَل کا سبب خاص ہوتا ہے، لیکن حکم عام ہوتا ہے، چنانچہ ساحر لدھیانوی نے کہا تو کسی اور تناظر میں تھا، لیکن ہمارے حسبِ حال ہے:
کہاں ہیں، کہاں ہیں، محافظ خودی کے
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں
اس شعر میں آپ تھوڑا سا تصرف کر کے مشرق کی جگہ مذہب لکھ لیں، تو پیغام سمجھ میں آجائے گا۔ سب سے بڑھ کر حیرت کا مقام یہ ہے کہ ہمارے وہ سرمایہ دار اور صنعت کار جو دین داری کی شہرت رکھتے ہیں، حج اور عمرے کا کبھی ناغہ نہیں کرتے، عام زندگی میں دینی مزاج کے حامل نظر آتے ہیں، وہ بھی چمک دمک، آب وتاب اور چکاچوند سے عاری خالص دینی آگہی کے حامل کسی پروگرام کو اسپانسر کرنے اور اپنے اشتہار سے نوازنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، بس نیم لباس عورت اور تشہیری شعبہ لازم وملزوم ہیں۔ یہ بھی دین کے حوالے سے ایسی ہی دورنگی اور منافقت ہے، جس کا منظر ہماری فلموں میں دکھایا جاتا تھا کہ ایک اداکار ایک لمحے چور اور ڈاکو کے روپ میں نظر آتاہے اور دوسرے لمحے وہ نماز کا مصلّٰی بچھائے تسبیح کا ورد کررہا ہوتا ہے۔ سائل پوچھتا ہے: یہ کیسا تضاد؟، وہ جواب دیتا ہے: ’’وہ میرا پیشہ ہے، یہ میرا مذہب ہے‘‘۔ الغرض پیغام یہ ہے کہ دین کے ساتھ سب کچھ چلتاہے اور چل سکتا ہے اور یہی سکۂ رائج الوقت ہے۔ یہ لوگ قرآنِ کریم کی اس آیۂ مبارکہ کی اپنے عمل سے تکذیب کر رہے ہوتے ہیں: ’’(اے رسول!) آپ کی طرف جو کتاب نازل کی گئی ہے، اُس کی تلاوت کیجیے اور نماز (باقاعدگی سے) قائم کیجیے، بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، (العنکبوت: 45)‘‘۔
دوسری جانب ہماری خالص مذہبی جماعتیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں اس شِعار سے بالکل لاتعلق ہیں، وہ ایک فرد کی غلطی پر تو آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں، لیکن دین کی اِس منظم بے حرمتی کے آگے سپرانداز ہیں۔ آخر میڈیا کی تو سب کو ضرورت ہے، یہی تو وہ پیکرِ ناز وانداز اور عَشوَہ طراز محبوب ہے، جس کی دلداری زاہد ورند سب کو عزیز ہے، ہر ایک کی پسندیدہ چیز یہ ہے کہ وہ ٹیلی ویژن چینل کی اسکرین پر نظر آئے، ایسے میں کوئی انہیں ناراض کرنے کا خطرہ کیسے مول لے سکتا ہے۔ دین کے حوالے سے اُن کی ترجیحات کافی بدل چکی ہیں، اُن کی ترجیحات کی فہرست میں خالص دین اور اس کے تقاضے بہت آخر میں آتے ہیں، حالانکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر مسئلے پر سڑکوں پر آکر احتجاج کیا جائے اور ریلیاں نکالی جائیں، میڈیا مالکان کے ساتھ ایک سنجیدہ نشست کا بھی اہتمام کیا جاسکتا ہے اور یہ کام اگر صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کرلیں تو ہم اُن کے لیے دعا گو رہیں گے۔
میں نے پانچ سال قبل قومی سیرت کانفرنس کے موقع پر صدر اسلامیہ جمہوریہ پاکستان ممنون حسین سے عاجزانہ اپیل کی تھی کہ سیرت النبی پر محض نظریاتی خطابات سے آگے بڑھ کر عملی میدان میں قدم رکھیں، اُن کے مقدر میں تو یہ سعادت نہیں تھی، اب ہم موجودہ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے یہ استدعا کر رہے ہیں۔ اسلام کے نام پر قائم اس وطنِ عزیز پاکستان میں اگرآپ کو دس بیس معتبر اور قابلِ احترام افراد نظرآتے ہوں تو اُن کے ساتھ میڈیا مالکان کی ایک طویل نشست کا اہتمام کریں۔ یہ اہلِ فکر ونظر باہمی اتفاقِ رائے سے ہماری دینی، اَخلاقی اور معاشرتی اَقدار کا ایک کم ازکم قابلِ عمل معیار وضع کریں اور پھر میڈیا مالکان اس پر رضاکارانہ طور پر عمل کریں اور اس پر نظر رکھنے کے لیے ایک مجلسِ نظارت (Vigilance Cell) قائم کریں، شاید اس سے پچیس تیس فی صد بہتری آجائے۔ لیکن یہ وہ بھاری پتھر ہے جس کو اٹھانے کے لیے کوئی بھی آمادہ نہیں ہے، ہر ایک کو اپنی عزت عزیز ہے اور ہر ایک اپنے لیے عافیت کا خواہاں ہے، ملک وملّت کی ترجیحات بعد میں آتی ہیں۔
اہلِ عزیمت اس دور میں ناپید ہیں، ایک صاحبِ نظر نے کہا تھا: ’’اہلِ رخصت تو یُسر، عدمِ حرج اور بشارتوں کی راحتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور اہلِ عزیمت رخصت پر چلے گئے ہیں‘‘۔ چنانچہ راوی ہر سو چین لکھتا ہے۔ جو بھولا بھٹکا عزیمت کی بات کرے وہ ازکارِ رفتہ ہے، Rigid ہے، یَبُوست زدہ ہے، دقیانوسی ہے، اپنے عصر کے تقاضوں سے بے خبر اور وقت کے لَمس سے ناآشنا ہے، غالب نے کہا تھا:
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو
جو مے ونغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں
بعض دوستوں سے شخصی طور پر باہمی احترام کا تعلق ہے اوروہ قائم رہے گا۔ یہ چند سطور میں نے دردِ دل کے طور پر لکھی ہیں: ’’روئے سخن کسی طرف ہو تو روسیاہ‘‘۔ گلشن کا کاروبار تو ہوا کے رخ پر ہی چلتا رہے گا، لیکن فُغانِ درویش سننے میں کیا حرج ہے، کسی کی بات کو کسی کے دل ودماغ میں جاگزیں کرنا اور عمل کے سانچے میں ڈھالنا اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت میں ہے:
بقیہ صفحہ 7 کالم 1 پر