میاں طفیل محمد سے امیر العظیم تک

466

 

 

ابتداء میں امیر جماعت اسلامی کے بعد سب سے اہم تنظیمی منصب کے لیے ’’قیم جماعت‘‘ کی اصطلاح کی ہوتی تھی‘ بانی ٔ جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے امیر جماعت کا منصب سنبھالا تو ’’قیم جماعت‘‘ کے لیے ان کی نظرِ انتخاب میاں طفیل محمد پر پڑی۔ میاں صاحب ان کے نہایت قابل اعتماد اور آزمودہ ساتھی تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سید مودودی کا دورِ امارت مخالفانہ پروپیگنڈے اور قید و بند کی آزمائشوں سے لبریز تھا حتیٰ کہ آپ کو ’’قادیانی مسئلہ‘‘ لکھنے کے ’’جرم‘‘ میں سزائے موت بھی سنائی گئی۔ ایسے میں میاں طفیل محمد ہی تھے جو چٹان کی طرح سید مودودی کے ساتھ کھڑے رہے اور بانی ٔ جماعت کے وقار پر کوئی حرف نہ آنے دیا۔ میاں صاحب نے بطور قیم جماعت، جماعت کے تنظیمی امور پر بھی بھرپور توجہ دی‘ ملک گیر دورے کیے‘ لوگوں سے ملاقاتیں اور بڑے پیمانے پر جماعت کے تعارف کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جماعت اسلامی نے ملک میں ’’مطالبہ نظامِ اسلامی‘‘ کی تحریک شروع کر رکھی تھی اور ایوانِ اقتدار میں بیٹھا ہوا نہایت طاقتور سیکولر طبقہ اس تحریک سے لرزہ براندام تھا۔ جب اس کا کچھ نہ بس چلا تو اس نے فوج کے سربراہ کو اکسا کر ملک میں مارشل لا نافذ کروا دیا۔ جنرل ایوب خان آئے تو انہوں نے سب سے پہلے جماعت اسلامی کو نفاذِ اسلام کے مطالبے سے دست بردار کرانے اور سیاست سے لاتعلق کرنے کے لیے خوشامد‘ ترغیب اور لالچ سے کام لیا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملاقات کرکے انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ آپ جیسا پاک باز اور فرشتہ سیرت انسان سیاست کی گندگی میں ہاتھ ڈال کر بلاوجہ اپنے آپ کو داغ دار کر رہا ہے۔ آپ ایک عالمِ دین اور اسکالر ہیں‘ آپ کا منصب تو یہ ہے کہ آپ سیاست سے کنارہ کش ہو کر اسلام پر تحقیقی کام کریں‘ ہم آپ کے لیے اسلامک ریسرچ یونیورسٹی بنا دیتے ہیں‘ آپ اس کی سربراہی سنبھالیں اور اپنا فرض بجا لائیں۔ سید مودودی نے تحمل سے ان کی بات سنی اور جو جواب دیا اس کا مفہوم یہ تھا کہ سیاست کی گند کو صاف کرنے کا کام بھی آخر کسی کو تو کرنا ہی پڑے گا کیوں نہ ہم یہ خدمت انجام دیں۔ رہی گندگی کے چھینٹے پڑنے کی بات تو اس کے لیے آپ فکر مند نہ ہوں۔ جنرل ایوب خان اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور دل میں سید مودودی اور جماعت اسلامی سے دشمنی گانٹھ لی۔ انہوں نے آخری وار جماعت اسلامی پر پابندی اور جماعت کی قیادت کو پابند سلاسل کرکے کیا۔ اس عرصے میں میاں صاحب کا کردار مثالی رہا۔
سید مودودی اپنی بیماری کے سبب امارت سے سبکدوش ہوئے تو ارکان جماعت نے امارت کی ذمے داری میاں طفیل محمد کو سونپ دی۔ انہوں نے قیم جماعت کے لیے ایک سینئر اور ہمہ وقتی کارکن چودھری رحمت الٰہی کا انتخاب کیا۔ چودھری صاحب فوج سے مستعفی ہو کر جماعت اسلامی میں شامل ہوئے تھے اور خود کو جماعت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ وہ مرکز جماعت میں خدمت انجام دے رہے تھے کہ امیر جماعت میاں طفیل محمد نے انہیں اپنا دست و بازو بنا لیا۔ پاکستان کی سیاست ابتدا ہی سے بحرانوں کا شکار رہی ہے۔ میاں صاحب کا دور امارت بھی سخت ابتلا و آزمائش سے عبارت تھا ایسے میں چودھری رحمت الٰہی نے قیم جماعت کی حیثیت سے اپنے فرائض نہایت مستعدی سے نبھائے اور قومی سطح پر جماعت اسلامی کی اہمیت کو منوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سانحۂ مشرقی پاکستان رونما ہو چکا تھا‘ باقی ماندہ پاکستان پر پیپلزپارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی جنہوں نے اپنے فسطائی طرز عمل کے ذریعے جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا تھا اور اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ انتہائی وحشیانہ سلوک کر رہے تھے۔ میاں طفیل محمد بھی جیل میں ان کے اسی سلوک کا نشانہ بنے۔ قدرت کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے لیکن جب ظالم پر پڑتی ہے تو اسے نشانۂ عبارت بنا دیتی ہے۔ بھٹو کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ فوج کے سربراہ جنرل ضیا الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور بعد میں ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے انہیں پھانسی پر لٹکا دیا۔ جنرل ضیا الحق نے اپوزیشن کو مطمئن کرنے کے لیے اسے اقتدار میں شریک کیا تو جماعت اسلامی کے حصے میں بھی تین وزارتیں آئیں۔ جماعت نے اپنے تین بہترین آدمی حکومت کو دیے۔ چودھری رحمت الٰہی بھی ان میں شامل تھے۔ وہ وزارتی ذمے داری سنبھالنے کے بعد قیم جماعت اسلامی کے منصب سے سبکدوش ہوگئے اور چودھری اسلم سلیمی صاحب کو عبوری طور پر یہ ذمے داری سنبھالنا پڑی۔ سلیمی صاحب بھی مرکز جماعت میں ہمہ و قتی کارکن کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے‘ تاہم میاں صاحب کو ایک انتہائی فعال اور متحرک شخصیت کی تلاش تھی جو قیم کی حیثیت سے ان کی ہم رکابی کرسکے۔ چناں چہ انہوں نے اس مقصد کے لیے صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کے انقلابی رہنما قاضی حسین احمد کا انتخاب کیا۔ اس وقت تک جماعت اسلامی کی وضع کردہ اصطلاحات بھی جدید ابلاغیات کی زد میں آچکی تھیں چناں چہ قیم جماعت کا منصب سیکرٹری جنرل کے عہدے میں بدل گیا اور قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے لگے۔
قاضی صاحب نے جماعت کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے بہت شہرت پائی۔ میاں طفیل محمد خرابیٔ صحت اور پیرانہ سالی کے سبب منصبِ صدارت سے رضا کارانہ طور پر سبکدوش ہوئے تو ارکان جماعت نے قاضی حسین احمد کو امارت کے لیے منتخب کرلیا۔ قاضی صاحب ہر پانچ سال بعد کئی بار ارکان جماعت کے اعتماد پر پورا اترے۔ انہوں نے اپنی معاونت کے لیے سید منور حسن کو جماعت کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا جو قاضی صاحب کے انقلابی وژن کو عملی جامہ پہنانے میں دل و جان سے منہمک رہے۔
قاضی حسین احمد نے بھی خرابیٔ صحت کی بنا پر امارت کی ذمے داری سے سبکدوشی اختیار کی تو سید منور حسن امیر جماعت منتخب کر لیے گئے انہوں نے مجلس شوریٰ کی مشاورت سے محترم لیاقت بلوچ کو سیکرٹری جنرل مقرر کیا۔ منور صاحب کا عہدِ امارت صرف ایک ٹرم پر مشتمل ہے۔ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں امارت کا بوجھ بارِ دگر نہیں اٹھانا پڑا۔ ان کے بعد محترم سراج الحق امیر جماعت منتخب ہوئے تو انہوں نے بھی لیاقت بلوچ کو سیکرٹری جنرل کے منصب پر برقرار رکھا۔ لیاقت بلوچ کا شمار بلاشبہ جماعت کے سینئر لیڈروں میں ہوتا ہے انہوں نے بطور سیکرٹری جنرل اپنے ذمے داری کو نہایت احسن طریقے سے نبھایا ہے لیکن دوسری بار امیر جماعت منتخب ہونے کے بعد محترم سراج الحق کی نظرِ انتخاب جناب امیر العظیم پر پڑی اور مجلسِ شوریٰ کی مشاورت سے سیکرٹری جنرل کے منصب کی ذمے داری ان کے سپرد کی گئی ہے۔
امیرالعظیم ازیں قبل جماعت کے متعدد تنظیمی عہدوں پر اپنی ذمے داری نبھا چکے ہیں۔ قاضی صاحب مرحوم اپنے دورِ امارت میں انہیں سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے مرکزی نظم میں لائے تھے۔ انہوں نے یہ ذمے داری بڑی خوبی سے نبھائی۔ امیرالعظیم ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی بڑی کامیابی سے چلا رہے ہیں جس سے چالیس افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ ان کا ادارہ اس شعبے میں پاکستان کے دس نمایاں اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ میڈیا سے ان کا بہت مضبوط رابطہ ہے اور میڈیا میں ان کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ امیر العظیم ملک کی سیاسی حرکیات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں‘ وہ کئی مرتبہ جماعت کے امیدوار کی حیثیت سے قومی انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں لیکن قومی یا صوبائی اسمبلی میں نہیں پہنچ سکے۔ امیرالعظیم بتاتے ہیں کہ وہ 1958ء میں اس وقت پیدا ہوئے جب ملک میں جنرل ایوب خان کا مارشل لا لگا ہوا تھا اس طرح وہ اب ساٹھ سال کے ہوچکے ہیں لیکن اردو میں ایک محاورہ ہے ’’ساٹھ پاٹھ‘‘ امیرالعظیم بھی اس پر پورا اترتے ہیں‘ وہ ساٹھے بھی ہیں اور پاٹھے بھی۔ قابل رشک صحت اور تاب و توانائی سے لبریز ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور مطالعے سے شغف رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی نئی ذمے داری کا حلف لیتے ہوئے جو خطاب کیا اس سے قرآن کریم کے ساتھ ان کی محبت اور سید مودودی کے وژن کے ساتھ ان کی لگن کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ میڈیا کے جدید دور میں جماعت اسلامی کے ابلاغ کی ذمے داریوں کو بہ خوبی سمجھتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو امیر جماعت محترم سراج الحق نے سیکرٹری جنرل کے حساس عہدے پر نہایت موزوں شخص کا انتخاب کیا ہے۔
امیر العظیم جہاں محترم لیاقت بلوچ کے جانشین ہیں وہیں وہ میاں طفیل محمد‘ چودھری رحمت الٰہی‘ اسلم سلیمی‘ قاضی حسین احمد اور سید منور حسن کی روشن روایات کے امین بھی ہیں۔ امید ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے لیے اثاثہ ثابت ہوں گے۔