نواز شریف کی جیل واپسی ، مزید مقدمات قائم کیے جانے کا امکان

294

کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) سپریم کورٹ کی جانب سے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں احتساب عدالت کی سزا پر دی گئی 6 ہفتوں کی ضمانت کی مدت ختم ہونے پر پیر کو سابق و نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کوٹ لکھپت جیل واپسں پہنچادیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے انہیں جلوس کی شکل میں لے جیل کے جانے کے لیے انتظامات بھی کیے گئے تھے۔ تاہم جیل پولیس انہیں جاتی عمرہ سے اپنے ساتھ لے گئی۔
نواز شریف کے ہمراہ ایک بڑا جلوس بھی تھا جس نے ملکی کی سیاست کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ پوری قوم نے یہ واقعہ بھی دیکھا کہ کرپشن کے مقدمے میں سزا یافتہ مجرم کو بھی محبتوں کے جذبات کے ساتھ جیل تک چھوڑا گیا۔ خیال رہے کہ اب تک صرف جیل سے باہر آنے پر لیڈروں کے استقبال کی تاریخ موجود تھی ، جیل سے رہائی پر سیاسی کارکن اپنے لیڈر کا استقبال کرنے کے لیے اس طرح کے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے تھے۔ تاہم اب ایک مجرم سیاسی لیڈر کو بھی جیل تک پہنچانے کے لیے ” یہ تماشا ” کیا گیا۔ نوازشریف کی صمانت کی مدت ختم ہونے پر جیل پہنچانے یا انہیں دوبارہ گرفتار کرنے کی ذمے داری جیل حکام کی ہے جبکہ قانونی طور پر یہ ذمے داری خود نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی بھی تھی کہ وہ مقررہ وقت تک مجرم نواز شریف کو بغیر کسی مزاحمت کے جیل پہنچاتے ۔ خیال رہے کہ مجرموں کے بہترین رویے پر جیل قوانین کے تحت سزا میں رعایت بھی دی جاتی ہے۔ لیکن نوازشریف کی جیل واپسی کے لیے نہ صرف تاخیر کی گئی بلکہ ایسے بھی حربے استعمال کیے گئے جس سے ان کی جیل واپسی کے لیے مزاحمت کا تاثرسامنے آیا ہے۔ جس پر میاں نواز شریف اور پارٹی رہنماؤں کے خلاف نیا مقدمہ بھی بن سکتا ہے۔ تاہم یہ حکومت کی صوابدید پر ہے کہ وہ کس طرح کی مزید کارروائی کرتی ہے۔ میاں نواز شریف کے جیل جانے کے موقع پر پیر کو لاہور میں جو کچھ مسلم لیگ نواز نے کیا وہ اگرچہ میاں نواز شریف کے جیل جانے کو بھی سیاسی عمل بنانے کی کوشش کی گئی تاہم مسلم لیگ نواز کی رہنما مریم نواز کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جلوس کا اہتمام کیا گیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کی رہنما اور وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان کا موقف تھا کہ نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مجرم ہیں ، مہذب معاشرے میں مجرموں کے لیے اس طرح کے جلوس کے اہتمام کرنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ میاں نواز شریف کو ان کی درخواست پر 6 ہفتوں کے لیے علاج کی غرض سے رہا کیا گیا تھا۔ تاہم اس دوران وہ صرف اپنے ٹیسٹ کراسکے علاج نہیں کراسکے تھے۔ کوٹ لکھپت جیل جانے کے لیے نواز شریف نے جیل حکام کے حوالے اپنے آپ کو نہیں کیا۔ یہ عمل بھی قانون اور جیل مینول کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ جیل قانون کے تحت مغرب سے قبل کسی مجرم کو جیل میں لایا جاسکتا ہے۔ چونکہ نواز شریف نے اپنے اس عمل کے دوران متعدد قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اس لیے قوی امکان ہے کہ ان کے خلاف اور مسلم لیگ ن کی دیگر قیادت کے خلاف مزید نئے مقدمات قائم ہونگے۔