پہلے ایک شعر :
ز خم پر زخم سہے پھر بھی دھڑکتا جائے
دل درویش تو کس دیس کا باشندہ ہے
دل درویش نہیں یہ اہل پاکستان ہیں۔ حکومتوںکے ہاتھوں زخم پر زخم کھائے چلے جارہے ہیں پھر بھی زندگی کا الزام اپنے سر لیے ہوئے۔ لوگ ملک میںاداروں کے مابین اشتراک کار اور اتحاد نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہیں۔ دیکھ لیجیے اتحاد کا نتیجہ۔ حکومت، آئی ایم ایف اور خلائی مخلوق کے اتحاد سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نو روپے تک کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ پٹرول 108روپے لیٹر۔ روزہ مومن کی اور پٹرول، بجلی، گیس اور اشیاء صرف کی قیمتوں میں اضافہ حکومت اور معیشت کے استحکام کی ڈھال ہے۔ اپنے ہی عوام پر ظلم یہی حکومت کا ایجنڈا ہے۔ لگتا ہے عوام نواز شریف اور زرداری کی رعایا ہیں اس لیے حکومت، فوج، عدلیہ اور تمام ادارے مل کر ان سے انتقام لے رہے ہیں۔ پہلے مہنگائی اس لیے تھی کہ حکمران کرپٹ اور چور تھے اب آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت سر ٹی فائڈ صادق اور امین حکمران ہیں پھر بھی مہنگائی اور اتنی مہنگائی!! آٹا 2سو روپے کلو اور پٹرول 5سو روپے لیٹر ہوجائے پھر بھی عمران خان کے سا تھ ہیں ایسا وہی لوگ کہہ سکتے ہیں جو اوپر کی کمائی سے فیض یاب ہیں ورنہ جائز آمدنی میں تو ایسی مہنگائی کا تصور بھی خون خشک کردینے کے مترادف ہے۔
ہم بچاتے رہ گئے دیمک سے گھر اپنا مگر
چند کیڑے کرسیوں کے ملک سارا کھا گئے
ریاست مدینہ کے حکمرانوں کی طرف سے اسٹیٹ بینک کا نیا ہدایت نامہ سامنے آیا ہے جس میں خبر دی گئی ہے کہ جمعہ کے وقت بریک ختم۔ جمعہ کو سید الایام قرار دیا گیا ہے۔ ہفتے کے تمام دنوں میں صرف جمعہ کے نام سے ہی قرآن کریم میں سورہ نازل ہوئی ہے۔ سورہ جمعہ کی آخری تین آیات میں نماز جمعہ کا با اہتمام ذکر کیا گیا ہے۔ ’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے یعنی نماز کی اذان ہوجائے تو اللہ کی یاد کے لیے جلدی کرواور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو‘‘۔ قرآن کا فرمان بجا لیکن حکمرانوں کی رائے کچھ اور ہے۔ حکمت، حکمت عملی اور اس کے تقاضوں کے نام پر ناخوب بتدریج خوب۔ ہر برائی آہستہ آہستہ عمل کے سانچوں میں ڈھلتی ہوئی۔ مثلاً… جمہوریت غیر اسلامی اور سرمایہ دارانہ سودی نظام کو اختیار کرنے کا ایک آلہ ہے لیکن کیا کیا جائے یہی دستور زمانہ ہے۔ حکمت کا تقاضا ہے کہ دنیا کے ساتھ چلا جائے اور جمہوریت اختیار کی جائے۔ آج کل وطن پرستی کا زمانہ ہے۔ ضروری ہے کہ زمین کے ٹکڑے کو ہر چیز پر مقدم سمجھا جائے۔ کیا دین کیا ایمان اور کیا ان کے تقاضے، بس ارض وطن دین اور ایمان۔ چاہے اسلام میں اس کو حرام اور شرک ہی سمجھا جائے۔ اسلام میں پردہ فرض ہے لیکن جاہل مولویوں کے کہنے میں آکر اس معاملے میں زیادہ rigid اور بے لچک ہونے کی ضرورت نہیں۔ موقع محل کی مناسبت سے پردے کے اہتمام اور عدم اہتمام کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح بینکنگ کے امور میں اگر رخنہ پڑنے کے سبب جمعہ کا وقفہ ختم کردیا گیا ہے تو اس معاملے میں بھی زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ یقینا کوئی مصلحت ہوگی۔ ریاست مدینہ ابھی تعمیر کے مرحلے میں ہے۔
اسٹیٹ بینک کے حوالے ہی سے ایک اور خبر۔ حکومت نے ایف بی آر کے چیئر مین جہاں زیب خان کو برطرف کردیا ہے اور گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ سے زبردستی استعفا لے لیا ہے۔ طارق باجوہ کی جگہ رضا باقر کو اسٹیٹ بینک کا نیا گورنر بنانے کی اطلاع ہے۔ رضا باقر کے بارے میں شنوائی یہ ہے کہ وہ مصر میں آئی ایم ایف کے نمائندے ہیں۔ آئی ایم ایف کے لیے رومانیہ مشن چیف اور قرض پالیسی شعبے کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ اس معاملہ پر بھی لوگ بہت چیں چیں پیں پیںکررہے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ آئی ایم ایف سے قریبی تعلق والے پاکستان میں بھی ذی اختیار ہوں گے تو اس سے کتنی آسانیاں پیدا ہوں گی۔ حفیظ شیخ اور رضا باقر کے ملاپ سے آئی ایم ایف کا قبضہ مکمل ہوگیا ہے تو اس پر بھی زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ پرانی کہاوت ہے خرچ خاوند کا نام بھائی کا۔ ہم اہل مشرق اس کے عادی ہیں۔ حفیظ شیخ اور رضا باقر اگر تنخواہ پاکستان سے لیں گے اور فائدہ آئی ایم ایف کا کریں گے تو اس میدان میں نہ وہ تنہا ہیں اور نہ پاکستان میں ایسا پہلی مرتبہ ہورہا ہے۔ اس کو مثبت انداز میں لیجیے۔ صدر اوباما کے دور میں امریکا میں ہم جنس پرستی کا بل منظور ہوا تو زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے نے کہا تھا ’’(بل اچھا ہے یا برا) یہ تو مجھے پتا نہیں لیکن میرا دل کرتا ہے کہ اوباما کو اپنے ساتھ شادی کے لیے پرپوز کرلوں‘‘۔ ہم کتنے خوش بخت ہیں کہ آئی ایم ایف نے بغیر پرپوزل ہی کے اپنے خاص بندے پاکستان کے عقد میں دے دیے۔
ایک بچے نے باپ سے کہا ’’پاپا آپ مجھے روزانہ اسکول کیوں چھوڑنے جاتے ہیں جب کہ دوسرے بچوں کی مما چھوڑنے آتی ہیں ؟‘‘۔ باپ نے جواب دیا ’’بیٹا اسی لیے تو۔۔ ‘‘ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی پریس بریفنگ پر بھی لوگوں کو اسی طرح کا اعتراض ہے کہ دنیا بھر میں حکومت، حکومتی وزرا اور وزارت اطلاعات پالیسی کے بچہ جمورے کے خدوخال بیان کرتی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ کام نہیں۔ وہ کیوں۔ اس طرح کے اعتراضات انسانی سرشت سے کم آگہی کی وجہ سے کیے جاتے ہیں۔ وہ جو پردے کے پیچھے پتلیوں کی ڈوریاں ہلاتے ہیں گاہے ان کا دل بھی کرتا ہے حاضرین کے روبرو آنے کا۔ پھر یہ بھی دیکھیے لا پتا افراد کے بارے میں جس دلسوزی سے میجر جنرل صاحب نے بیان دیا ہے کہ یہ ایک جنگی مجبوری ہے ایسی درد مندی، ہمدردی، جاں گدازی، غم خواری، خیر خواہی، دردانگیزی اور غم ناکی سے کون یہ اعتراف کر سکتا تھا۔
اللہ کی آخری کتاب نے یہود ونصاریٰ کو دوست بنانے سے منع کیا ہے۔ لاپتا افراد نے یقینا اس حکم الٰہی سے منہ پھیرا ہوگا۔ یہودیوں اور عیسائیوں سے میل ملاپ بڑھایا ہو گا۔ خود کو امریکا اور مغرب کی غلامی میں دیا ہوگا۔ پاکستان میں ان کے ایجنٹ کا کردار ادا کیا ہوگا۔ امریکا کو افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے راہداری مہیا کی ہو گی۔ ان ہی کی آشیرباد سے امریکی طیارے پاکستان کی سرزمین سے پرواز بھر کر افغانستان پر حملہ آور ہوتے ہوں گے۔ ان لاپتا افراد ہی نے اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کی خبر امریکا کو دی ہوگی۔ ان لا پتا افراد ہی نے ایبٹ آباد میں امریکی ہیلی کا پٹروں کی آمد کے موقع پر پاکستانی جنگجو طیاروںاور ریڈاروں کو نیند کی گو لیاں دے کر سلایا ہوگا۔ ان لاپتا افراد ہی نے یقینا عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کیا ہوگا۔ ان لا پتا افراد ہی نے پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو تمام سفارتی آداب کو روندتے ہوئے امریکا کے سپرد کیا ہوگا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے سوا کسی اور کا حکم نافذ نہیں ہوسکتا۔ ان الحکم الا للہ۔ حاکمیت سیاسی ہو یا معاشی، دفاعی ہو یا ثقافتی اور علمی ہر شعبہ حیات میں حکم صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ہوگا۔ ان لاپتا افراد نے یقینا ہر طاغوت، بغاوت، سرکشی، بداخلاقی اور بداعمالی کو ملک میں فروغ دیا ہوگا۔ ملک میں اللہ کے قوانین کو چھوڑ کر کفریہ قوانین کے نفاذ کی جدو جہد کی ہوگی۔ قرآن وسنت کے نفاذ کی مخالفت کی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مظلوموں کی مدد کرو۔ یقینا ان لاپتا افراد نے اس حکم الٰہی کے برعکس عمل کرتے ہوئے افغانستان میں امریکا اور کشمیر میں بھارت کی مدد کی ہوگی۔ اسی لیے ان اشخاص کے ناپاک وجود اور فکر وعمل سے پاک سر زمین کو صاف کرنے کے لیے انھیں لاپتا کیا گیا ورنہ افواج پاکستان اور ایسا گندہ کام!! چھی چھی