ٹرائیکا ہی ذمے دار ہے

220

3 مئی‘ یوم آزادی صحافت بھی ایک روایتی دن کی طرح گزر گیا‘ دو روز قبل یوم مئی بھی اسی طرح گزرا تھا‘ 1948 کو یونیورسل ہیومن رائٹس ڈیکلیریشن کے آرٹیکل19 میں اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت دی گئی اور اس سے ضابطہ اخلاق کے اندر رہ کر فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ دستور پاکستان میں آرٹیکل 19 میں اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے اظہار رائے کی آزادی پریس فریڈم ڈے کے ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1993 میں منظوری دی‘ یہاں پاکستان میں پریس فریڈم ڈے کے حوالے سے سرکاری سطح پر فروغ کے لیے ہمیں محترمہ بے نظیر بھٹو‘ ان کے بعد نواز شریف‘ بعد ازاں جنرل مشرف‘ میر ظفر اللہ جمالی‘ شوکت عزیز‘ یوسف رضا گیلانی‘ نواز شریف اور اب عمران خان کی حکومتوں کے اقدامات کا جائزہ لینا ہوگا‘ اور اگر اسے 1948 کے یونیورسل ہیومن رائٹس ڈیکلیریشن کے آرٹیکل19 کے ساتھ جوڑنا ہے تو پھر قائد ملت لیاقت علی خان سے جنرل ایوب خان اور ان کے بعد جنرل یحییٰ خان اور پھر ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے بعد جنرل ضیاء الحق اور محمد خان جونیجو حکومتوں کے دوران اٹھائے جانے والے اقدامات کا جائزہ لینا ہوگا۔
جنرل ایوب خان اکتوبر1958 میں آئے‘ آئین بنایا اور پھر اپنا ہی بنایا ہوا آئین منسوخ بھی کیا‘ پریس پر پابندیاں لگائیں‘ متعدد اخبارات کے ڈیکلیریشن منسوخ ہوئے‘ سینسر شپ بھی مسلط کیے رکھی‘ بھٹو جب ایوب خان کابینہ سے الگ ہوئے تو اخبارات میں ان کی خبر شائع نہیں ہونے دی جاتی تھی‘ اپوزیشن کی خبریں ردی کی ٹوکری کی نذر ہوجایا کرتی تھیں۔ 3 مئی کے حوالے سے نیشنل پریس کلب میں تقریب ہوئی‘ سیاست دانوں کی نمائندگی سینیٹر رضا ربانی‘ سینیٹر شیری رحمن‘ سینیٹر (ر) فرحت اللہ بابر اور سابق رکن قومی اسمبلی میاںاسلم نے کی‘ میڈیا کے نمائندوں کی حیثیت سے سعود ساحر‘ فوزیہ شاہد‘ پرویز شوکت‘ نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل قرار نے اظہار خیال کیا‘ نان جرنلسٹ میڈیا ورکز کی نمائندگی عتیق الرحمن نے کی‘ سیمینار میں دو اہم نکتے بیان ہوئے‘ ایڈیٹر کا ادارہ کہاں کھوگیا؟ جواب تو بہت سادہ سا ہے کہ کارپوریٹ کلچر خبارات کے ایڈیٹرز کھا گیا ہے‘ دوسرا نکتہ یہ کہ مزاحمتی صحافت باقی نہیں رہی‘ جس معاشرے میں پیرا شوٹرز اینکرز سیاسی جماعت تسلیم کر لیے جائیں اور صحافیوں کے ڈرائنگ روم حکومتیں بنانے اور گرانے کے منصوبوں کے گڑھ بن جائیں اس معاشرے میں مزاحمتی صحافت تلاش کرنا عجیب سی بات ہے بہر حال یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت گفتگو ہوسکتی ہے اور ہونی بھی چاہیے‘ تقریب میں خاص طور پر یہ بھی ذکر ہوا کہ اخبارات میں ایڈیٹر لاپتا ہوچکے ہیں‘ بس ایک سیٹ پیٹرن ہے کہ کون سی خبر کتنے کالم شائع ہوگی‘ اس خبر کی صحت کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا‘ اگر خبر مالکان کے مزاج اور کاروباری مفادات کے منافی ہے تو یہ خبرشائع نہیں ہوگی دوسری صورت میں میرٹ وہی ہے کہ یہ خبر ادارے کے مالی مفادات کا کس قدر تحفظ کرتی ہے حکومت، میڈیا مالکان اور پیشہ ور ’’صحافی رہنمائوں‘‘ کی ٹرائیکا نے صحافت کو یرغمال بنا رکھا ہے مزاحمتی صحافت کی تلاش اس معاشرے میں کیسے ممکن ہے جس میں صحافیوں سات آٹھ تنظیمیں ہوں‘ اور ہر تنظیم میں سو سے تین ہزار ارکان ہوں‘ اسلام آباد میں تو کم از کم ایسا ہی ہے اسلام آباد میں ہر ایک تنظیم نے الگ الگ پروگرام کیا‘ کسی نے چھوٹا کسی بڑا‘ اور ہر پروگرام میں برطرف اور شہید ہوجانے والے صحافیوں کی تعداد الگ الگ بتائی گئی‘ گویا کسی کے پاس کوئی مکمل معلومات نہیں‘ یا پھر یوں کہہ لیں کہ کم از کم ان امور پر بھی اتفاق نہیں۔
پریس فریڈم کے لیے بلائی گئی اس مجلس میں میڈیا کے نمائندوں اور سیاسی رہنمائوں نے اپنا اپنا کیس پیش کیا‘ شیری رحمن نے سیاسی جماعتوں میں پیپلزپارٹی کو کریڈٹ دیا اور کہا کہ وہ اسی لیے سیاسی جدوجہد میں پیپلزپارٹی میں شامل ہوئی ہیں‘ میڈیا کے نمائندوں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں اخبار نویسوں کو کوڑے مارنے کے واقعہ کو برے الفاظ میں یاد کیا‘ میڈیا کی آزادی کے حوالے سے ملک میں جمہوری اور غیر جمہوری حکومتیں‘ سب ایک جیسی رہی ہیں‘ بھٹو دور میں بھی وہی ہوتا رہا‘ جو ایوب خان دو میں ہوا‘ ضیاء الحق دور میں بھی یہی ہوتا رہا‘ بھٹو دور میں جسارت کے ایڈیٹر محمد صلاح الدین‘ مجیب الرحمن شامی اور دیگر گرفتار بھی ہوئے‘ دوسرے اخبارات کی طرح سینسر شپ کا بھی سامنا کرتے رہے‘ ضیاء الحق دور میں کوڑے مارے گئے تو بے نظیر بھٹو دور میں نوکریوں سے برطرفی کی سفارش کی گئی‘ نواز شریف دور میں بھی یہی دہرایا جاتا رہا‘ شوکت عزیز تو میٹھی چھری تھے‘ ماضی کے ادوار بھی گزر گئے‘ اور آج کا وقت بھی گزر ہی جانا ہے‘ لیکن جو حال آج ہے شاید ماضی میں کبھی ایسا نہیں رہا‘ یہ گلا بھی گھونٹ رہے ہیں اور چیخنے بھی نہیں دے رہے‘ پھر بھی تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہ پریس فریڈم پر یقین رکھتی ہے۔
قلم کے مزدروں پر تیشہ چل رہا ہے اور (قلم فروشوں کو ساتھ ملایا ہوا ہے اس بار تو یہ بھی ہوا کہ پریس فریڈم پر اخبار نویس مشترکہ سرگرمی کیا کرتے تھے لیکن اس بار الگ الگ دکان سجائی گئی ٹریڈ یونین کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ’’وہ یہی سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری‘‘ والی بات ہے پی ایف یو جے کے سابق صدر منہاج برنا کا بہت ذکر ہوتا رہا‘ 70ء کی ہڑتال کے نتائج کا بھی جائزہ لیا گیا منہاج برنا چیئرمین اور حفیظ راقب (مرحوم) جنرل سیکرٹری تھے۔ 1973ء میں شبانہ روز محنت کے بعد نیوز پیپرز ایمپلائز کنڈیشنز اینڈ سروسز ایکٹ1973ء منظور کروایا‘ ویج ایوارڈ آئے، بلکہ بڑی حد تک عملاً نافذ بھی ہوئے۔ 1970ء کے بعد1974ء اور1977ء میں بڑی تحریکیں بھی چلیں۔ مظاہرے، دھرنے اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی بھی ہوئی آج پی ایف یو جے پر کتنا برا وقت آ گیا ہے کہ اس ایک تنظیم کے کئی دھڑے بن گئے ہیں اور جس کا جی چاہا اُس نے خود ساختہ انتخابات یا انتظام کے ذریعے اپنی انجمن خود سجا لی انہی دھڑوں کی یو جے بن گئیں اور اتحاد پارہ پارہ ہو گیا۔ صنعت اور صحافتی مراکز کے کارکنوں پر بھی برا وقت آ ہی گیا اور حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی صنعت میں بھونچال آیا اور بے روگاری کا تھوک بازار لگ گیا، مہنگائی بڑھ گئی، لیکن ان اداروں میں تنخواہوں میں اضافے کی جگہ تنخواہوں میں کمی کر دی گئی اور ملازمت برطرفی سے بچ جانے والے اراکین کے بچوں کے لیے پریشانی میں مزید اضافہ کر دیا گیا صورت حال یہ ہے صحافت بد ترین صورت ِ حال سے دوچار ہے۔ اس پیشہ سے وابستہ کارکن صحافی گزشتہ ستر سال کے عرصہ میں پہلی مرتبہ مظلوم، مقہور اور محروم طبقات میں شامل ہو چکے ہیں بہت بڑی تعداد میں صحافی کارکن اس وقت بیروز گاری کا بدترین عذاب سہہ رہے ہیں۔ دوسروں کے حقوق کی بات کرنے والے اس طبقے کو حکومت، میڈیا مالکان اور ’’پیشہ وروں‘‘ کے غیر علانیہ اتحاد حقیقی صحافیوں کو عسرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر رہا ہے اتحاد ِ ثلاثہ ہی کارکن صحافیوں کو ان کے جائز اور قانونی حق کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ہے۔