یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کو ’’خلائی مخلوق‘‘ قرار دے رہے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر سپریم کورٹ نواز شریف کو ’’گاڈ فادر‘‘ اور ’’سسلین مافیا‘‘ کہہ کر پکار رہی تھی۔ عمران خان شریف اور زرداریوں کو ’’چور‘‘ اور ’’ڈاکو‘‘ قرار دے رہے تھے اور عمران خان کے سیاسی حریف انہیں ’’طالبان خان‘‘ کہہ کر مخاطب کررہے تھے اور انہیں عمران کے حوالے سے بار بار سیتا وائٹ یاد آرہی تھی۔ اس منظرنامے میں انتشار ہی انتشار تھا۔ مگر اچانک ان تمام لوگوں میں ’’کامل اتفاق رائے‘‘ پیدا ہوگیا۔ اس اتفاق رائے کی بنیاد ملعونہ آسیہ تھی۔ وہی آسیہ جس نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا تھا۔ وہی آسیہ جسے ماتحت عدالت ہی سے نہیں لاہور ہائی کورٹ سے بھی سزائے موت سنائی گئی تھی۔ مگر اس آسیہ کے سلسلے میں یورپی یونین نے واضح کردیا تھا کہ اگر آسیہ کو توہین رسالت کے الزام میں پھانسی دی گئی تو یورپی یونین کے لیے پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات ’’ٹیکس فری‘‘ نہیں رہیں گی۔ بلکہ ان پر ٹیکس عاید کردیا جائے گا اور پاکستان کو کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے۔ چناں چہ پاکستان کے حکمران طبقے نے رسول اکرمؐ کی حرمت کو بیچ کھایا۔ اس حوالے سے اسٹیبلشمنٹ، عدالت عظمیٰ، عمران خان، میاں نواز شریف، آصف زرداری، پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور نواز لیگ بس ایک ہی صفحے پر کھڑے نظر آئے۔ بلاشبہ پاکستان کے حکمران اپنی قوم کے لیے شیر اور مغرب کے لیے بھیگی بلی ہیں۔ امریکا کیا یورپی یونین سے بھی دھمکی آجائے تو پاکستان کے حکمران تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔
یادش بخیر پھر پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے قومی اسمبلی میں شراب پر پابندی کے حوالے سے بل پیش کردیا۔ قوم یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ جس طرح پیپلز پارٹی شراب پر پابندی کے خلاف اسی طرح نواز لیف بھی چاہتی ہے کہ پاکستان کے لوگ شراب پیتے رہیں۔ یہاں تک کے ریاست مدینہ کی علمبردار پی ٹی آئی بھی شراب پر پابندی کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی تائید کرتی نظر آئی۔ نتیجہ یہ کہ شراب پر پابندی کے حوالے سے قومی اسمبلی میں ووٹنگ کی نوبت ہی نہ آسکی۔
چند روز پیشتر تاریخ نے ایک بار پھر خود کو دہرایا۔ سینیٹ میں 18 سال سے کم عمر میں شادی پر پابندی کا بل آیا تو نواز لیگ اور پیپلز پارٹی ہم آواز ہوگئے۔ چناں چہ 18 سال سے کم عمر میں شادی پر پابندی کا بل منظور ہوگیا۔ پی ٹی آئی نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ صرف جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے بل کی مخالفت کی۔ البتہ بعدازاں معلوم ہوا کہ پی ٹی آئی میں بھی اس حوالے سے دو رائے موجود ہیں۔ کچھ لوگ بل کی حمایت کرنا چاہتے ہیں البتہ کچھ لوگ بل کے مخالف ہیں۔ پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے صاف کہا کہ اگر قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی ہوئی تو وزارت کیا وہ قومی اسمبلی کی نشست سے بھی مستعفی ہوسکتے ہیں۔ البتہ میاں نواز شریف کے نفس ناطقہ مشاہد اللہ نے کھل کر کہا کہ چودہ سو سال پہلے حالات مختلف تھے۔ چودہ سو سال پہلے جب یہ قوانین بنے تھے تو اس وقت بلوغت ایسا مسئلہ نہیں تھی۔ یہ مشاہد اللہ کی رائے نہیں ہے یہ نواز لیگ کا اصل باطن ہے۔ جسارت کے اداریے میں مشاہد اللہ کے خیالات پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ ہمیں جسارت کے اداریہ نویس کی حیرت پر حیرت ہے۔ اس لیے کہ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میاں نواز شریف نے حلف نامے میں تبدیلی کے ذریعے ختم نبوت کے تصور پر بھرپور حملہ کیا تھا۔ اس سے قبل میاں نواز شریف کے دور میں اقوام متحدہ کی جانب سے یہ تجویز آئی تھی کہ حکومت پاکستان ملک میں زنا بالرضا کو قانونی تحفظ مہیا کرے۔ اس تجویز پر میاں صاحب کے دور میں Noted لکھا گیا۔ یعنی فرمایا گیا کہ اس تجویز پر غور کیا جائے گا۔ اب میاں شریف کے دوست اور نواز لیگ کے رہنما مشاہد اللہ نے اسلام کے قوانین کو چودہ سو سال پرانا قرار دے دیا ہے۔ ہمیں کفر کے فتوے بانٹنے سے کوئی دلچسپی نہیں مگر اصول ہے کہ قرآن کے ایک جزو کا انکار پورے قرآن کا انکار ہے۔ چناں چہ جس طرح پورے قرآن کا انکار کفر ہے اسی طرح قرآن کے ایک جزو کا انکار بھی کفر ہے۔ مگر میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کے لیے سب کچھ ’’جائز‘‘ ہے۔ سب کچھ ’’روا‘‘ ہے اس لیے کہ میاں نواز شریف اور ان کی جماعت عوام میں مقبول ہیں۔ جو سیاست دان اور جماعت عوام میں مقبول ہو اسے خدا یا رسولؐ سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے یہ مسئلہ نیا بھی نہیں ہے۔ مولانا مودودی نے ایک تقریر میں فرمایا ہے کہ جب قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں حدود اللہ کے نفاذ کا مطالبہ کیا گیا تو مسلم لیگی یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ اگر حدود کا نفاذ کیا گیا تو پاکستان کے 95 فی صد لوگوں کے ہاتھ کاٹنے پڑیں گے۔ مولانا کے بقول اس اعلان کے ذریعے مسلم لیگی کہہ رہے تھے کہ دراصل پاکستان کے 95 فی صد لوگ چور ہیں۔ مولانا نے اپنی تقریر میں یہ بھی فرمایا ہے کہ مسلم لیگی اسلام سے مخلص ہوتے توقرار داد مقاصد 1947ء ہی میں منظور ہوجاتی، مگر قرار دادِ مقاصد علما اور مذہبی جماعتوں کے اصرار پر 1949ء میں منظور ہوئی۔ مولانا کے بقول اس قرار داد کی منظوری کا مقصد اسلام کے حوالے سے لوگوں کا منہ بند کرنا تھا۔ لوگ مسلم لیگیوں کو مسلسل یاد دلارہے تھے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے۔ چناں چہ اسے اسلامی بنائو، چوں کہ مسلم لیگی اس مطالبے کی تاب نہیں لا پارہے تھے اس لیے انہوں نے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے قرار داد مقاصد منظور کرالی۔ مگر ان کے دل میں یہ بات تھی کہ وہ کبھی بھی قرار دادِ مقاصد کو موثر نہ ہونے دیں گے۔
بدقسمتی سے یہی کہانی 1973ء کے آئین کے حوالے سے بھی سامنے آئی۔ 1973ء کا آئین اپنے بنیادی کردار میں اسلامی ہے اس لیے کہ یہ آئین کہتا ہے کہ پاکستان میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون منظور نہیں ہوسکتا۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے 1973ء کے آئین کے تشخص کو اس لیے مذہبی ہونے دیا کہ قوم آئین کے ساتھ اسلامی لکھا دیکھ کر خوش اور مطمئن ہو جائے۔ لیکن پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے کبھی بھی 1973ء کے آئین کو موثر نہیں ہونے دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملک کا آئین اسلامی ہے مگر ملک کی معیشت، سیاست، ملک کا عدالتی نظم اور ملک کا تعلیمی نظام غیر اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر اسد اللہ بھٹو نے اسی لیے بجا طور پر یہ بات کہی ہے کہ 18 سال سے کم عمر کی شادی کے خلاف قانون سازی کی کوشش آئین کی روح کے منافی ہے۔
پاکستان کی بدقسمتی دیکھیے کہ یہاں حکمران ہمیشہ امریکی مقاصد و مفادات کے مطابق مہیا ہوجاتے ہیں۔ 1978ء میں سوویت یونین افغانستان میں در آیا اور افغانستان میں جہاد برپا ہوا مگر اس سے پہلے 1977ء میں جنرل ضیا الحق پاکستان میں برسراقتدار آچکے تھے۔ اگر اس وقت ملک میں کوئی سیکولر شخص برسراقتدار ہوتا تو امریکا کو بڑی مشکل ہوجاتی۔ نائن الیون کے بعد پاکستان میں امریکا کو ایک سیکولر اور لبرل شخص کی ضرورت تھی اور جنرل پرویز مشرف نائن الیون سے کچھ پہلے اقتدار میں آچکے تھے۔ اس موقع پر اگر کوئی مذہبی شخص پاکستان کا حکمران ہوتا تو امریکیوں کے لیے بڑی دشواریاں پیدا ہوجاتیں۔ اس وقت امریکا اور یورپ پاکستان کو سیکولرائز کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لارہے ہیں اور پاکستان کا حکمران طبقہ اس سلسلے میں امریکا اور یورپ کے ساتھ مکمل تعاون کررہا ہے۔ اتفاق سے اس وقت ملک پر عمران خان کی حکومت ہے جو پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر استوار کرنا چاہ رہے ہیں۔ ان کا یہ نعرہ ملک کو سیکولر اور لبرل بنانے کے سلسلے میں ایک بہترین پردے کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ اور بڑی سیاسی جماعتیں اسلام دشمن کیوں ہیں؟۔
نواز لیگ کے رہنما مشاہد اللہ نے اس حوالے سے ایک اہم بات کہی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ کم عمر کی شادی سے متعلق اسلامی قوانین چودہ سو سال پرانے ہیں۔ یہ مشاہد اللہ کی ذاتی، شخصی یا اجتماعی رائے نہیں ہے۔ مذہب کے سلسلے میں یہ مغرب کا بہت پرانا بیانیہ ہے۔ مغرب کے ممتاز دانش ور جیمس فریزا نے انسانی تاریخ کو چار ادوار میں منقسم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانیت کا ابتدائی دور جادو کا زمانہ تھا۔ یعنی جادو کی روایت انسانیت کی زندگی کو Define کرنے والی سب سے اہم چیز تھی۔ انسانیت کچھ ’’بالغ‘‘ ہوئی تو اس نے معاذ اللہ خدا اور مذہب ’’ایجاد‘‘ کرلیا۔ انسان کے فہم میں مزید پختگی پیدا ہوئی تو اس نے فلسفے کا زمانہ خلق کیا۔ مگر انسانیت کا ’’ارتقا‘‘ جاری رہا۔ چناں چہ انسان فلسفے کے زمانے کا بھی اسیر نہ رہا اور اس نے سائنسی عہد خلق کر ڈالا۔ سائنسی عہد انسانیت کی معراج ہے، اس لیے کہ سائنسی علم مغرب کے نزدیک سب سے کامل یا Perfect علم ہے۔ اس تناظر میں انسانیت کی تاریخ کو دیکھا جائے تو مذہب ’’ہزاروں سال پرانی چیز‘‘ نظر آتا ہے۔ بیچارے مشاہد اللہ یا ان کی نواز لیگ کا علم وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں، چناں چہ انہوں نے مغرب کے کسی فلسفی یا دانش ور کو پڑھ کر اسلام کو ’’پرانا‘‘ نہیں کہا ہوگا بلکہ انہوں نے کسی سے سن لیا ہوگا کہ جدید مغرب مذہب کو ’’پرانا‘‘ سمجھتا ہے۔ بہرحال قصہ یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ اسلام کا باغی اور اس کا غدار ہے اور اس نے اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کو ’’مذاق‘‘ بنایا ہوا ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان میں اسلام کے والی وارث موجود تھے، چناں چہ بھٹو جیسا سیکولر شخص قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیتا تھا۔ شراب پر پابندی لگاتا تھا، جمعہ کی تعطیل بحال کرتا تھا مگر شاید اب حکمرانوں کے ذہن پر اسلام کے کسی والی وارث کا کوئی خوف نہیں۔