کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی !

613

 

 

پاکستان کی سیاسی صورتحال کو دیکھ کر کوئی بھی یہاں جمہوریت کے مستقبل پر سوال اٹھا سکتا ہے۔ لیکن فی الحال ایسا لگ رہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کا مستقبل تاریک ہوگیا ہے۔ اسی خدشے کے باعث دونوں پارٹیوں کے اندر آئندہ کی حکمت عملی کے لیے سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ 1971 سے اب تک باری باری اقتدار میں آنے والی یہ جماعتیں اپنے طے شدہ مورثی سیاست کے ہدف کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنا چاہتی ہیں یہی ان دونوں پارٹیوں کی سب سے بڑی مشکل ہے اور مقصد بھی۔ مسلم لیگ نواز کے بانی و قائد میاں نواز شریف کو عدالت عظمیٰ نے کسی بھی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا ہوا ہے جبکہ وہ اب مجرم بھی بن چکے ہیں۔ ساتھ ہی دل کا مرض اور دیگر بیماریوں کے دعووں سے نواز شریف کا سیاسی مستقبل مزید غیر یقینی ہوچکا ہے۔ اسی طرح منی لانڈرنگ اور جعلی یا بے نامی اکاؤنٹس کے مقدمات نے آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور پارٹی کے دیگر رہنمائوں و آصف زرداری کے قریبی دوستوں کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ وہ کسی بھی وقت جیل جاسکتے ہیں۔ ان مقدمات کے عدالتی فیصلوں سے ان افراد کے سیاسی مستقبل کا تعین ہوسکے گا۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ عدالت کے فیصلوں تک خود آصف زرداری اور ان کے ساتھی اپنے مستقبل کے حوالے سے کچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ مگر صورتحال اس لیے زیادہ تشویش ناک ہے کہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے رہنما جن پر کرپشن کے الزامات ہیں وہ دھڑلے سے اپنے آپ کو ’’پارسا‘‘ ظاہر کرنے کے لیے عوامی قوت کا
اظہار کرنے لگے ہیں۔ آصف زرداری، بلاول، نواز شریف اور شہباز شریف کرپشن کے مقدمات میں پیشی کے لیے عدالت اور نیب کے دفتر جانے کے لیے کارکنوں کا جلوس لے جانے کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں۔ مجرم نواز شریف تو عدالت کے حکم سے علاج کے لیے چھ ہفتوں کی ضمانت کی مدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ جیل جاتے ہوئے ایک ہجوم بھی اپنے ساتھ لے گئے جو انہیں جیل تک چھوڑ کر آیا۔ کسی سیاسی لیڈر کو جیل تک چھوڑنے کے لیے اس طرح کے اظہار یکجہتی کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ گو کہ یہ ایک مجرم کے ساتھ اظہار یکجہتی تھا۔ ایسا کرکے پوری قوم کو کرپٹ عناصر کا حامی ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ رہی بات دیگر سیاسی پارٹیوں اور ان کے رہنمائوں کی جو جمہوریت اور آمریت کا بخوشی حصہ بنتی رہی ہیں کا ذکر یہاں فضول ہے۔ کیوںکہ یہ جماعتیں کوئی بھی اور کسی کی بھی حکومت ہو اس میں شامل ہونے کے لیے ہر دم تیار رہتی ہیں۔ یہی ان جماعتوں کا نظریہ سیاست ہے۔
لیکن مجھے یقین ہے کہ اللہ کے حکم سے ملک میں مثبت تبدیلیوں کی شروعات ہوچکی ہیں۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے اس لیے ہماری قوم کو بھی کچھ عرصے کے لیے مہنگائی کے کڑوے گھونٹ پینے ہوںگے۔ چوںکہ دیگر سیاسی جماعتیں اپنے غیر یقینی مستقبل کے باوجود مورثی سیاست کے دائرے سے باہر نکلنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ صرف اپنے خاندانوں کی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے سیاست کا حصہ بنی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعتیں سخت احتساب کی مخالف ہیں۔ ان جماعتوں کی حکومتوں نے اپنے ہر دور میں بلا امتیاز لیکن صرف اپنے ذاتی تعلقات کی یا مفاد کی بناء پر کرپشن اور کریمنلز کے خلاف سخت کارروائی کرنے سے گریز کیا۔ جس کی وجہ سے ملک وسائل میں اضافے کے بجائے کرپٹ عناصر کی تخلیق میں آگے بڑھ چکا ہے۔
دنیا کے کسی ملک میں کرپشن اور ترقی ایک ساتھ نہیں چل سکتی اور کرپٹ عناصر کی موجودگی تک کسی ملک کی معیشت بہتر نہیں ہوسکتی۔ مگر ہمارے کرپٹ عناصر نے ملک کی معیشت کو کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنے والے ادارے سے جوڑ کر اس کی موجودگی کو ہی خطرناک قرار دے دیا۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو آج سنگاپور میں کرپشن سے پاک ملک نہیں کہلاتا اور کوریا پاکستان کے قیام کے بعد تشکیل پانے کے باوجود چند سال میں ترقی پاکر اپنے وسائل میں خود کفیل قرار نہیں دیا جاتا۔ دنیا کے بیش تر ممالک میں کرپشن کو قتل اور زنا سے زیادہ سنگین جرم اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ وہاں حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ کرپشن اور کرپٹ افراد کی موجودگی ہر معاملے میں بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے ملک کا یہ حال ہے کہ ہم مذاق میں بھی اپنے کسی سابق خصوصاً جمہوری حکمران کو بھی ’’کرپشن سے پاک‘‘ نہیں کہہ سکتے۔
ملک میں کرپٹ سیاسی عناصر جب تک سدھر یا ختم نہیں ہوجاتے اس وقت تک ملک کسی بھی شعبے میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت ملک و قوم سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے سیاست کررہی ہے۔ ان سیاستدانوں یا اراکین پارلیمنٹ کا ملک اور قوم سے پرخلوص ہونے کا اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی تنخواہیں اور مراعات کم ازکم 50 فی صد کم کردی جائیں۔ قوم کو تحریک انصاف کی حکومت سے یہ خوش فہمی بھی ہے کہ وہ مہنگائی کا بوجھ عوام پر ڈالنے کے بجائے اراکین پارلیمنٹ پر ڈالنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرے گی۔ ایسے کسی فیصلے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلانا پڑے تب بھی کوئی نقصان نہیں لیکن مقصد کی تکمیل یقینی ہونی چاہیے۔ ورنہ اس ملک میں کرپٹ عناصر کو جیلوں سے علاج کے لیے رہائی کے بعد انہیں واپس جیل پہنچانے کے لیے بھی شادیانے بجائے جائیں گے اور بلا جھجک یہ کہا جانے لگے گا کہ ہم کرپٹ عناصر کے ساتھ ’’اظہار یکجہتی‘‘ کرتے ہیں اور کررہے ہیں۔ جب ایسا ہونے لگے تو یقین کرلینا چاہیے کہ کرپٹ سیاستدان اپنے ذاتی مفاد کے لیے قوم کو کرپشن کے سمندر میں ڈوبانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ جس کا نتیجہ ملک و قوم کی تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اس لیے ایسے سیاستدانوں اور دیگر کرپٹ عناصر کے مقدمات کے لیے سرسری سماعت کی خصوصی عدالتوں کا قیام ناگزیر ہے۔