نظریاتی اور علمی اعتبار سے دیکھا جائے تو آسمان نے سابق کمیونسٹوں سے زیادہ بے حیا مخلوق آج تک نہیں دیکھی۔ اس مخلوق کی بے حیائی یہ ہے کہ جب تک کمیونزم یا سوشلزم کا سورج چڑھا ہوا تھا اور کمیونزم ایک عالمگیر نظام کی حیثیت رکھتا تھا اس وقت کمیونسٹوں کی کمیونزم میں چیونٹی کے برابر بھی عیب نظر نہیں آتا تھا مگر جیسے ہی کمیونزم ختم اور اس کا کعبہ سوویت یونین تحلیل ہوا کمیونسٹوں کو کمیونزم میں عیب ہی عیب نظر آنے لگے اور انہوں نے کمیونسٹ کیمپ کے ساتھ اپنی وفا داری ترک کرکے کمیونزم کے دشمن امریکی کیمپ میں شمولیت اختیار کرلی۔ ہزاروں سابق کمیونسٹ امریکا اور یورپ کی این جی اوز میں جاگھسے۔ ان کے امریکی کیمپ میں جانے کی ایک وجہ ان کی اسلام دشمنی بھی ہے۔ ان کو لگا کہ اب امریکا اسلام دشمن بن کر اُبھر رہا ہے تو اس کے گلے میں بانہیں ڈال دو۔ ایک سابق کمیونسٹ ہیں وجاہت مسعود۔ روزنامہ جنگ میں کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصے پہلے اپنے ایک کالم میں فرمایا کہ جدید دنیا آزادی اظہار اور آزاد منڈی کی معیشت کی دنیا ہے چوں کہ کمیونزم میں یہ دونوں خوبیاں موجود نہ تھیں اس لیے وہ ختم ہو گیا۔ ہم نے اس کے جواب میں لکھا کہ آپ کو پہلے تو کمیونزم میں یہ عیب نظر نہ آئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ نہ کمیونزم کے ساتھ تھے نہ اب آپ آزاد مغرب کے ساتھ ہیں۔ آپ اصل میں صرف طاقت اور کامیابی کے ساتھ ہیں۔ کل کمیونزم طاقتور اور کامیاب تھا تو آپ اس کے ساتھ تھے۔ آج امریکا طاقتور اور کامیاب ہے تو آپ اس کے ساتھ ہیں، کل مغرب کی سرمایہ داری، جمہوریت اور آزادی پٹے گی تو آپ کہیں گے کہ ہم تو کبھی مغرب کے پرستار نہ تھے۔ یہ ہے سابق کمیونسٹوں کی نظریاتی اور علمی بے حیائی۔
ہم اس بے حیائی کو بھولے ہوئے تھے مگر سابق کمیونسٹ زاہدہ حنا کے کالم نے ہمیں پھر اس کی یاد دلا دی۔ زاہدہ حنا نے اپنے کالم میں آنجہانی کمیونسٹ دانش ور سبط حسن کا خاص طور پر ذکر کیا ہے اور ان کے حوالے سے ایسی باتیں کہی ہیں کہ آدمی حیران رہ جائے۔ مثلاً زاہدہ حنا سبط حسن کے حوالے سے لکھتی ہیں۔
’’وہ اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ہم اپنی تہذیبی روایات سے پہلوتہی نہ کریں، ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ جدید و قدیم اور مشرق و مغرب کی آمیزش سے ایک نئی دنیا تخلیق کریں جو زیادہ جمہوری، انسان دوست، رنگارنگ اور حسین ہو۔ پاکستان کو وہ ایک روادار، روشن خیال اور کثیر المشرب سماج کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس۔ 28 اپریل 2019ء)
خدا کی پناہ یہ چھ سطرں کا اقتباس دروغ گوئی کا ایک دفتر ہے اور اس کے جواب میں ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ کمیونزم اور جمہوریت؟ کمیونزم اور رواداری؟ کمیونزم اور کثیر المشربی یا وسیع المشربی؟ آئیے کمیونزم، کمیونسٹ سوویت یونین اور کمیونسٹ چین کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
روس میں انقلاب برپا کرنے والوں نے صرف 80 لاکھ حریفوں کو قتل کیا۔ چین میں قتل ہونے والے کمیونزم کے حریفوں کی تعداد صرف چار کروڑ تھی۔ سید سبط حسن روسی اور چینی انقلاب اور کمیونزم کے زبردست حامی تھے۔ تو کیا یہی ہے سبط حسن کی رواداری اور وسیع المشربی؟ کمیونسٹوں نے روس اور چین میں تمام مذاہب کو مٹا ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ قرآن اور انجیل کی تعلیم دینا ہی نہیں قرآن اور انجیل رکھنا بھی جرم قرار پایا۔ مساجد پر تالے ڈال دیے گئے، سرعام نماز پڑھنا ناممکن ہوگیا، گرجا گھر بند کردیے گئے، مساجد اور گرجوں کی عمارات کو فوجی بیرکوں کے طور پر استعمال کیا گیا۔ مذاہب کو مٹادیا گیا تو مذاہب سے نمودار ہونے والی ثقافتوں کو کیسے برداشت کیا جاسکتا تھا۔ چناں چہ چین کا ثقافتی انقلاب مذہبی ثقافتوں کو بھی کھا گیا۔ زبان ثقافت کا حصہ ہے۔ چناں چہ روسی اور چینی کے سوا تمام زبانوں بالخصوص مذہبی زبانوں کی بیخ کنی کی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کمیونسٹ صرف سیاسی، نظریاتی اور معاشی جبر کے علمبردار نہیں تھے وہ ثقافتی اور لسانی جبر کے بھی علمبردار تھے۔ زاہدہ حنا ذرا سبط حسن سمیت کسی کمیونسٹ دانشور کی تحریروں سے کمیونزم کے جبر کے خلاف لکھا گیا ایک مضمون نکال کر دکھائیں۔
کمیونسٹوں کے جبر اور آزادی اظہار سے ان کی نفرت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے خود ایسے کمیونسٹ دانشوروں کو بھی برداشت نہ کیا جنہیں لینن، اسٹالن اور مائو سے اختلاف تھا۔ ٹروٹسکی روس میں انقلاب برپا کرنے والوں میں سے ایک تھا اور اس کا مرتبہ لینن سے کچھ ذرا ہی کم تھا مگر اس کے اختلاف کو برداشت نہ کیا گیا حالاں کہ اس کا اختلاف صرف مارکسزم کی تشریح اور تعبیر کے حوالے سے تھا۔ چناں چہ ٹروٹسکی کو بالآخر روس چھوڑنا پڑا۔ مگر روس کی خفیہ ایجنسی اس کے تعاقب میں رہی اور اسے دیار غیر میں قتل کرکے چھوڑا۔ گورکی ایک کمیٹڈ کمیونسٹ تھا اور روسی ادب میں اس کا بڑا مقام ہے مگر کمیونسٹ قیادت نے گورکی کے اختلاف کو بھی ہضم نہ کیا۔ لینن نے ایک بار کہا کہ جب روس میں انقلاب آئے گا تو معلوم نہیں انسانیت انقلاب کا جشن مناتے ہوئے اسے کن الفاظ میں یاد کرے گی۔ گورکی نے کہا کہ اگر جشن منانے والے انسان ہی ہوں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ میرا ذکر احترام سے کریں گے اور اگر وہ انسان ہی نہ ہوں گے تو مجھے اس کی فکر نہیں کہ وہ میرا ذکر کن الفاظ میں کریں گے؟ جدید چین کے بانی ڈینگ زیائو پنگ کو مائو کے بعض خیالات سے اختلاف ہوا تو انہیں جیل میں ڈال دیا گیا اور وہ اپنے اختلاف کی وجہ سے بار بار حوالہ زنداں ہوتے رہے۔ تو کیا یہی ہے وہ رواداری اور وسیع المشربی جو سبط حسن جیسے کمیونسٹ دانشور پاکستانی سماج میں دیکھنا چاہتا تھا۔ اب تک ہم جھوٹ کی دو ہی قسموں سے واقف تھے۔ جھوٹ اور سفید جھوٹ مگر اب معلوم ہوا کہ جھوٹ کی تیسری قسم بھی ہے۔ اس قسم کا نام ہے سابق کمیونسٹوں کا جھوٹ۔
ارے کمیونسٹوں کی جمہوریت پسندی کی بات تو رہ گئی۔ ذرا زاہدہ حنا بتائیں تو پوری کمیونسٹ دنیا میں کہاں جمہوریت تھی؟ روس میں بھی صرف ایک جماعت کی حکومت تھی اور چین میں آج تک ایک ہی جماعت کی حکومت ہے۔ یعنی کمیونسٹ پارٹی کی۔ تو کیا ’’One Party rule‘‘ کو جمہوریت کہا جاسکتا ہے؟ وہ تو اتفاق سے بھارت اور پاکستان میں کبھی کمیونسٹ انقلاب نہیں آیا۔ آتا تو بھارت اور پاکستان میں بھی ایک ہی جماعت کی حکومت ہوتی۔ خود اہل مغرب کہتے ہیں کہ چین بہت ’’جدید‘‘ ہوگیا ہے اس نے مغرب کی سرمایہ داری سے نکاح کرلیا ہے مگر جمہوریت کے سلسلے میں چین ابھی تک ’’قدیم‘‘ ہے اور ’’کثرالجماعتی نظام‘‘ سے ہزاروں میل دور کھڑا ہے۔ تو کیا یہی ہے وہ جمہوریت پسندی جسے سبط حسن پاکستانی معاشرے کا حصہ دیکھنا چاہتے تھے؟ جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں یہاں بھی جھوٹ کی تیسری قسم بھنگڑا ڈال رہی ہے۔ اب آپ زاہدہ حنا کے کالم کا ایک اور اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ لکھتی ہیں۔
’’یہ خطہ شعر و ادب، فنون لطیفہ، تعمیرات، رقص و موسیقی اور مصوری میں ایک شاندار ماضی رکھتا ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ماضی کے ان تمام جواہر کو اپنایا جائے اور کسی کو کسی پر فضیلت حاصل نہ ہو۔ ہم مادھو لال حسین، وارث شاہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی، بابا فرید، لال شہباز قلندر، رحمان بابا، خواجہ میر دردؔ، میر تقیؔ، غالبؔ، نظیر اکبر آبادی اور بے شمار دوسرے شعر و صوفیوں کے کلام کا خزانہ رکھتے ہیں جو تمام انسانیت کا سرمایہ ہیں۔ اس میں ہندو مسلم کی تخصیص نہیں۔ مسجد اور مندر الگ طرز تعمیر رکھتے ہیں، اس کے باوجود وہ انسانوں کی مقدس عبادت گاہیں ہیں۔ ہمارے صوفیوں اور بھگتی تحریک کے ماننے والوں نے ہزاروں برس پر پھیلی ہوئی ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا جو آج بھی ہمارے لاکھوں کروڑوں شہریوں کے سینوں میں اپنی جڑیں رکھتی ہے‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس۔ 28 اپریل 2019ء)
زاہدہ حنا ایک جانب رواداری اور وسیع المشربی کی ’’تبلیغ‘‘ کر رہی ہیں، دوسری جانب ان کی تنگ نظری اور تُھڑ دلی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے برصغیر کے شاعروں کی فہرست مرتب کی تو میر اور غالب کا ذکر تو کیا مگر اقبال کا نام ان کی زبان پہ نہ آسکا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ۔ یہ ہے سبط حسن اور زاہدہ حنا جیسے سابق کمیونسٹوں کا اصل چہرہ۔ اسلام اور مسلمان ان کی وسیع المشربی اور رواداری کے دائرے سے باہر تھے اور باہر رہیں گے۔
زاہدہ حنا نے مذکورہ بالا اقتباس کی آخری ساڑھے تین سطور میں جھوٹ کا دریا ہی بہادیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے۔
’’ہمارے صوفیوں اور بھگتی تحریک کے ماننے والوں نے ہزاروں برس پر پھیلی ہوئی ایک ایسی تہذہب کو جنم دیا جو ہمارے لاکھوں کروڑوں شہریوں کے سینوں میں جڑیں رکھتی ہے‘‘۔
زاہدہ حنا کا پہلا جھوٹ یہ ہے کہ انہوں نے مسلم صوفیوں اور بھگتی تحریک کو باہم منسلک کردیا ہے حالاں کہ ہمارا کوئی ’’مستند صوفی‘‘ کبھی بھگتی تحریک سے وابستہ نہیں رہا۔ ایسا اسی لیے ہوا کہ بھگتی تحریک اپنی اصل میں ہندو ازم کے دائرے میں چلنے والی ایک ’’اصلاحی تحریک‘‘ اور اسی تحریک کا اسلام اور اس کے مرکزی دھارے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ زاہدہ حنا کے اقتباس سے یہ تاثر پید ہورہا ہے کہ بھگتی تحریک ہزاروں سال پرانی تحریک ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے۔ مورخین کا اس بات پر شدید اختلاف ہے کہ یہ تحریک کب شروع ہوئی چناں چہ کہا جاتا ہے کہ یہ تحریک پانچویں صدی سے نویں صدی کے درمیان کسی وقت شروع ہوئی۔ اس تحریک کے دو مشہور ناموں میں ایک چیتنیا مہاپربھو ہے اور دوسرا کبیر داس چیتینا مہا پربھو تو ہندو ہی تھا البتہ کبیر داس کا قصہ یہ ہے کہ اسے کوئی شخص پیدائش کے بعد ایک مندر کی سیڑھیوں پر چھوڑ گیا تھا۔ اس سے قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ ولدالحرام تھا۔ ایک مسلمان جولاہا نیرو مندر کے پاس سے گزر رہا تھا اس نے روتے ہوئے بچے کی آواز سنی تو اس کے پاس آیا اور رحم کھا کر اپنے گھر لے گیا اس لیے کہ نیرو کے کوئی اولاد نہ تھی۔ بڑا ہو کر یہی بچہ کبیر داس کہلایا۔ کبیر داس کے عہد پر بھی بڑا اختلاف ہے بعض مورخین نے 13 ویں اور بعض نے 14 ویں صدی کو کبیر کا زمانہ قرار دیا ہے۔ کبیر شاعر تھا اور دوہا نگاری کرتا تھا۔ اس کو بھگتی تحریک کا ایک اہم نام قرار دیا جاتا ہے اور سیکولر اور لبرل لوگ اس کے مسلم پس منظر کو رکیک مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مگر کبیر داس کے اسلام کا اندازہ اس کے ایک دوہے سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
کنکر پتھر جوڑ کے مسجد لیئی بنائے
تا چڑھ مُلّا بانگ دے کہا بہرا ہُوا خدائے
ترجمہ:۔ مسلمانوں نے کنکر پتھر کو جوڑ کے مسجد بنالی ہے اور اب ملّا مسجد پر چڑھ اذان دے رہا ہے۔ کیا خدا بہرا ہے کہ ملا زور زور سے اذان دے رہا ہے؟۔
باقی صفحہ7نمبر1
شاہنواز فاروقی
یہ ہے بھگتی تحریک کے ’’عظیم مسلم رہنما‘‘ کے اسلام کا حال۔ اسے یہ تک معلوم نہیں کہ اذان خدا کو سنانے کے لیے نہیں، مسلمانوں کو نماز کے لیے مسجد کی طرف بلانے کی غرض سے دی جاتی ہے۔ یہ ہے زاہدہ حنا کی وہ عظیم بھگتی تحریک جسے وہ لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کا ورثہ قرار دے رہی ہیں۔ ویسے سوال تو یہ بھی ہے کہ بھگتی تحریک کے لاکھوں کروڑوں مسلمان وارث کہاں پائے جاتے ہیں؟۔ سبط حسن اور زاہدہ حنا کے تخیل میں؟۔
زاہدہ حنا کے کالم کا ایک اور اقتباس بڑا ’’معرکے‘‘ کا ہے۔ لکھتی ہیں۔
’’سبط حسن نے 1982ء میں لکھا تھا کہ ’’جذباتیت، تنگ نظری اور نارواداری ذہنوں پر اس قدر حاوی ہے کہ نئی فکر کی تازہ ہوائیں ادھر کا رُخ کرتے ڈرتی ہیں۔ یہ روش اگر جلد نہ بدلی گئی تو ہم اپنی نئی نسلوں کو شاہ دولہ کے چوہوں کے سوا تحفے میں کچھ نہیں دے سکیں گے‘‘۔
انہیں گزرے ہوئے 33 برس بیت گئے زمانہ آگے بڑھ گیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستانی سماج وقت کے ساتھ قدم ملا کر چلتا، لیکن ہوا اس کے برعکس۔ ان کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ ہمارے یہاں دولہ شاہ کے چوہوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ کسی استاد کے خیالات سے اختلاف رکھنے والے شاگرد اسے چھرا مار کر ہلاک کردیتے ہیں اور پھر آلہ قتل لہراتے ہوئے اپنے اس بھیانک جرم پر فخر کرتے ہیں، اسے جنت میں جانے کا پروانہ جانتے ہیں‘‘۔
عرض ہے کہ مسلم انتہا پسند شاہ دولہ کے چوہے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ ابھی ہونا ہے مگر کمیونسٹوں اور سابق کمیونسٹوں کے بارے میں تو ثابت ہوچکا ہے کہ وہ شاہ دولہ کے چوہے ہی ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ کمیونسٹ شاہ دولہ کے چوہے نہ ہوتے تو کمیونزم صرف 70 سال میں ختم اور سوویت یونین 70 سال میں تحلیل نہ ہوتا۔ سابق کمیونسٹوں کا شاہ دولہ کا چوہا ہونا اس لیے ثابت ہے کہ وہ چالیس پچاس سال پہلے بھی جھوٹ بول رہے تھے اور اب بھی جھوٹ بول رہے ہیں۔ بلاشبہ انسانوں کا ’’ارتقا‘‘ ہوتا ہے مگر شاہ دولہ کے چوہوں کا ارتقا نہیں ہوتا۔