سندھ حکومت نے کراچی میں ٹرام لائن کی بحالی کے لیے کمر کس لی

161

کراچی( رپورٹ : محمد انور) سندھ حکومت نے عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر بالآخر5 ماہ بعد کراچی میں “ٹرام سروس” چلانے کے لیے کارروائی شروع کر دی ہے۔ اس ضمن میں حکومت نے پلاننگ کمیشن کے چیئرمین کی نگرانی میں ایک5 رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ جو “ٹرام لائن” چلانے کے لیے ضروری ابتدائی کام مکمل کرے گی۔ یاد رہے کہ عدالت عظمیٰ نے گزشتہ18 نومبر کو حکومت سندھ کو جلد سے جلد ٹرام لائن سروس بحال کرنے کی ہدایت کی تھی۔ یہ ٹرام سروس تقریبا43 سال قبل بند کردی گئی تھی۔ لیکن عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر ٹرام سروس چلانے کے لیے صوبائی حکومت کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت اس حکم کے5 ماہ بعد بھی2 مئی کو صرف ایک کمیٹی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کرسکی جو تاحال اس کے ارکان تک بھی نہیں پہنچ سکا۔ تاہم حکومت کے جاری کردہ نوٹیفیکشن کے مطابق “ریسٹوریشن آف ٹرام لائن اسکیم کراچی” کے لیے6 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کا چیئرمین ، چیئرمین پلاننگ کمیشن کو مقرر کیا گیا ہے۔ کمیٹی کا سیکرٹری کمشنر کراچی کو بنایا گیا ہے جبکہ کمیٹی کے اراکین میں ڈائریکٹر جنرل کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی، میٹروپولیٹن کمشنر کراچی اور ایم ڈی کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن ہونگے۔ کمیٹی ٹرام لائن منصوبے کو سیاحت کے فروغ کے لیے مفید بنانے اور اس مقصد کے لیے مقامات اور مجوزہ روٹس کے حوالے سے رپورٹس تیار کرکے حکومت کو پیش کرے گی۔ کمیٹی ٹرام چلانے کی غرض سے متعلقہ کمپنیوں اور ماہرین ٹرانسپورٹ سے بھی رابطے کرے گی۔ ساتھ اس منصوبے کے انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے بھی ضروری کارروائی کرے گی۔ چیف سیکرٹری سندھ ممتاز علی شاہ کے حکم سے قائم کی گئی اس کمیٹی کو منصوبے کی ابتدائی رپورٹ پیش کرنے کے حوالے سے بھی کوئی وقت نہیں دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ کراچی میں ٹرام سروس20 اپریل 1885 سے چلنا شروع ہوئی تھی جو پہلے صدر سے کیماڑی تک چلا کرتی تھی بعد ازاں یہ نشتر روڈ سولجر بازار، منیسفیلڈ اسٹریٹ ( سیدنا برہان الدین روڈ ) اور چاکیواڑہ لیاری، صدر، ایم اے جناح روڈ تک 4 مختلف روٹس پر چلنے لگی۔ تاہم 1970ء میں اسے بند کر دیا گیا تھا۔ پرانے کراچی کو بحال کرنے کے منصوبے کے تحت عدالت عظمیٰ نے سیاحت کے فروغ اور لوگوں کی سہولیات کے لیے اس ٹرام لائن سروس کو بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ یاد رہے کہ 1970ء تک چلنے والی ٹرام سروس کی رفتار18 میل فی گھنٹہ ہوا کرتی تھ۔ جبکہ اس کا کرایہ 6 پیسے ( ایک آنا ) ہوا کرتا تھا۔