پاک فوج نے جن علاقوں میں آپریشن ردالفساد آغاز کیا ان علاقوں میں طالبان کی مقامی سپورٹ بھی تھی۔پاک فوج نے لوگوں سے انٹرویو یا یوں کہیے کہ بات چیت شروع کی تاکہ مقامی لوگوں کی طالبان کو سپورٹ کی شدت اور حدت بھی معلوم ہوسکے اور ممکنہ طور پر کوئی ایسی بات بھی جو آپریشن میں مددگار ہو۔ مقامی افراد خوف اور تذبذب میں مبتلاتھے۔ پتا ہی نہیں چلتا تھا جس سے بات ہورہی ہے وہ فوج سے متعلق ہے یا طالبان سے۔ ایسے ہی موقع پر جب ایک بزرگ سے پوچھا گیا کہ طالبان کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے تو اس نے جواب دیا ’’سنا ہے اچھے لوگ ہیں۔ اللہ کے قانون کی بات کرتے ہیں۔ قرآن وسنت کا نفاذ چاہتے ہیں‘‘۔ پاک فوج کے بارے میں پوچھا گیا تو بولے ’’وہ بھی اچھے لوگ ہیں۔ پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان ہمارا ملک ہے۔ مسلمانوں کا ملک ہے۔ اللہ اور رسول کے نام پر بنا ہے۔ ہم اس کی سالمیت چا ہتے ہیں‘‘۔ پوچھنے والے نے حیرت سے کہا ’’طالبان بھی اچھے ہیں، فوج بھی اچھی ہے۔ یہ کیا بات ہوئی۔ کوئی تو برا ہوگا‘‘۔ بزرگ بولے ’’برا ہم ہے۔ ہم عوام کافر اور ملک دشمن ہے۔ نہ مذہب کا سوچتا ہے نہ ملک کا سوچتا ہے۔ سب کا تعریف کرتا ہے، سب کا برائی کرتا ہے۔ ہم کو اس کی سزا بھی ملتا ہے۔ سزا ملنا بھی چا ہیے‘‘۔
سیاست دان عوام سے جھوٹے سچے وعدوں کا نام ہے۔ وہ ایسی جگہ بھی پل بنانے کا وعدہ کر لیتے ہیں جہاں دریا ہی نہیں ہوتا۔ ایک ناخواندہ سیاست دان نے اپنے حلقے کے لوگوں سے وعدہ کیا تھا۔ دو طرح کے میٹرنٹی ہوم بنوائوں گا۔ عورتوں کے لیے الگ۔ مردوں کے لیے الگ۔ پاکستان میں سیاست دان مختلف اوقات میں عوام سے جتنے وعدے کرچکے ہیں اگر وہ ایفا ہوجاتے یا ایفا ہوسکتے تو آج یہ ملک جنت ہوتا۔ سیاست دانوں کا کمال یہ ہے کہ جس عزم کے ساتھ وعدے کرتے ہیں اس سے زیادہ عزم کے ساتھ توڑ بھی دیتے ہیں۔ عوام دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ سیاست دانوں کا تو کچھ نہیں بگڑتا سزا عوام کو ملتی ہے۔ ہر عہد میں عوام کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس میں حکمرانوں کی دولت اور طاقت کے حصول کی ہوس کے ساتھ ساتھ ملک کی محکوم معیشت کا بھی دخل ہے۔ کسی بھی دور میں اس ملک کی معیشت سامراجی اداروں کی گرفت سے آزاد نہ ہوسکی۔ ہر دور میں ان کا غلبہ مستحکم ہوا ہے۔ موجودہ دور میں ان اداروں کا جس طرح تسلط قائم ہوا ہے اس کے بعد ملک کی آزادی کے دعوے بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر، آئی ایم ایف کے سپرد کرکے ان کی ہمراہی میں موجودہ حکومت قومی ترقی اور معاشی استحکام کی منزل حاصل کرے گی!! جس طرح موجودہ حکمرانوں کی پست ہمتی، کمزوری اور ناتوانی آشکار ہوئی ہے ملکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
فوجی ہوں یا سویلین، حکمران لاکھ دعوے کرتے رہیں وہ ہمارے حقیقی حکمران نہیں ہیں۔ ان کے مفادات اپنے ملک اور عوام سے نہیں امریکا جیسے سامراجی ملک سے وابستہ ہیں۔ ہماری سول اور فوجی قیادت ایک طرف دعوے کرتی ہے کہ وہ امریکا کے شکنجے سے باہر آرہی ہے۔ ہم چین اور روس سے دوستیاں استوار کررہے ہیں۔ دوسری طرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے امریکی سامراجی اداروں کی ملک پر گرفت مظبوط سے مظبوط تر کرتے چلے جارہے ہیں۔ ان کا اقتدار میں آنا اور اقتدار میں رہنا اس وعدے کی تکمیل سے وا بستہ ہوتا ہے کہ وہ امریکی سامراج سے وابستہ بلکہ اس کے غلام رہیں گے۔ ما لیاتی امور اور اقتصادی معاملات میں یہ حکمران اپنے ملک میں امریکی سامراجی اداروں کے معاون اور ایجنٹوں کا کردار ادا کرتے ہیں۔ بدلے میں انہیں تمام تر نااہلی کے باوجود حکمرانی کرنے کی مہلت ملتی رہتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہماری حکمرانی ان سامراجی اداروں کی خوشی سے جڑی ہوئی ہے۔ ان حکمرانوں کے مفادات کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ عوام سے ان کا ایک ہی تعلق ہوتا ہے۔ وعدوں کا تعلق، بے وقوف بنانے کا تعلق۔ بے حدوحساب مہنگائی کرنے کا تعلق۔
حکمرانوں کی عیاشیوں، بے دریغ فضول خرچیوں، جنگوں اور عالمی تجارت میں ہونے والی اونچ نیچ سے ایسا ماحول بنادیا جاتا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک خسارے اور عدم توازن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تب انہیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی راہ سجھائی جاتی ہے۔ ان اداروں سے قرضوں کے حصول کو مشکلات سے نجات کا راستہ بتا یا جاتا ہے۔ یہ قرضے بھاری سود اور ناگوار شرائط سے منسلک ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ان ممالک کو بڑے بڑے منصوبوں اور تعمیرات میں سرمایہ کاری کرکے ایک مصنوعی خوشحالی اور ترقی کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ جس کے لیے بھاری سرمایہ کاری اور قرضوں کی دلدل میں اترنا پڑتا ہے۔ ادائیگیوں اور قرضوں کی قسطوں کی واپسی کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں۔ یوں ان ممالک کی آزادی برائے نام رہ جاتی ہے۔ یہ دراصل بدترین غلام ملک ہوتے ہیں۔ جہاں حکومتی کار گزاریوں کا بنیادی مقصد ان سامراجی اداروں کے سود کی ادائیگی اور مزید قرضوں کے حصول تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔ ان ممالک کے حکمرانوں کی حیثیت ایسے نوکروں کی ہوتی ہے جن کے سپرد ان اداروں کی طرف سے کوئی کام کردیا گیا ہو اور وہ اسے پورا کرنے پر مجبور ہوں۔ چاہے وہ پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں براہ راست اضافہ ہو یا نجکاری کے نام پر ملکی اداروں کی اونے پونے فروخت۔ ان ملکوں اور حکمرانوں کا کچھ بھی اپنا نہیں ہوتا۔ سوائے اس خام خیالی کے کہ ہم ایک آزاد ملک ہیں۔ زندہ قوم ہیں۔ پائندہ قوم ہیں۔
عمران خان کی حکومت سابق وزیراعظم نواز شریف کی نفی کی بنیاد پر اقتدار میں آئی۔ عمران خان نے ایک ایک معاملے میں نوازشریف کی حکومتی پایسیوں کے غلط ہونے کے دعوے کیے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے پچھلی حکومتوں کو کرپٹ، ڈاکو اور چور ثابت کرنے میں بھی اپنی تمام صلاحیتیں صرف کردیںتھیں۔ لیکن یہ حالات کا جبر ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ایک ایک کرکے نواز شریف کی پالیسیوں کو اختیار کرتے جارہے ہیں کیوںکہ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کی حکومت بھی ان ہی اداروں سے قرض لے رہی ہے جن سے نواز شریف قرض لیا کرتے تھے۔ اس دور میں بھی عوام کو یہی باور کرایا جاتا تھا کہ یہ آخری قرضہ ہے۔ آج بھی عوام کو دو سال کا وقت دیا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ڈیڑھ برس تک بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا اس کے بعد قرضے صفر رہ جائیں گے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے کیا ایسا ممکن ہے۔ یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا؟۔ جب کہ وزیر خزانہ بھی آئی ایم ایف لگا رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کا گورنر بھی آئی ایم ایف کا کارندہ ہے جس کی پہلی وفاداری آئی ایم ایف کے ساتھ ہے۔ عمران خان اس جبر سے آگاہ ہوگئے ہوں گے کہ نواز شریف کی طرح وہ بھی اس نظام، اس کے اداروں اور استیصالی قوانین کی اطاعت پر مجبور ہیں۔ اس نظام سے ٹکرانا تو درکنار وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ نواز شریف کے دور میں ان اداروں کا صرف ٹھیکہ ہوتا تھا۔ آج ٹھیکہ بھی ان کا ہے اور ٹھیکے دار بھی ان کے ہیں۔ غریبوں پر کتنا ہی ظلم کرنا پڑے۔ کتنا ہی ان کا خون چوسنا پڑے۔ عمران خان ایسا کریں گے۔ جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے جلد ہی عمران خان کو معلوم ہوجائے گا یہ سسٹم خود کرپشن کو فروغ دیتا ہے۔ عمران خان تیار رہیں، ان کی اور ان کے وزرا کی کرپشن کی فائلیں بھی کہیں تیار ہونا شروع ہیں۔
سرمایہ داریت ایک نظام نہیں دین ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ قوانین اور نظام سرمایہ دارانہ ہوں اور ریاست مدینے جیسی ہو۔ جیسا کہ ابتداً عرض کیا گیا سیاست دان عوام سے جھوٹے سچے وعدوں کا نام ہے اور عمران خان اس کی بدترین شکل ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے اداروں کی چاکری کرنے والے سے مدینے جیسی ریاست کی امید سادہ لوحی ہے۔ جس کی سزاعوام کو مل رہی ہے اور ملتی رہے گی۔