گوادر حملہ اور بڑے کھیل کے بڑے کھلاڑی

338

گوادر میں پی سی ہوٹل میں ہونے والے حملے میں پانچ افراد جاں بحق اور تین حملہ آور مارے گئے۔ حملہ کی ذمے داری بلوچستان لبریشن آرمی نامی زیر زمین گروہ نے قبول کی۔ یہ تنظیم پہلے بھی چینی انجینئروں کی بس پر خود کش حملے اور کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمے داری قبول کر چکی ہے۔ چینی قونصل خانے پر حملے کے چند ہی دن بعد بی ایل اے کا سربراہ اسلم اچھو افغانستان میں پراسرار انداز میں مارا گیا تھا۔ گوادر میں پرل کانٹی نینٹل ہوٹل پر راکٹوں سے حملہ بھی کیا جا چکا ہے۔ گوادر مکران ڈویژن کا حصہ ہے اور اس کی سرحد ایران سے ملتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسی علاقے میں پاکستان نیوی اور سیکورٹی فورسز کے چودہ افراد کو بسوں سے اتار کر بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ اس حملے کے بعد ہی پاکستان نے ایران کی سرحد پر باڑھ لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب اس باڑھ کو نقصان پہنچانے کے لیے ہونے والی ایک کارروائی بھی ناکام بنائی جا چکی ہے جس میں چودہ حملہ آوروں کو ہلاک کیا گیا تھا۔ کمانڈر فرنٹیئر کور نے سینیٹ کو بتایا کہ اس حملے میں ملوث تمام افراد ایران کی طرف سے نہیں آئے تھے بلکہ ان میںکچھ مقامی افراد بھی شامل تھے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ ایران کے موقع پر ان مسائل پر کھل کر گفتگو ہوئی تھی بلکہ عمران خان نے تو بعض واقعات میں ایران کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال ہونے کی بات برسرعام تسلیم بھی کی تھی جس پر خود اپنے ملک میں انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس میں کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں تھی کیونکہ ماضی میں پاکستان اپنی سرزمین پر کارروائیاں کرکے ایران کو مطلوب افراد حوالے کر چکا ہے اور ایران مانے یا نہ مانے مگر کلبھوشن یادیو ایران کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا زندہ ثبوت ہے۔
گوادر کا پی سی ہوٹل بندرگاہ کے کنارے پر ایک نمایاں مقام پر تعمیر ہوا ہے جس کی ایک علامتی حیثیت ہے۔ یہ غیر ملکی مہمانوں کے لیے جائے عافیت بھی ہے اور اس کی رونقیں گوادر کے پرامن ہونے اور بیرونی دنیا اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھانے کا باعث بھی ہیں۔ اسے گوادر کی پہلی اور بڑی نجی سرمایہ کاری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اور اس طرح کی دوسری علامتوں پر حملے کا مقصد غیر ملکیوں کو یہ پیغام دینا ہوتا ہے کہ ہر علاقہ اور شہر ان کے لیے محفوظ نہیں۔ اس طرح غیر ملکی تو کیا خود ملک کے دوسری حصے سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کار اور کارکن کو اعتماد بھی متزلزل ہوجاتا ہے۔ گوادر کے ہوٹل پر ہونے والا حملہ بتا رہا ہے کہ خطے میں جاری گریٹ گیم کم ہونے کے بجائے تیز سے تیز ہونے جا رہی ہے۔ فرق صرف یہ آیا ہے کہ پاکستان نے اپنا اندرونی دفاع بڑی حد مضبوط بنالیا ہے اور اب ریاست اپنی حدود کے اندر شناختی کارڈ، پاسپورٹ، شہریت، بیرونی سفارت کار، کنٹریکٹرز اور این جی اوز سمیت دیگر بہت سے معاملات پر اپنی گرفت قائم کر چکی ہے۔ اب یہ ملک اس طرح غریب کی جورو نہیں رہا جو منظر آج سے دس سال پہلے پیش کر رہا تھا۔ جب ریاست کے اندر غیر ملکی ایما پر ریاستیں قائم ہو رہی تھیں اور اصل ریاست لاچار ومجبور ہو کر اس ساری صورت حال پر ٹھنڈی آہیں بھرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہی تھی۔ حد تو یہ کہ ریاست بند کمرہ اجلاسوں میں سرگوشی کے انداز میں دہشت گردی کے اصل محرکات اور سرپرستوں کا نام تو لیتی تھی مگر کھلے عام بس رحمان ملک کی مبہم سی اصطلاح ’’تیسرا ہاتھ‘‘ ہی سنائی دیتی تھی۔ یہ منظر اب بڑی حد تک بدل چکا ہے۔ ریاست اپنا گھر ٹھیک کر چکی ہے مگر بیرونی خطرات کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔
جن تین دہشت گردوں کو پی سی ہوٹل میں مہمانوں کو یرغمال بنانے کا منصوبہ سونپا گیا تھا ان کی تیاری اور تربیت پر ایک خطیر رقم خرچ ہوئی ہوگی۔ یہ کسی پرائیویٹ فورس کے بس میں نہیں‘ اس کے پیچھے کسی پردہ نشیں کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں۔ پاکستان کی مجبوری بیتے کل کی طرح آج بھی یہی معلوم ہو رہی ہے کہ وہ اپنے خنجر بدست مخالف کا نام لینے سے شرماتا ہے یا پھر اس معاملے میں کسی مجبوری اور مصلحت کا شکار ہے۔ باہر کی دنیا کا منظر یہ ہے کہ چین اور امریکا کی تجارتی جنگ کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ اس جنگ کے کم ہونے کے جو آثار وقتی طور پر نظر آنے لگے تھے ایک بار پھر معدوم ہورہے ہیں۔ محصولات در محصولات کا ایک نہ ختم ہونے والا کھیل جاری ہے اوریہ صرف تجارتی جنگ نہیں بلکہ اس کا سب سے اہم پہلو اسٹرٹیجک ہے۔ دونوں کے دفاعی تصورات بری طرح تضادات کا شکار ہیں۔ امریکا کے لیے خطے میں جو بات خوب ہے چین کی نظر میں وہ ناخوب ہے۔ امریکا اس بات کو ذہن نشین کر چکا ہے کہ چین دنیا کی اقتصادی اور عسکری فرنٹ سیٹ بہت مہارت کے ساتھ امریکا سے خالی کراکے خود براجمان ہونا چاہتا ہے۔ اس تصور یا غلط فہمی سے سوائے دشمنی کے اور کوئی جذبہ جنم نہیں لے سکتا۔ حال ہی میں بیلٹ اینڈرو ڈ فورم میں امریکا کی غیر حاضری بتارہی تھی کہ وہ چین کے منصوبوں کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں کررہا۔ پاکستان سے گزرنے والا پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ مرکزی نہیں تو چند مرکزی منصوبوں میں سے ایک ہے۔ اسی لیے یہ منصوبہ بھی عالمی پراکسی جنگوں کا ہدف بن کر رہ گیا۔ بلوچستان اور گوادر سی پیک کا سب سے اہم حصہ ہونے کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی نشانے پر ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس علاقے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بڑے کھیل کے بڑے کرداروں کو ہمسایہ ملکوں میں بیس کیمپ میسر آگئے ہیں۔ ایران اور افغانستان کی سرزمین اس مقصد کے لیے آسانی سے استعمال کی جا رہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں قبرستان جیسا امن چاہتا ہے اور چاہتا بھی اپنی شرائط اور اپنے پسندیدہ نظام الاقات کے تحت ہے۔ بھارت یہی معاملہ کشمیر میں بھی چاہتا ہے مگر خود وہ پاکستان میں کئی ’’نرم پیٹ‘‘ اور کئی رستے ہوئے زخم رکھنا چاہتے ہیں۔ سی پیک کا اہم ترین حصہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان اس میں مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکا اور اس کے زیر اثر طاقتیں چاہتی ہیں کہ ان کے خلاف پراکسی جنگیں ختم ہو جائیں اور وہ جب، جہاں اور جس نام سے چاہیں پراکسی جنگیں چھیڑے رکھیں۔ یہ سوچ دنیا میں امن کی راہ میں بری طرح رکاوٹ ہے۔ پراکسی جنگیں دنیا میں بیک وقت ختم کرنا ہوں گی۔ دھونس، دبائو اور لالچ سے جنگوں کی بنائی گئی فضاء ختم نہیں کی جا سکتی۔ جنگوں کی محنت سے بنائی گئی فضاء کو جنگوں کے خاتمے کی حقیقی اور سنجیدہ کوشش سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔