پالیسی ساز ٹیم کا حکومتی فیصلوں کا میڈیا پر دفاع کرنے سے انکار

125

اسلام آباد (میاں منیر احمد) وزیراعظم کی پالیسی ساز ٹیم نے حکومت کے فیصلوں کا میڈیا میں دفاع کرنے سے انکار کر دیا اور یہ کام سیاسی ٹیم کے ذمے لگانے کا مشورہ دے دیا ہے آئی ایم ایف کے ساتھ 6 بلین ڈالرز کا معاہدہ کیا گیا ہے جبکہ عالمی بینک اور اے ڈی بی سے 2 سے 3 بلین ڈالرز ملنے کا امکان ہے پی ٹی آئی حکومت آئی تو ملکی قرض31 ہزار ارب تھا ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے خواہش ظاہر کی تھی کہ پالیسی ساز ٹیم حکومت کا میڈیا میں دفاع کرے لیکن وزیراعظم کے مشیر برائے معاشی ادارہ جاتی اصلاحات وسادگی مہم ڈاکٹر عشرت حسین نے حکومت کے دفاع کیلیے میڈیا میں جانے سے معذرت کرلی اور کہا کہ ہم وزیراعظم کی تکنیکی ٹیم کے رکن ہیں، پیشہ ورانہ صلاحیتیں رکھتے ہوئے اپنی ذمے داری صرف پالیسیاں بنانے تک محدود رکھیں گے میڈیا میں حکومتی پالیسیوں، فیصلوں کا دفاع کرنا وزیراعظم کی سیاسی ٹیم کا کام ہے وزیراعظم نے معاشی ٹیم کے اجلاس میں ڈاکٹر عشرت اور دیگر کو ہدایت کی کہ وہ میڈیا میں حکومتی پالیسیوں، آئی ایم ایف سے قرضہ سمیت دیگر معاشی فیصلوں کی حقیقت کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں، جس کے دفاع کیلیے معاشی ٹیم کے ارکان کو ٹی وی چینلز پر جانا چاہیے، معیشت جیسے تکنیکی شعبہ بارے عام پارلیمنٹرین کم جانتے ہیں، معاشی ٹیم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپوزیشن اور عوام کا مقابلہ میڈیا کے ذریعے کریں اور قوم کو بتائیں کہ آئی ایم ایف میں جانا کیوں ضروری تھا، جس کے جواب میں ڈاکٹر عشرت حسین نے وزیراعظم سے معذرت کرلی کہ حکومتی پالیسیوں، فیصلوں اور اقدامات کا دفاع اور عوام کو مطمئن کرنے کی ذمہ داری منتخب پارلیمنٹرین اور وزراء کی ہے، ہمارا کام پالیسیاں بنانا اور حکومت کی معاونت ہے، معیشت کے استحکام کیلئے کردار ادا کرتے رہیں گے تاہم میڈیا میں جاکر حکومت کا دفاع کرنے کی ذمہ داری نہیں ادا کر سکتے یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت حکومت کے ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستان معاشی مشکلات کا شکار ہے، غیر ملکی ذخائر 10 بلین ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں اس صورت حال میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے بھی کم شرح سود پر قرض ملے گا آئی ایم ایف کے ساتھ 6 بلین ڈالرز کا معاہدہ کیا گیا ہے جبکہ عالمی بینک اور اے ڈی بی سے دو سے تین بلین ڈالرز ملنے کا امکان ہے پی ٹی آئی حکومت آئی تو ملکی قرض 31 ہزار ارب تھا۔ زرمبادلہ بہت کم سطح پر جبکہ خسارہ بہت زیادہ ہو گیا تھا سٹیٹ بینک خود مختار ادارہ ہے جو خود ہی ایکس چینج ریٹ کا تعین کرتا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگے گا۔