پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کا منصوبہ ایک بار پھر امریکی پابندیوں کی وجہ سے کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ ایران نے اس معاملے میں پاکستان کو نوٹس دیتے ہوئے معاملہ عالمی ثالثی عدالت میں اُُٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ اس نوٹس کے جواب میں پاکستان نے ایران کو تحریری طور پر مطلع کیا ہے کہ امریکی پابندیوں کے باعث پاکستان اس منصوبے کو آگے بڑھانے سے قاصر ہے۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان نے اس ضمن میں وزارت خارجہ کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ ایران کے ساتھ مل کر تنائو ختم کرتے ہوئے متفقہ موقف اور حکمت عملی اپنائی جائے۔ انہوں نے وزرات خارجہ کو اس معاملے میں اقوام متحدہ، امریکا اور یورپی یونین سمیت دوسرے عالمی اداروں کو یادداشتیں بھیجنے کی ہدایت بھی کی ہے۔
پاک ایران گیس پائپ لائن توانائی کے بحران کا شکار پاکستان کے لیے ایک اچھا متبادل ثابت ہو سکتا تھا۔ ایران اپنے حصے کی نو سو کلومیٹر پائپ لائن کا کام مکمل کر چکا ہے اور اب پاکستان کو اپنے علاقے میں آٹھ سو کلومیٹر پائپ لائن کا کام کرنا ہے۔ امریکا اس منصوبے کا مخالف ہے اور اس کے متبادل ترکمانستان، افغانستان، پاکستان کے بنیادی منصوبے ’’تاپ‘‘ کو انڈیا کا ٹانکہ لگا کر ’’تاپی‘‘ بنا چکا ہے۔ اس منصوبے سے امریکا کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہوگا اور پاکستان اور بھارت قریب آئیں گے جس سے بھارت کے لیے امکانات کی کئی راہیں کھلیں گی۔ امریکا کو پاکستان کی توانائی کی ضروریات اور مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ پاکستان کو مخالف کے خانے میں ڈال چکا ہے۔ امریکا پاکستان کے ساتھ اپنے تمام مشترکہ فوجی پروگرام، فوجیوں کی تربیت اور تعاون کے معاہدے ختم کر بیٹھا ہے۔ اب امداد بھی بند کرنے کی دھمکی دی جا چکی ہے۔ پاکستان کے لیے مختص پچاس کروڑ ڈالر کا فنڈ میکسیکو کی سرحد پر باڑھ کی تعمیر کے لیے منتقل کیا جا چکا ہے۔ امریکا کے قائمقام سیکرٹری دفاع پیٹرک شہنان کی طرف ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو دیے انٹرویو میں کہا گیا ہے کہ ہم نے 120میل طویل سرحد پر باڑھ لگانے کے لیے ایک ارب پچاس کروڑ ڈالر مختص کر دیے ہیں۔ پاکستان کے لیے مختص فنڈ اور مختلف کنٹریکٹس میں کمی کرکے یہ فنڈ جمع کیا گیا ہے جبکہ افغان سیکورٹی فورسز کے فنڈز سے ساٹھ کروڑ ڈالر کم کیے گئے ہیں۔ یوں اپنے فنڈز کا میکسیکو کی سرحد پرخرچ ہونے کے معاملے پر پاکستان کے فیصلہ ساز دل کو یوں تسلی دے سکتے ہیں۔
وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دل ِ بے خبر میری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا
پاکستان اور ایران کی تقدیر ایک کاغذ پر ایک روشنائی کے ساتھ لکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان اور ایران کے خاکستر میں انقلابیت کی چنگاری کی موجودگی انہیں عجیب انداز سے خوف زدہ کیے ہوئے ہے۔ اسی لیے امریکا ان دونوں کے لیے عقوبت کے ایک جیسے انداز اپنارہا ہے۔ ایران تسلیم کرے یا نہ کرے مشرق وسطیٰ اور خلیج میں عراق سمیت بعض مقامات پر امریکا نے انہیں استعمال کر کے وہی کام کیا جو اکثر اوقات پاکستان کے ساتھ ہوتا رہا ہے یعنی استعمال کرتے ہی دوبارہ نشانے پر رکھ لو۔ ایران حزب اللہ سے حماس تک جہاں جہاں ایک اصول کی بنیاد پر مظلوم لوگوں کی مدد کررہا تھا ان مظلوموں کو دہشت گرد قرار دیا گیا اور یوں ایران کو دہشت گردوں کا سرپرست ثابت کرنے کی حکمت عملی اپنائی گئی۔ اگلے قدم کے طور پر ایران کی فوج پاسداران انقلاب کو دہشت گردوں کی صف میں لاکھڑ کیا گیا۔ یہی واردات پاکستان کے ساتھ ہو رہی ہے۔ جسے جیش محمد، افغان طالبان اور جماعت الدعوۃ کا معاون بتا کر ان تنظیموں کودہشت گرد قرار دیا گیا ہے اور اس کی تان کہاں ٹوٹے گی؟ یہ بات قطعی محتاج وضاحت نہیں۔ پاکستانی فوج پر تو امریکا کے پرائیویٹ حلقے اکثر اور کبھی کبھار سرکاری لوگ جہادیوں کی سرپرستی کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ یہ نیا الزام نہیں بلکہ اس کی جگالی نوے کی دہائی ہی سے جاری ہے۔
چند دن قبل ایران کے ڈالر خور لبرل اور ان کے بیرونی معاونین کسی غیر ملکی سرزمین پر ایک مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آئے۔ مظاہرین نے ’’ڈونٹ ٹرسٹ ایران‘‘ کی عبارت پر مشتمل بینر اُٹھایا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر پاکستان کے وہ ڈالر خور لبرل نظروں میں گھوم گئے جو آئے روز بیرونی سرپرستوں کی موجودگی میں بیرونی سرزمین پر ’’یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘‘ کے نعرے بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ ایران کا جوہری معاہدہ تازہ پابندیوں کا ایک بہانہ ہے اصل معاملہ خطے میں امریکی اسکیم کے لیے ایران کی موجودہ وضع قطع کا مس فٹ ہونا ہے اور یہ وہی صورت حال جو جنوبی ایشیا میں پاکستان کو درپیش ہے جس کی خاطر فیتہ قینچی تھامے کچھ ہاتھ ہر موڑ اور مقام پر نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے لیے ایسے کئی بہانے پہلے سے گھڑ رکھے گئے ہیں۔
ایران کی معاشی کلائی مروڑنے کا عمل شروع ہے۔ ایران کے ساتھ تیل کی تجارت کرنے والوں کو ڈرا دھمکا کر اس عمل سے الگ کیا جا رہا ہے۔ وقتی طور پر اس خلا کو پر کرنے کے لیے تیل کی فراہمی کے نئے کندھے تلاش کیے جاچکے ہیں۔ سعودی عرب وقتی طور پر تیل کی بین الاقوامی ضرورت پوری کرنے پر آمادہ ہوچکا ہے۔ خود ایران کے صدر حسن روحانی نے کھلے انداز میں اعتراف کیا ہے ایران ایسے دبائو کا شکار ہے جس کی مثال 1980 میں انقلاب کے بعد اور 1988 میں عراق کے ساتھ جنگ کے دوران بھی نہیں ملتی۔ یہ ایران کی علاقائی اور عالمی تنہائی کا کڑ ا وقت تھا مگر ایرانی صدر آج کے حالات کو اس سے بدتر قرار دے رہے ہیں تو حالات کی سنگینی کا انداز ہ لگایا جا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے موجودہ حالات کے پیش منظر میں کہہ دیا ہے کہ 2019 میں ایران کی شرح نمو میں چھ فی صد کمی آسکتی ہے۔ پاکستان بھی ان دنوں اسی معاشی صورت حال اور ایسی قنوطیت بھری پیش گوئیوں کا مرکزہے۔ فلسطین میں ایران اور کشمیر میں پاکستان کے کردار نے اس خوف کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان دونوں مقامات پر جن دو ملکوں بھارت اور اسرائیل کے سینگ پھنسے ہوئے ہیں وہ دونوں دنیا میں امریکا کے تزویراتی شراکت دار ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان کو امریکا دبائو کو غیر موثر کرتے ہوئے توانائی کے اس سستے اور متبادل ذریعے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ امریکا کے پاس پاکستان کو دینے کے اب کچھ بھی نہیں حد تو یہ کہ وہ آئی ایم ایف کو قرض دینے کے لیے ایک سفارشی پرچی دینے سے بھی مکر گیا ہے اور اسی لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر قرض لینا پڑا۔ ایسے میں امریکا کا دبائو قبول کرنا گناہ بے لذت کے سوا کچھ اور نہیں ہوگا۔