جرائم تیز تر احتساب آہستہ آہستہ

184

 

 

واجب الاحترام چیف جسٹس پنجاب سردار محمد شمیم خان نے درست فرمایا ہے کہ انصاف پر مبنی فیصلہ برسوں کی عبادت سے افضل ہے۔ انصاف سے گریز کرنے والے ججز دنیا اور آخرت میں جوابدہ ہوں گے۔ مسند انصاف پر بیٹھنا سعادت ہے، خدا کی رحمت ہے، اس سعادت اور رحمت کو بروئے کار لانا توفیق ہے مگر خسارے کا سودا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ خدائے بزرگ و برتر نے کچھ ایسے عناصر کو انسان کی فطرت کا جز بنایا ہے جو بُرائی پر مائل کرتے رہتے ہیں اگر انسان ان پر قابو پانے کی جدوجہد میں کامیاب ہوجائے تو اس کا شمار برگزیدہ اور نیک بندوں میں ہوتا ہے اور وہ خدا کی نیابت کا حق دار قرار پاتا ہے، مگر جو انسان
شیطان کا بندہ بن جاتا ہے وہ اس آزمائش میں ناکام رہتا ہے۔ اللہ نے فرشتوں کو عقل دی ہے نفس امارہ نہیں، جانوروں کو شعور دیا ہے عقل نہیں دی۔ مگر انسان کو عقل بھی دی ہے، شعور بھی دیا ہے اور آزمائش کے لیے نفس امارہ جیسا سرکش گھوڑا بھی دیا ہے جو انسان نفس امارہ کے سرکش گھوڑے کی لگام کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے توفیق اسی کا مقسوم ٹھیرتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسند
انصاف پر براجمان ہونا سعادت ہے، خدا کی رحمت ہے اس سعادت اور رحمت پر غور کیا جائے تو یہ آزمائش ہے، عدالت کا کمرا امتحان گاہ ہوتا ہے جو منصف اس امتحان میں کامیاب ہوجاتا ہے وہ اللہ کی نیابت کا حق دار ٹھیرتا ہے جو ناکام ہوجاتا ہے وہ شیطان کا جاں نشین بن جاتا ہے اس کے سر پر ابلیست کا تاج رکھ دیا جاتا ہے۔
جزا و سزا کا دارومدار صرف یوم حساب پر نہیں، زندگی بذات خود ایک قیامت ہے۔ ہم شیطان کی جاں نشینی کے مرتکب جج صاحبان کے نام گنوا کر ان کا مردہ خراب کرنا نہیں چاہتے، یوں بھی مردہ خراب ہوجائے تو اس کے نزدیک جانا عقل مندی نہیں۔ جو لوگ عاقبت کی خبر خدا جانے‘‘ کے قول پر عمل پیرا ہو کر لمحہ موجود سے لطف اندوز ہوتے ہیں ان کی عاقبت کبھی نہیں سنورتی۔ یہ بھی درست ہے کہ انصاف پر مبنی فیصلہ عبادت ہوتا ہے مگر انصاف کو قانون کے تابع ہونا چاہیے، خواہشات کے زیر اثر فیصلہ گمراہی کی بدترین صورت ہوتا ہے اور المیہ یہی ہے کہ ہمارے نظام عدل کا ہر راستہ ہی بے سمت ہے۔
انصاف کی دیوی عدالتوں کی غلام گردشوں کی غلام بنادی گئی ہے یہ کیسی بدبختی ہے، یہ کیسا المیہ ہے کہ انصاف کے طلب گاروں کو عدلیہ کی اس کنیز کا محکوم بنا دیا گیا ہے، خدا جانے! حاکم و محکوم کی یہ جنگ کب تک جاری رہے گی وہ عادل اعظم کب آئے گا جس کے ہاتھ میں امن اور شانتی کا پرچم ہوگا اور وہ عدلیہ کی کنیز کو آزد کرے گا۔
سبب یا مصلحت کھلتی نہیں لیکن یہ حیرت ہے
جرائم تیز تر اور احتساب آہستہ آہستہ
ججز ور جسٹس صاحبان کا نصب العین انصاف دینے کے بجائے تنخواہ لینا ہو تو سعادت مندی تماشا بن جاتی ہے، تماشا کوئی بھی ہو ہجوم کا سبب بنتا ہے اور اصل المیہ یہی ہے کہ عدالتوں کو تماشا گاہ بنادیا گیا ہے جہاں پیشی در پیشی کا تماشا لگا کر سائلین کو ذہنی اذیت دے کر لطف اندوزی کا سامان کیا جاتا ہے۔ حکمران کوئی بھی ہو جمہوریت کا راگ الاپتا رہتا ہے، شاید اسے یہی ذمے داری سونپی جاتی ہے، لاکھ سمجھائو مگر وہ سمجھنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتا، اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جمہوریت کی عمارت اسی صورت میں مضبوط اور پائیدار ہوسکتی ہے جب اس کی بنیاد میں عدلیہ کا وقار اور نظام عدل کا اعتبار شامل ہوگا، بصورت دیگر سیاسی زلزلے باعث خطرہ بنے رہیں۔