محبت اور عقیدت چکی کے دو پاٹ

234

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس میں ملک کو لاحق ممکنہ خدشات کا تفصیل سے اظہار کیا، بھارت کے مذموم عزائم اور اندرونی خطرات سے قوم کو آگاہ کیا۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ جو کام وزیراعظم کو کرنا چاہیے وہ کام فوج کے ترجمان کو کرنا پڑا۔ سچ ہی کہا ہے شعیب بن عزیز نے کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ انہوں نے بڑی فراغ دلی سے یہ اعتراف کیا کہ قوم فوج سے محبت کرتی ہے فوج کی کارکردگی اور اس کے جذبہ ایثار کی قدر کرتی ہے مگر بعض قوتیں قوم کو فوج سے بدظن کرنے کی شرمناک حرکات کی مرتکب ہورہی ہیں، مگر اب ان کا وقت ختم ہوچکا ہے اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ ہر دور فوج کا دور ہی رہا ہے اور ہر بُرا وقت قوم کا مقسوم رہا ہے اور یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ ریاست سے بڑی قوت کوئی نہیں۔ میجر جنرل آصف غفور نے پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرمیوں پر بین السطور بہت کچھ کہا ہے مگر کوئی ثبوت نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر پی ٹی ایم کی سرگرمیاں ملک کے خلاف ہیں اور فوج کے پاس ان کے خلاف ثبوت موجود ہیں تو پھر دیر کس بات کی ہے؟۔ یادش بخیر! ایک آرمی چیف نے سابق ہونے کے بعد ایک نامور صحافی کے بارے میں انکشاف کیا تھا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے ان کا رابطہ تھا اور ’’را‘‘ کے ایجنٹ پاکستان میں مذکورہ صحافی کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس معاملے کی چھان بین کرنے کے بجائے الزامات کی بین کیوں بجائی گئی؟۔ تاریخ خاص کر برصغیر کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی فوج سول آبادیوں میں دخیل ہوتی ہے ’’کرمی ناتے‘‘ وجود میں آتے ہیں۔
میجر جنرل آصف غفور کے اس ارشاد گرامی سے انکار ممکن نہیں کہ قوم فوج سے عقیدت کی حد تک محبت کرتی ہے مگر حقیقت یہ بھی کہ بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جو محبت اور عقیدت کو چکی کے پاٹ بنادیتے ہیں۔ سیکورٹی گارڈ کی ملازمت کے لیے سابق فوجی ہونا لازمی قرار دیا جاتا ہے جو نوجوان طبقے کو بے روزگاری کے جہنم میں دھکیل رہا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے نوجوانوں کے لیے سیکورٹی گارڈ کی ٹرینگ کا اہتمام بڑے جوش و خروش سے کیا تھا اور کورس کرنے والوں کو باور کرایا تھا کہ تربیت کے بعد ملازمت دی جائے گی، مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی رہا۔ کچھ نوجوانوں کو وکٹوریہ اسپتال بہاولپور میں سیکورٹی گارڈ کی ملازمت تو مل گئی مگر
ٹھیکا سسٹم کے باعث وہ تیرا تین ہوگئے۔ سابق فوجی کو بارہ ہزار ماہانہ اور سول سیکورٹی گارڈ کو آٹھ ہزار روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں اور یہ تنخواہ بھی کئی کئی ماہ کے بعد قسطوں میں دی جاتی ہے۔ شنید ہے بعض نوجوان تنخواہ، تنخواہ چلاتے چلاتے حنجرہ کی خرابی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ خدا جانے! وزیراعظم عمران خان کی افسربکار خاص فردوس عاشق اعوان صاحبہ کے حنجرہ کو کیا تکلیف ہے؟ جو اکثر خراب رہتا ہے۔ کہتے ہیں ’’حقِ نمک‘‘ ضرورت سے زیادہ چاٹ لیا جائے تو حنجرہ اسی طرح احتجاج کرنے لگتا ہے۔
حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ فوج کے ترجمان کو یہ خبر تو ہے کہ بیرونی ممالک سے پی ٹی ایم کے لوگ کیسے؟ اور کتنی فنڈنگ لے رہے ہیں مگر انہیں یہ علم نہیں کہ دوران جنگ رینجرز کے جوانوں کی شہادت اور معذوری کے بعد مراعات اور سہولتیں دینے سے فوج یہ کہہ کر انکار کردیتی ہے کہ سویلین کو فوجی مراعات اور سہولتیں نہیں دی جاسکتیں۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ بھارت سے جنگ چھڑ جائے تو رینجرز کے نوجوان بھارتی گولیوں کے سامنے سینہ سپر ہوتے ہیں اور جب انعامات کی باری آتی ہے تو فوجی جوانوں کو آگے کردیا جاتا ہے۔ غالباً 1935ء کے قانون کے تحت سرحدی علاقوں کی
سرکاری زمینوں پر ان جوانوں کا حق ہوتا ہے جو وہاں اپنے فرائض ادا کرتے رہے ہوں مگر یہاں بھی رینجرز کے جوانوں کے حقوق غضب کیے جاتے ہیں۔ تمام آرمی چیف رینجرز کو ملک کی پہلی دفاعی لائن قرار دیتے ہیں مگر جب بات مراعات اور سہولتوں کی ہو تو ان کے سینے پر آویزاں تمغہ جنگ کو نوچ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ ہم تجربات کی بنیاد پر یہ بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ پختون اپنی زمین سے بہت محبت کرتے ہیں، دنیا کی کوئی طاقت کوئی ترغیب وطن کی محبت سے برگشتہ نہیں کرسکتی، کوئی پشتین کوئی پشتہ محب وطن کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ مقتدر طبقے کو اپنے رویے پر غور کرنا پڑے گا، یہ سوچنا پڑے گا کہ جو خام مال پختون علاقوں میں پیدا ہوتا ہے اس کی مصنوعات کراچی وغیرہ میں بنائی جاتی ہیں اور مزدور پختون علاقوں سے لیے جاتے ہیں، اس المیے پر کسی پختون سے کہا تھا۔ نو ماہ تک ماں نے اپنی کوکھ میں پروان چڑھایا چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو بہنوں نے اپنی نیندیں حرام کیں مگر جب کام کے قابل ہوا تو کراچی کے سیٹھوں کی غلامی کرنے لگا۔ یہ ایک ایسا اذیت ناک مرحلہ ہوتا ہے جو پختون مائوں کو زندہ درگور کردیتا ہے۔ مگر اس پر غور کرنے اور اس کا تدارک کرنے پر کوئی آمادہ نہیں۔ بندر کی بلا طویلے کے سر ڈالنے کی روش کو بدلنا ہوگا، الزامات لگا کر اپنی ذمے داریوں سے فرار ہونا بھگوڑا ہونے کی مکروہ ترین صورت ہے۔