کپتان نے عوام کا تیل تو نکال دیا

231

وزیراعظم عمران خان کی خصوصیت ہے کہ جو کہتے ہیں وہ کر گزرتے ہیں کم از کم وہ کام ضرور ہوجاتا ہے جس کا دعویٰ وہ کرتے ہیں۔ وزیراعظم بننے سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ وزیراعظم ہائوس پر بلڈوزر چلادیں گے، گورنر ہائوسز گرادیں گے یا وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنادیں گے۔ انہوں نے وزیراعظم ہائوس کو یوٹرن کی یونیورسٹی بنادیا ہے۔ گورنر ہائوسز عوام پر بلڈوزر چلا رہے ہیں، عمران خان نے کہا تھا کہ میرے آتے ہی پیسا آئے گا۔ سو وہ بھی آرہا ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کپتان نے کہا تھا کہ باہر سے پیسا آئے گا اور پیسا باہر ہی سے آرہا ہے۔ مارچ میں وزیراعظم نے اعلان کیا کہ کراچی کے قریب سمندر کے نیچے سے ایشیا کا تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ مل گیا ہے، بس اب ہم بھیک نہیں مانگیں گے، اب تیل برآمد کیا جائے گا۔ یہاں خیالی پلائو اور انڈوں کے ٹوکرے والی بات تو مناسب نہیں رہے گی لیکن لگتا ہے کہ اسی قسم کا دعویٰ تھا۔ وزیراعظم نے مارچ میں اعلان کیا تھا کہ تین ہفتوں میں خوش خبری دوں گا، بس ذرا دیر ہوگئی، اس کی بھی وجہ تھی انہوں نے تیل نکلنے کی خوش خبری دی تھی، چناں چہ اعلان سے قبل آئی ایم ایف سے مذاکرات کرکے سخت ترین شرائط مان لیں، ان کا بھیجا ہوا مشیر خزانہ بنایا، ان کا بھیجا ہوا گورنر اسٹیٹ بینک لگایا پھر ان کی خواہش پر قوانین بالائے طاق رکھ کر ایف بی آر کا چیئرمین بدل دیا۔ یہ سب مل کر بجلی، گیس، پٹرول ہر چیز مہنگی کررہے ہیں۔ ڈالر کو پَر نہیں بلکہ ایف 16 لگادیا گیا ہے، یوں عوام کا تیل نکال دیا… دیکھا… کپتان جو کہتا ہے وہ کر بھی ڈالتا ہے۔ تیل تو نکال دیا ناں سمندر کے نیچے جانے کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔ اور کراچی سے دور جانے کی بھی نہیں بلکہ کراچی کے اندر ہی تیل نکال دیا۔ سڑکیں، بازار، شادی ہال، دکانیں، سائن بورڈز سب توڑ ڈالا گیا ہے، تیل دیکھو تیل کی دھار۔
کپتان کے تیل نکلنے کے دعوے میں خرابی یہ تھی کہ وہ خود تو کسی معاملے سے واقف نہیں ہیں اور ان کو جو لوگ رپورٹس دے رہے ہیں وہ بھی ان ہی کی طرح ہیں۔ چناں چہ سمندر کے نیچے سے تیل نکالنے کے بارے میں انہوں نے وزیراعظم کو حقائق نہیں بتائے۔ ویسے تو اب بھی نہیں بتائے، وزیراعظم یہ خبر آنے کے بعد بھی پشاور میں یہی کہہ رہے تھے کہ گیس کا بڑا ذخیرہ نکل آیا ہے۔ زیر بحر تیل اور گیس میں پانی کی آمیزش کے بہت زیادہ امکان ہوتے ہیں اس کو نکالنے اور صاف کرنے کی لاگت درآمدی تیل سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بات نہ خان صاحب کو معلوم ہے نہ ان کی ٹیم کو۔ اسی طرح جب یہ خبر آئی کہ تیل کے ذخائر نہیں ملے تو خان صاحب کے حامیوں کو ان کے دعوے کے دفاع کی سوجھی، نہ دعوے کرنے والے کو کچھ پتا ہے نہ دفاع کرنے والوں کو۔ ضعف الطالب والمطلوب۔ کیا خوب پوسٹ ڈالی ہے، عموماً ہم ایسی چیزوں کو نقل نہیں کرتے لیکن کہانی بننے والے نے خوب کیا ذہن سے لکھتا ہے۔ ’’عین اس وقت جب ڈرلنگ کا عمل فائنل مراحل میں تھا تو ایران اور امریکا اکی ایک دوسرے کو دھمکیاں یہاں تک کہ امریکا کے سمندری بیڑوں نے ایران کی طرف ’’پیش قدمی‘‘ شروع کردی۔
انڈیا، اسرائیل، ایران اور امریکا یہ نہیں چاہتے کے پاکستان کامیاب ہو اس وجہ سے پاک آرمی نے بھی اپنی پوزیشن سنبھال لی ہے۔ کیا آپ بھی وہی سوچ رہے ہیں جو میں سوچ رہا ہوں۔ کہ ہدف ایران نہیں پاکستان کے تیل کے ذخائر ہیں۔ اور یہ پاکستان کے خلاف پوری پلاننگ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ اور پھر آج خبر آئی کہ ڈرلنگ مکمل تیل اور گیس نہیں نکلا۔ اس کے ساتھ ہی ڈرلنگ والی جگہ کی سیکورٹی اور کمانڈ پاکستان نیوی اور پاکستان فضائیہ نے سنبھال لی۔ پاکستان صرف انٹرنیشنل پریشر کی وجہ سے فی الحال ذخائر ظاہر نہیں کررہا لیکن مجھے ان لوگوں پر افسوس ہے جو اس خبر پر خوشی منارہے ہیں کہ پاکستان میں تیل اور گیس کے ذخائر نہیں ملے ان لوگوں کو پاکستانی کہلانے کا کوئی حق نہیں۔ الحمدللہ پاکستان میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور آپ لوگ بالکل مایوس نہ ہوں۔ ان شاء اللہ پاکستان ایک عظیم ملک بنے گا، تمام محب وطن سے درخواست ہے پاکستان کی سلامتی کے لیے ضرور دعا کریں‘‘۔
بھائی انصافیے یا یوتھیے اگر امریکا کو تیل کی ڈرلنگ روکنی ہوتی تو ایگزون اور ای این آئی کو تو امریکا بھی روک دیتا وہ پاکستان کے دس کروڑ ڈالر خرچ ہی نہ کرواتے۔ امریکا نے تھرکول کو یہ کہہ کر براہ راست روکا ہوا ہے کہ اس سے ماحول پر اثر پڑے گا۔ تو وہ آف شور ڈرلنگ روکنے کے لیے ایران کے خلاف بحری بیڑا کیوں بھیجے گا۔ کیا دور کی کوڑی لائے ہیں کہ یہ پاکستان کی آف شور ڈرلنگ کے خلاف ہورہا ہے۔ پھر ایک اور ہوائی چھوڑی کہ پاکستان بین الاقوامی دبائو کے سبب تیل کے ذخائر ظاہر نہیں کررہا ہے۔ یعنی سمجھا کرو یار۔ امریکا کو کیا پتا ہم نے تو کہہ دیا کہ وہاں کچھ نہیں ہے۔ پھر اس ناکامی پر اعتراض کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دے دیا بلکہ پاکستانیت سے بھی محروم کردیا۔ یہ پوسٹ بھیجنے، بنانے اور شیئر کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے دنیا میں آئل کمپنیز اور اسلحہ کمپنیاں حکومتوں کے دبائو سے بالا تر ہوتی ہیں یہ اپنے مفادات حاصل کرکے رہتی ہیں۔ ان کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے، امریکا لاکھ کہتا رہے کوئی اثر نہیں پڑے گا، بل کلنٹن نے ایران ہی کے مسئلے پر فرانسیسی تیل کمپنی ٹوٹل پر پابندی کی دھمکی دی تو ٹوٹل کے صدر نے کلنٹن کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ مسٹر کلنٹن آپ امریکا کے صدر ہیں ٹوٹل کے نہیں، یعنی اوقات میں رہو، آج بھی امریکا و یورپ ایران کو دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن ان کے ساتھ یورپی امریکی کمپنیاں تجارت بھی کررہی ہیں۔ بھائی جلسوں میں اوئے کہنا آسانا ہوتا ہے ملک چلانا کچھ اور معاملہ ہے۔