خاموش رہنا بہتر تھا

263

ہمیں تو کچھ بھی نہیں کہنا‘ اس لیے عنوان یہی رکھا‘ کچھ سمجھنا اور سمجھانا ضرور ہے‘ وزیر اعظم عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کہنا اب اپوزیشن کا بیانیہ بنتا جارہا ہے چلیے یہ تو سیاست کی بات ہے‘ لیکن صحافت میں بھی کوئی سلیکٹڈ کالم نویس ہوتا ہے کوئی سلیکٹڈ رپورٹر ہوتا ہے‘ یہ ہمیں کوئی سمجھائے‘ جناب چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کے انٹرویو کی بڑی دھوم ہے‘ آج سے کوئی اٹھارہ سال قبل حامد میر کے ایک انٹرویو کی بڑی دھوم مچی تھی‘ دھوم کیا مچی‘ امریکا نے افغانستان پر حملہ اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد ہی کیا تھا کیا یہ بات درست ہے کہ جب خبریں لیک ہونا شروع ہوجائیں تو اسے ایجنڈا کہا جاتا ہے یہ ایک سوال ہے جسے ہم قاری کے سامنے رکھ رہے ہیں اخبار کا ادارتی صفحہ اور خصوصاً اداریہ‘ اخبار کی پالیسی کا عکاس ہوتا ہے‘ لیکن ایجنڈے والے کالم اگر شائع ہونا شروع ہوجائیں تو پھر معاملہ محض کالم نویس تک محدود نہیں رہتا‘ بات ذرا تھوڑی سی پھیل جاتی ہے اور ایڈیٹر کی راہداری سے ہوتی ہوئی پبلشر تک بھی جاپہنچتی ہے۔
جسٹس جاوید اقبال سے پرانی یاد اللہ ہے‘ خاموش طبع جج ہیں‘ اسی لیے پریس کونسل سے ہوتے ہوئے متعدد کمیشن کے سربراہ بھی بنائے گئے‘ یاد آیا کہ دومئی کا سانحہ اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ تو آچکی ہے؟ یہ رپورٹس انجینئرنگ کی عمدہ مثال ہیں‘ عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس بھگوان داس ہوا کرتے تھے‘ مذہبی رسوم کے لیے نجی رخصت پر بھارت گئے تو ان کے بعد عدالت عظمیٰ میں جسٹس افتخار چودھری کی برطرفی ہوگئی‘ جنرل مشرف کے دور میں یا دبائو میں‘ جسٹس جاوید اقبال قائم مقام چیف جسٹس بن گئے‘ لیکن انہیں سند قبولیت نہ مل سکی لیکن اس کے بعد عدلیہ بحالی تحریک چلی اور افتخار چودھری منصب پر بحال ہوگئے‘ تین نومبر کو دوبارہ معطل ہوئے تو جسٹس جاوید اقبال پریس کونسل کے سربراہ بن گئے‘ پھر افتخار چودھری کی لانگ مارچ کے بعد بحالی ہوئی تو دوبارہ عدالت عظمیٰ میں آگئے‘ شطرنج ایک ایسا کھیل ہے جس میں ہاتھی‘ اور توپ صرف ایک سمت میں چل سکتے ہیں لیکن گھوڑے کی اڑھائی چالیں ہوتی ہیں آج کل کون کون سی چال چل رہا ہے اصولی سیاست اور کھری اور سچی صحافت دونوں کی پہچان کرنے سے قاصر ہے‘ جب تک اس کی پہچان نہیں ہوگی‘ سلیکٹڈ کالم لکھے اور شائع ہوتے رہیں گے اس بات کی ضرور وضاحت اور تصدیق بھی ہونی چاہیے کہ کیا نیب چیئرمین نے واقعی حکمران جماعت سمیت تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے اہم لیڈران کو کرپشن میں ملوث قرار دیکر ان کی گرفتاری کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ نیب چاہے تو موجودہ حکومت بھی دس منٹ میں گرا سکتی ہے‘ ایسا تو جنرل مشرف کے چیئرمین نے بھی کہا ہوگا۔ چند روز قبل آصف علی زرداری نے پھر دہرایا کہ اب نیب رہے گا یا معیشت‘ ان کی اس بات سے کلی اختلاف ہے‘ جس معاشرے میں محاسبہ نہ ہوگا وہاں قانون کی عمل داری بھی نہیں ہوگی‘ البتہ محاسبے کے عمل میں ذاتی غصے اور مفاد کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
چیئرمین سے ایک سوال کہا جاتا ہے کہ ملک میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ تو کیا ماتحت عدلیہ اس آوے سے باہر ہے‘ چیئرمین نیب خود بھی سیشن جج رہے ہیں اس بارے میں ان کی رائے ہمارے لیے مقدم ہوگی۔ احتساب کے لیے آپ کوئی بھی ماڈل لے آئیں‘ ایک ماڈل ضرور اپنانا ہوگا کہ جب کہا گیا کہ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا‘ اس ماڈل کے مقابلے میں سعودی ماڈل یا غیر سعودی ماڈل کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس ماڈل میں جج اللہ کا نمائندہ بن کر انصاف کے لیے عدالت میں بیٹھتا ہے‘ ریمارکس دے کر ٹی وی چینل پر ٹکر چلنے کا انتظار نہیں کرتا‘ کسی جج اور کسی منصف کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے روبرو کسی بھی مقدمے کی سماعت کے دوران ذاتی خیالات اور ذاتی مفاد مد نظر رکھے اس ملک پر ایک پرویز مشرف بھی حکمران رہے ہیں جو پارلیمنٹ سے خطاب کے لیے جاتے ہوئے خوف زدہ تھے لیکن ڈی چوک میں مکے لہرا کر کہا کہ آج تم نے ہماری طاقت دیکھ لی‘ جب مکے لہرائے تو اس وقت ٹی وی چینلز پر کراچی کی سڑکوں پر بیالیس شہریوں کے لاشے تڑپ رہے تھے۔ چیئرمین نیب نے سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا کی صحت کا مذا ق اڑھانے کے ساتھ یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ثبوت ہونے کے باوجود وزیر دفاع کو دانستہ گرفتار نہیں کر رہے ہیں اور یہ بھی جانبداری کا واضح اعتراف نہیں ہے؟ یہ بھی کہا کہ آصف علی زرداری جس دن انکوائری کے لیے پیش ہوئے تھے ان کی ٹانگیں اور ہاتھ لرز رہے تھے‘ انہوں نے گرین ٹی کا کپ مانگا‘ ہمارے افسر نے پیش کر دیا‘ آصف علی زرداری نے کپ اٹھایا لیکن کپ ان کے ہاتھ میں لرز رہا تھا۔ وہ اپنا دوسرا ہاتھ کپ کے نیچے رکھنے پر مجبور ہو گئے‘ وہ بڑی مشکل سے دونوں ہاتھوں کے ساتھ گرین ٹی کا کپ ختم کر پائے‘ شاید فریال تالپور کو خاتون ہونے کی وجہ سے رعایت مل جائے لیکن آصف علی زرداری نہیں بچ سکیں گے پیپلزپارٹی کا یہ دعویٰ ہے کہ آصف علی زرداری کو ریشہ کی بیماری ہے، یہ بات کافی عرصے سے مشہور بھی ہے اور ملاقاتوں میں بھی ایسا محسوس ہوا ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ ’’کسی بیمار کی بیماری کو مذا ق بناکر اس کو خوف سے تعبیر کرنا کیا کسی منصف کو زیب دیتا ہے؟‘‘۔