فواد چودھری

468

قرآن مجید فرقانِ حمید میں آیا ہے کہ جانداروں میں سب سے بُری آواز گدھے کی ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کی کابینہ میں سب سے بُری آواز فواد چودھری کی ہے۔ وہ بولتے ہیں تو لگتا ہے بول نہیں رہے رینک رہے ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ گدھا خود نہیں رینکتا بلکہ شیطان اس کے کان اینٹھتا ہے تو وہ رینکنے لگتا ہے۔ معلوم نہیں فواد چودھری کے کان کون اینٹھتا ہے؟۔ عمران خان ملک کو خود کفیل بنانے کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں چناں چہ ممکن ہے کہ فواد چودھری رینکنے کے مکالمے میں خود کفیل ہوں۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ عمران خان نے ایک قادیانی کو اپنا اقتصادی مشیر مقرر کرلیا تھا۔ اس سلسلے میں فواد چودھری سب سے زیادہ متحرک تھے۔ وہ فرما رہے تھے کہ ملا، مولوی کچھ کرلیں قادیانی مشیر کی نامزدگی واپس نہیں ہوسکتی۔ مگر فواد چودھری کا رینکنا ان کے کام نہ آسکا اور عمران خان نے قوم کے جذبات و احساسات کے پیش نظر قادیانی مشیر کی نامزدگی واپس لے لی۔ ایک اسلامی معاشرے میں قادیانی کی حمایت اور سرپرستی معمولی بات نہیں۔ ایک قادیانی کی حمایت اور سرپرستی جھوٹے نبی کے جھوٹے امتی کی حمایت و سرپرستی ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں قادیانی کی حمایت و سرپرستی ختم نبوت کے تصور پر حملہ ہے۔ چناں چہ قادیانی کی حمایت اور سرپرستی کرنے والا اسلامی معاشرے میں عزت و توقیر کا مستحق نہیں۔ لیکن فواد چودھری کی گمراہی صرف ایک قادیانی کی سرعام حمایت اور سرپرستی سے متعلق نہیں۔
چند روز پیشتر وہ ایک بار پھر زور سے رینکے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ پہلے وہ وزیر اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے سمع خراش کرتے تھے اور اب وہ سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر کی حیثیت سے قوم کی سماعت پر حملہ کررہے ہیں۔ مگر فواد چودھری نے فرمایا کیا ہے؟۔
انہوں نے فرمایا بڑے علما پاکستان کے مخالف تھے، چناں چہ ملک چلانے کا معاملہ مولانا پر نہیں چھوڑ سکتے۔ آگے کا سفر مولویوں کا نہیں نوجوانوں کا ہے۔
(روزنامہ جنگ کراچی۔ 6 مئی 2019ء)
جیسا کہ ظاہر ہے فواد چودھری سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر ہیں مگر ان کے بیان کا مذکورہ بالا حصہ مذہب، تاریخ اور سیاست سے متعلق ہے، تو کیا فواد چودھری سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ مذہب، تاریخ اور سیاست کے بھی وزیر ہیں؟ بدقسمتی سے فواد چودھری جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کی الف ب سے واقف نہیں اسی طرح وہ مذہب، تاریخ اور سیاست کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے۔ فواد چودھری کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ برصغیر میں جتنی بڑی تحریکات چلی ہیں مذہب کی بنیاد پر چلی ہیں اور علما نے ان تحریکات میں مرکزی اور فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں سیکولر، لبرل، سوشلسٹوں یا نام نہاد جرنیلوں کی تحریک نہیں تھی۔ اس تحریک کی پشت پر اسلامی جذبہ کھڑا تھا اور اس تحریک میں سیکڑوں نہیں ہزاروں علما شہید ہوئے۔ جس وقت برصغیر کے علما یہ جنگ آزادی لڑ رہے تھے فواد چودھری کے بزرگ انگریزوں کے جوتے چاٹنے میں مصروف تھے۔ بالکل ٹھیک اسی طرح جس طرح آج پاکستان کا حکمران طبقہ امریکا اور یورپ کے جوتے چاٹنے میں لگا ہوا ہے۔ برصغیر کی ایک اور بڑی تحریک، تحریک خلافت تھی، یہ تحریک بھی اپنی اصل میں مذہبی تحریک تھی اور اس کی قیادت بھی علما کررہے تھے۔ خلافت تحریک کے وقت بھی فواد چودھری کے بزرگ انگریزوں کے دربار میں دربان کا کردار ادا کررہے تھے۔ تحریک موالات اور سید احمد شہید کی تحریک جہاد بھی اپنی اصل میں مذہبی تحریکیں تھیں اور ان تحریکوں میں بھی علما ہی قدم قدم پر دادِ شجاعت دے رہے تھے۔ ان تحریکوں میں بھی فواد چودھری کے بزرگوں میں سے کوئی بروئے کار نہ آسکا۔
بلاشبہ مولانا مدنی نے یہ کہا کہ قومیں مذہب سے نہیں بلکہ اوطان سے بنتی ہیں اور مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس ہی میں رہے مگر دیوبندی علما میں سے مولانا اشرف علی تھانوی اور شبیر احمد عثمانی جیسے علما نے کھل کر تحریک پاکستان کی پشت پناہی کی۔ تمام بڑے بریلوی علما بھی تحریک پاکستان میں شامل تھے۔ تصوف کے تمام اہم سلسلوں کے نمائندوں نے تحریک پاکستان میں کردار ادا کیا۔ مولانا مودودی کی تحریروں نے دو قومی نظریے کو فکری بنیادیں مہیا کیں۔ یہ کتنی عجیب بات تھی کہ پاکستان پنجاب، سندھ، بلوچستان، کے پی کے اور بنگال میں بن رہا تھا مگر تحریک پاکستان دلّی اور یوپی میں چل رہی تھی۔ اس لیے کہ تحریک پاکستان اپنی اصل میں دو قومی نظریے کا حاصل تھی اور دو قومی نظریہ اسلام کے سوا کچھ نہ تھا۔ کون نہیں جانتا کہ 1940ء کی دہائی میں علما ہی اسلام کے علم و عمل کا مظہر تھے۔ چناں چہ علما نہ ہوتے تو پاکستان بھی نہ ہوتا۔ البتہ تحریک پاکستان کے دوران فواد چودھری کے بزرگ حسب سابق اور حسب معمول انگریزوں کے تلوے چاٹ رہے تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 1946ء تک پنجاب یونینسٹ پارٹی کے قبضے میں تھا اور یونینسٹ پارٹی انگریزوں کی ایجنٹ اور کانگریس کی اتحادی تھی۔ مگر آج فواد چودھری پوری جہالت، پوری ڈھٹائی اور پوری بے شرمی کے ساتھ فرمارہے ہیں کہ بڑے علما پاکستان کے مخالف تھے اور آئندہ سفر کا تعین مولوی نہیں نوجوان کریں گے۔
خد کا شکر ہے کہ تحریک پاکستان میں جرنیلوں کا کوئی کردار نہ تھا اس لیے کہ اس وقت جرنیل موجود ہی نہ تھے مگر پاکستان بننے کے چند ہی سال بعد جرنیل پاکستان کے بانیوں سے بھی زیادہ اہم ہوگئے۔ چناں چہ جنرل ایوب کے دور میں مادر ملت فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا۔ بنگالی ملک کا 56 فی صد تھے مگر 1962ء تک انہیں فوج ہی میں نہ لیا گیا اور 1971ء میں جب ملک ٹوٹا تو فوج میں بنگالیوں کی موجودگی20 فی صد کے آس پاس تھی۔ امریکی سفارت خانے کی دستاویزات سے ثابت ہوچکا ہے کہ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں سے رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ملک تباہ نہیں کرنے دے گی۔ یہ پاکستان کو امریکا کی غلامی میں دینے کے عمل کا آغاز تھا۔ سیاست دانوں نے جرنیلوں کو امریکا کی چاکری کرتے دیکھا تو انہوں نے بھی یہی بہتر سمجھا کہ یا امریکا تیرا ہی آسرا کا نعرہ لگائیں۔ بدقسمتی سے ملک ٹوٹا تو ملک کا سربراہ کوئی سیاست دان نہیں تھا جنرل یحییٰ تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکا کے حوالے کردیا اور صرف فوج کو نہیں پوری قوم کو کرائے کی قوم بنادیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو فواد چودھری کو سارا زور بیان اس بات پر صرف کرنا چاہیے کہ جرنیلوں نے ملک و قوم کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور قیام پاکستان میں بھی ان کا کوئی کردار نہ تھا۔ چناں چہ آئندہ ملک نظریے کی بنیاد پر چلے گا جرنیلوں کی خواہشات کی بنیاد پر نہیں۔ مگر فواد چودھری خود یا کسی کے کہنے پر مذہب اور علما کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ عمران خان روحانیت کو سپر سائنس بنانے کا اعلان کررہے ہیں اور ان کا وزیر سائنس کو مذہب بنانے پر تلا ہوا ہے۔ چناں چہ وہ کہہ رہے ہیں کہ قمری کلینڈر بنا کر رویت ہلال کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے فواد چودھری نہ مذہب کو جانتے ہیں نہ سائنس کو۔
سائنس کو نہ جاننے کا ثبوت خود فواد چودھری کی صحت ہے۔ سائنس موٹاپے کو بڑی بڑی بیماریوں کا سبب قرار دیتی ہے۔ مثلاً سائنس کے مطابق موٹاپے سے انسان شوگر کا مریض بن سکتا ہے، موٹاپے سے ہائی بلڈ پریشر کی بیماری ہوسکتی ہے، ہائی بلڈ پریشر سے اکثر برین ہیمرج ہوجاتا ہے، موٹاپا انسان کو دل کے امراض میں مبتلا کردیتا ہے، موٹاپا زیادہ کھانے سے ہوتا ہے اور ہمارا مذہب بتاتا ہے کہ زیادہ کھانے سے انسان کی عمر کم ہوجاتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو فواد چودھری کا جسمانی وجود مذہبی اور سائنسی علم کی تردید اور تکذیب کا مظہر ہے۔ آخر جو شخص سائنس کے موٹے موٹے اصولوں کو اپنی ذات پر نافذ نہیں کرسکتا، اسے کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت پر قبضہ کرلے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا وزیر تو کسی اسمارٹ آدمی کو ہونا چاہیے، تمام بڑے علما کا اس امر پر اتفاق ہے کہ زیادہ کھانے والے غبی ہوتے ہیں۔ فواد چودھری اور ان کے بیانات اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہیں۔ یہ بات ایک غبی شخص ہی کہہ سکتا ہے کہ علما پاکستان کے مخالف تھے اور پاکستان کا آئندہ سفر مولویوی کا نہیں نوجوانوں کا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے ملک توڑنے والے تو ملک چلائیں اور ملک بنانے والے اور ملک بچانے والے ملک نہ چلائیں۔ واہ فواد چودھری واہ۔