آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد

آٹھ نو مہینے کی بے یقینی اور گومگوں کی صورت حال کے بعد حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ ساڑھے چھ ارب ڈالر کے قرضے کے لیے معاہدہ کر لیا ہے جس کا مقصد کرنٹ اکائونٹ خسارہ اور عدم توازن جو بین الاقوامی ادائیگیوں میں موجود ہے اسے بہتر کیا جانا ہے۔ یہ معاہدہ ابھی نچلی سطح کے آئی ایم ایف کے افسران ساتھ کیا گیا ہے ماہ جون کے اوائل میں اسے ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے پیش کیا جائے جس کی منظوری کے بعد پاکستان کو اس کی پہلی قسط مل سکے گی جبکہ پوری رقم تین سال کے عرصے میں قسطوں کی شکل میں دی جائے گی اور ہر قسط سے پہلے آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آکر معاہدے کی شرائط کی تکمیل کا جائزہ لے گا۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کی شکل میں پاکستان کو ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک سے بھی تین چار ارب ڈالر مزید مل سکیں گے۔
جہاں تک شرائط کا تعلق ہے تو اس میں پہلی تویہ کہ بجٹ خسارہ کم کیا جائے؟ اس وقت صرف نو ماہ میں 19 کھرب 22 ارب ہو ہے جو جی ڈی پی کا 5 فی صد ہے اور سال 2018-19 کے آخر تک جی ڈی پی کے 7 فی صد ہو جانے کی توقع کی جاری ہے اس سلسلے میں شرائط کے مطابق پاکستان کو 450 ارب روپے مزید ٹیکس لگانا ہوں گے اور 700 ارب روپے کی سبسڈیز اور رعایتوں کو ختم کرنا ہوگا۔ ترقیاتی اخراجات میں کمی کرنا ہو گی 1400 ارب روپے کے گردشی قرضوں کو ختم کرنا ہو گا۔ نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کرنا ہو گی۔ اس طرح روپے اور ڈالر کی قدر کو مارکیٹ میں آزادانہ چھوڑنا اور شرح سود میں اضافہ کرنا شرائط میں شامل ہے۔
آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کے بعد حکومت نے شرائط پر عمل درآمد کرنا شروع کررہا ہے ۔ مثلاًڈالر کی پاکستانی روپے جس شرح مبادلہ کو آزادانہ چھوڑ دیا ہے اس سے کرنسی ڈھیروں، بینک کے افسران اور مخصوص گروپوں نے مل کر ڈالر کی طلب میں بے تحاشا اضافہ کر دیا جس کے نتیجے میں ڈالر 152 روپے کا ہو گیا اس طرح صرف چند دنوں میں ڈالر 134 روپے سے 152 روپے تک پہنچ گیا اور روپے کی قدر میں 22 فی صد کمی ہو گئی اس سے غیر ملکی قرضوں میں پاکستان کرنسی کے حساب سے 60 فی صد اضافہ ہو گیا۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار جس کا حجم امریکی ڈالر میں 315 ارب ڈالر تھا وہ کم ہو کر 285 ارب ڈالر ہو گیا۔ فی کس آمدن 1652 ڈالر سے 1516 ڈالر ہو گئی۔ یعنی سال 2018-19 میں فی کس آمدنی بجائے اضافے کے کم ہو گئی۔
زراعت، صنعت اور تعمیراتی شعبے جو ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان کی کار کردگی خراب رہی۔ جس کی وجہ سے جی ڈی پی کی شرح نمودو فی صد کم ہو کر 3.5 سے 4 فی صد تک بڑھ گئی۔ اس کمی کی وجہ سے ماہرین معیشت کے مطابق 30 لاکھ افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح غیر ملکی سرمایہ کاری میں 50 فی صد کمی آئی ملکی سرمایہ کاری بھی کم رہی چناں چہ نئے روزگار کے مواقع ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ کا انڈکس 54000سے گر 33000 تک آگیا تھا اب حکومت کے اقدامات کرنے پر بہتر ہو رہا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے بھی شرح سود میں 150 پوائنٹ اضافہ کرکے 12.25 فی صد کر دیا ہے اس سے بھی نجی شعبہ اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے قرضہ نہیں لے سکے گا۔ چناں چہ معاشی سرگرمیاں مزید سکڑ جائیں گی۔ اسی کے ساتھ اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں مہنگائی میں دگنا اضافہ ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
مزید یہ کہ پاکستانی سمندروں میں کیکڑا ون میں تیل و گیس کی تلاش کا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے اور اس منصوبے پر لگنے والے 100 ملین ڈالر ڈوب گئے ہیں اس معاملے پر طرح طرح کی سازشی تھیوریاں گشت کر رہی ہیں مگر اس شعبے کے ماہرین کے نزدیک اس طرح کے منصوبوں میں ناکام ہونے کی شرح کافی زیادہ ہوتی ہے البتہ قوم کو عمران خان صاحب جو خوشخبری دینے والے تھے وہ نہ دے سکے۔ البتہ آئندہ چل کر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی خوشخبری عوام کو ملے گی تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں جب پاکستانی قوم ویسے ہی مہنگائی اور بے روزگاری کے چنگل میں پھنسی ہوگی اس میں مزید بجلی اور گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے کیا حال ہو گا ایسے میں غریب اور بے بس عوام کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
اس صورت حال میں مختلف حلقوں سے بجا طور پر یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ اشرافیہ کا طبقہ جو صوبائی اور قومی اسمبلیوں اور سینیٹ میں بیٹھا ہوا ہے اور ان کی بڑی تعداد ٹیکس کے گوشوارے تک جمع نہیں کراتی اور بے تحاشا مراعات سے فائدہ اٹھاتی ہے، حکومت ان پر نظر ڈالے اور ان سے ٹیکس وصول کرے اور ان کی مراعات میں کمی کرے۔ شاید اسی طرح عوام کی تسلی کا کچھ سامن ہو سکے گا ورنہ اب تک تحریک انصاف کی حکومت نے لوگوں کی تکالیف میں اضافہ کرنے کے سوا کیا کیا ہے۔