غامدی صاحب‘ جنسی تعلیم اور طلاقوں کی شرح

563

جاوید احمد غامدی صاحب کو انسانوں کی جنسی زندگی سے گہری دلچسپی ہے۔ اس دلچسپی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ کئی سال پہلے انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر ایک طویل مضمون پوسٹ کیا تھا۔ اس مضمون میں انہوں نے ہم جنس پرستی کا کھل کر دفاع کیا تھا۔ ان کے مضمون کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ہم جنس پرستی کوئی گناہ وغیرہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسا جنسی رجحان ہے جو انسانی فطرت میں موجود ہے۔ چناں چہ ہمیں فطرت کے ’’تقاضے‘‘ کو سمجھتے ہوئے ہم جنس پرستی کو قبول کرلینا چاہیے۔ ہم نے اس مضمون کے خلاف اپنے کالم میں صدائے احتجاج بلند کی تو غامدی صاحب کے کئی متاثرین ہمارے غریب خانے پر تشریف لائے۔ ہم یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ ان میں دو تین لوگ جمعیت کے سابقین بھی تھے۔ وہ غامدی صاحب کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ مگر کوئی ایک معقول بات نہ کہہ سکے۔
خیر یہ تو ماضی کا قصہ تھا۔ غامدی صاحب کی تازہ ترین واردات یہ ہے کہ ان کے فیس بک پیج پر ان کی ایک تقریر سامنے آئی ہے۔ اس تقریر میں غامدی صاحب نے کیا فرمایا ہے ملاحظہ کیجیے۔
سوال:۔ مغرب میں بھی اور ہندوستان پاکستان میں بھی طلاقیں بہت ہورہی ہیں۔ شادیاں ناکام ہورہی ہیں۔ آپ ان کو کیا مشورہ دیں گے کہ چیزیں بہتر ہوجائیں اور ہمارا معاشرہ فساد سے بچ سکے۔
جواب:۔معلوم ہے کہ مغرب میں بھی یہ تحریک چل رہی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی بہت، میں جہاں رہتا ہوں (یعنی ملائیشیا) وہاں بھی ہے کہ بچوں کو Sex Education دی جائے۔ اس کے بہت سے وجوہ بیان کیے جاتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کوئی نئی چیز نہیں۔ جہاں تک ہماری پرانی تعلیم کا تعلق ہے، میں نے کیوں کہ دونوں نظاموں میں تعلیم پائی ہے تو ہماری پرانی تعلیم میں Sex Education بہت بچپن میں ہوجاتی ہے۔ جو ابتدائی کتابیں ہمیں پڑھائی جاتی تھیں ان میں سعدی کا ’’کریم‘‘ تھا۔ دوسری کتاب ’’نام حق‘‘ تھی اس میں وہ ساری چیزیں بیان کی گئی تھیں جس کے ایک حصے کو آپ Sex Education کہتے ہیں۔ تو جب بچے اس عمر کو پہنچ رہے ہوں کہ ان کو شادی کرنی یا اپنے ’’ور‘‘ کا انتخاب کرنا ہو تو ان کو یہ بتانا چاہیے کہ شادی کیا ہے؟ آپ ان کو بتائیں کہ آپ کیا کرنے جارہے ہیں۔ لڑکے کو بھی اور لڑکی کو بھی۔ انہیں بتایا جانا چاہیے کہ آپ خدا کی اسکیم کا حصہ بننے جارہے ہیں۔ ایک سنجیدہ معاہدہ کررہے ہیں۔ ایک ادارہ وجود میں لایا جارہا ہے۔ بہت طلاقیں ہورہی ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ Educate کیجیے، اپنے بچوں کو بتائیے شادی محض جنسی تعلق کو قانون کے دائرے میں لانے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ادارے اور ایک خاندان کو وجود میں لانے کا نام ہے‘‘۔
آپ نے سوال اور غامدی صاحب کا جواب ملاحظہ فرمایا۔ بلاشبہ ہمارے معاشرے میں طلاقتوں کی شرح بڑھ رہی ہے مگر غامدی صاحب نے اس مسئلے کو جس طرح دیکھا اور بیان کیا ہے وہ حیران کن ہے۔
غامدی صاحب ویسے تو روایتی مذہب اور مذہب کی روایتی تعبیر کے سخت خلاف ہیں اور انہیں ان دونوں دائروں میں جدیدیت کا مرض لاحق ہے مگر انہیں جنس پر گفتگو کرتے ہوئے ’’نام حق‘‘ بہت زور سے یاد آئی ہے۔ ہمیں مذہبی لٹریچر پڑھتے ہوئے چالیس سال ہوگئے ہیں۔ ہم نے سعدی کی گلستان اور بوستان کا ذکر بھی سنا ہے اور کریم کا تذکرہ بھی ہماری نظر سے گزرا ہے مگر ’’نام حق‘‘ کا حوالہ ہم نے کہیں نہیں پڑھا، لیکن غامدی صاحب نے اس کا ذکر کیا ہے تو یہ کتاب یقینا موجود ہوگی مگر اس کتاب کا ہماری مذہبی تعلیم کے مرکزی دھارے سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ ہوتا تو اس کا ذکر مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے دوسرے لوگ بھی کرتے۔ یہ تو ایک بات ہوئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ غامدی صاحب نے مغرب کی ’’جنسی تعلیم‘‘ اور اسلامی معاشرے میں ’’جنسی تعلیم‘‘ کے تصور کو اس طرح بیان کیا ہے کہ جیسے یہ ایک ہی چیز کے دو مختلف نام ہوں۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں جنسی زندگی کا ایک اہم جزو ہے بجائے خود پوری زندگی نہیں ہے۔ اس کے برعکس جدید مغرب میں جنسی زندگی کا مرکز ہے، زندگی کا محور ہے اور انسان کی پوری زندگی جنس میں ڈوبی ہوئی ہے۔ چناں چہ مغرب کی جنسی تعلیم کچھ اور ہے اور اسلامی معاشرے کی جنسی تعلیم کچھ اور ہے۔
ہم علم اور مشاہدات کی بنیاد پر جانتے ہیں کہ طلاق کی ایک وجہ جنسی عدم مطابقت یا Sextual IncomPatibility بھی ہوتی ہے اور ہوسکتی ہے، لیکن جو شخص یہ کہتا ہے کہ طلاقوں کی شرح جنسی تعلیم کی عدم موجودگی کی وجہ سے بڑھ رہی ہے وہ یا تو احمق اور جاہل ہے یا مغرب کا ایجنٹ۔ مسلم معاشروں میں طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح کے کئی اسباب ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ مسلمان کی زندگی Theory کی سطح پر خدا مرکز اور عمل کی سطح پر رسولؐ مرکز ہوتی ہے مگر اب کسی کی زندگی نہ خدا مرکز ہے نہ رسولؐ مرکز۔ چوں کہ ہمارے دو بنیادی تعلق ہی کمزور ہوگئے ہیں، اس لیے اس کا اثر انسانی رشتوں پر بھی پڑ رہا ہے اور وہ بھی کمزور ہورہے ہیں۔ جو شخص خدا اور رسولؐ سے محبت کرتا ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنی بیوی یا شوہر سے محبت نہ کرے۔ جیسا کہ ظاہر فساد صرف اور شوہر اور بیوی کے تعلق میں برپا نہیں ہورہا بلکہ والدین اور بچوں کے تعلقات بھی خراب ہوچکے ہیں۔ والدین بچوں کو اور بچے والدین کو ’’ترک‘‘ کررہے ہیں۔ طلاق بھی تو ایک طرح کا ’’ترک‘‘ ہی ہے۔
طلاقوں کی شرح کی بلندی کا ایک سبب یہ ہے کہ ہماری زندگی دولت مرکز ہوگئی ہے۔ چناں چہ شادی کے ادارے پر اب دین، محبت، شرافت اور نجابت کا سایہ نہیں ہوتا بلکہ دولت کا سایہ ہوتا ہے اور ’’صرف دولت‘‘ شوہر اور بیوی کے تعلق کو جتنا مضبوط، گہرا اور خوبصورت بناسکتی ہے وہ ظاہر ہے۔ معاشیات نے معاشرے میں ایک گہری ’’طبقاتی نفسیات‘‘ کو جنم دیا ہے۔ یہ نفسیات جنس کیا مذہب سے بھی زیادہ طاقت ور ہوگئی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ طلاقوں کی شرح میں اضافے کا ایک سبب طبقاتی فکر اور طبقاتی نفسیات بھی ہے۔
بدقسمتی سے اب محبت کی شادیاں ناکام ہورہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ ہے رومانس میں ہمیشہ ہی سے ایک ’’تصور پرستی‘‘ موجود تھی مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے یہ تصور پرستی بھی سرسری، سطحی اور سجلجی ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہماری نئی نسل فلموں اور ڈراموں سے ’’درس محبت‘‘ لے رہی ہے۔ فلموں کا قصہ بھی یہی ہے کہ 1970ء کی دہائی کی فلموں اور 2019ء کی فلموں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک بار ایک انڈین فلم ڈائریکٹر سے کسی نے کہا کہ آپ بھارتی فلم Motler India کا Remake کیوں نہیں بناتے۔ ڈائریکٹر نے کہا فلم تو میں بنادوں مگر مدر انڈیا کے اداکاروں کے چہروں پر جو ’’کلچر‘‘ تھا وہ کلچر میں اب کہاں سے لائوں گا۔ یہ بات کہنے والا انڈین ڈائریکٹر دراصل یہ کہہ رہا تھا کہ اب اداکاروں کے چہرے پر کوئی پختگی، کوئی گہرائی نہیں ہوتی۔ یعنی ان کے چہرے Cultur-less ہوتے ہیں۔ چناں چہ ایسے اداکاروں کی فلمیں جیسی محبت ہماری نئی نسل کو سکھا رہی ہوں گی وہ ظاہر ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ محبت کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ محبت ’’اندھی‘‘ ہوتی ہے۔ یعنی محبت ذات برادری یا سماجی و معاشی پس منظر نہیں دیکھتی بس اسے جہاں ہونا ہوتا ہے ہوجاتی ہے۔ مگر ہماری نئی نسل میں عام طور پر جو محبت پیدا ہوتی ہے اس کی دو نہیں چار آنکھیں ہوتی ہیں۔ یہ محبت سماجیات بھی دیکھتی ہے اور معاشیات بھی۔ ظاہر ہے کہ ایسی محبت پائیدار نہیں ہوسکتی۔
فلموں اور ڈراموں کے زیر اثر لڑکوں میں لڑ کی کا جو ’’نمونہ‘‘مقبول ہے وہ یہ ہے کہ بیوی کو اداکارہ یا ماڈل گرل کی طرح خوبصورت ہونا چاہیے۔ خواہ اس میں کوئی اور خوبی ہو یا نہ ہو۔ لڑکیوں میں لڑکے کا جو نمونہ مقبول ہے وہ یہ ہے کہ لڑکے کے پاس کچھ ہو یا نہ ہو اس کی جیب کو ’’صحت مند‘‘ بلکہ ’’موٹا تازہ‘‘ ہونا چاہیے۔ ایک زمانہ تھا کہ اداکارائیں اپنے انٹرویوز میں فخر کے ساتھ کہا کرتی تھیں کہ ہمیں کھانا تو کیا انڈا بنانا بھی نہیں آتا۔ اب یہ بات بالائی طبقے کی لڑکیاں کیا متوسط طبقے کی لڑکیاں بھی فخر کے ساتھ کہتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس ذہنی اور نفسیاتی سانچے کے نوجوان اچھے ’’شریک رات‘‘ تو ہوسکتے ہیں ’’شریک حیات‘‘ نہیں ہوسکتے۔ محبت کا اصل تشخص ’’دینا‘‘ ہے۔ مگر نئی نسل کے لوگوں کی اکثریت ’’دینے‘‘ سے زیادہ ’’لینے‘‘ پر ایمان رکھتی ہے۔
محبت کرنے والے کے لیے ’’دوسرا‘‘ اہم ہوتا ہے مگر ہماری نئی نسل اپنی شخصیت کی محبت میں مبتلا ہوتی ہے اور اس کے لیے اپنی ذات دوسرے سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ اس صورتِ حال نے محبت کی شادیوں کو ایک دھوکا بنادیا ہے۔ چناں چہ محبت کی شادیاں بھی ناکام ہو کر طلاقوں کی شرح میں اضافہ کررہی ہیں۔
چلیے مسلم معاشروں میں جنسی تعلیم کا کال پڑا ہوا ہے۔ اس لیے طلاقوں کی شرح بڑھ رہی ہے مگر مغرب میں تو جنسی انقلاب کو آئے ایک صدی ہوچکی ہے، وہاں تو اسکول سے کالج تک جنسی تعلیم کا راج ہے مگر مغربی معاشروں میں طلاقوں کی شرح مسلم معاشروں سے بھی زیادہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنسی تعلیم شادی کے سلسلے میں بہت بڑے عنصر کی حیثیت نہیں رکھتی۔ غامدی صاحب چوں کہ پاکستانی معاشرے کو مغرب کے ایجنٹ کے مطابق مرتب کرنا چاہتے ہیں اس لیے وہ جنسی تعلیم، جنسی تعلیم کا شور مچارہے ہیں۔ ورنہ مغرب کے آزاد معاشرے شادی کے ادارے کے استحکام کے حوالے سے بہت قابل رحم حالت میں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں نہ جنس کا کوئی مذہب ہے، نہ اس کی کوئی اخلاقیات ہے، نہ اس کی کوئی سماجیات ہے، نہ اس کا جذبات و احساسات سے کوئی تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں شادی طلاق حاصل کرنے کا بہانہ بن کر رہ گئی ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو مغرب میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ایک ’’جنسی شے‘‘ بن کر رہ گئے ہیں۔ بظاہر دیکھا جائے تو مغرب جنس کا عالم بنا ہوا ہے لیکن چوں کہ اس نے جنس کو مذہبی، اخلاق، تہذیب نفس، تعلق، جذبات و احساسات سے الگ کردیا ہے اس لیے مغرب کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ مغرب جنس کی الف، ب بھی نہیں جانتا۔ رسول اکرمؐ کے نے فرمایا ہے کہ نکاح نصف دین ہے۔ مرد اور عورت کے تعلق کے بارے میں مغرب کے انسائیکلوپیڈیاز بھی رسول اکرمؐ کے اس قول کی بصیرت سے کم ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں جنسی تعلیم کا اہتمام نہیں ہونا چاہیے؟۔
اس وقت ہمارے معاشروں میں زوجین کے تعلقات جس بحران میں مبتلا ہیں اس کا ایک تقاضا یہ ہے کہ ہم ایک ایسا ادارہ قائم کریں جو شادی سے پہلے ممکنہ دلہا اور دلہن کو قرآن و سنت کی روشنی میں شادی اور خاندان کے ادارے کی اہمیت اور معنویت پر دس سے پندرہ دن تک کا کورس کرائے۔ ایسے کسی بندوبست کے بغیر طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح کے سیلاب کے آگے بند نہیں باندھا جاسکے گا۔