ڈالرز کا بائیکاٹ ناگزیر ہے

256

ملک کی معاشی خصوصاً امریکن ڈالر کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے پیدا ہونے والی صورتحال پر کسی سیاسی رہنما، کسی بزنس مین اور کسی دانشور نے قوم کی رہنمائی کی ہو یا نہ کی ہو لیکن خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ شریعت عدالت کے سابق جسٹس جناب مفتی تقی عثمانی نے بیان دے کر قوم کی رہنمائی کردی۔ مفتی تقی عثمانی کا کہنا ہے موجودہ صورت حال میں نفع کمانے کے لیے ڈالر خریدنا ملک کے ساتھ بے وفائی اور ذخیرہ اندوزی کی بنا پر گناہ ہے۔ سب کی سمجھ میں آرہا ہے کہ عالمی سازش کے تحت پاکستان کو مشکلات سے دوچار کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری بڑی سیاسی جماعتیں اور حکومت مخالف چمپئن سیاستدان اس سازش میں بین الاقوامی عناصر کا ساتھ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ لوگوں کی رہنمائی کے بجائے ڈالرز مہنگا کرنے اور اس کا جواز پیدا کرنے والوں کے ساتھ نظر آرہی ہے۔ یہ عام بات ہے کہ جب کسی بھی شے کی طلب بڑھ جاتی ہے تو اس کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان کی بدقسمتی ہے کہ وہ بین الاقوامی سازش کا علم رکھنے کے باوجود بچاؤ کے لیے ہنگامی اقدامات نہیں کرسکے بلکہ نہ چاہتے ہوئے بھی عالمی قوتوں خصوصاً آئی ایم ایف کے دباؤ میں آگئے۔ عمران خان اور ان کی سیاسی حکمت عملی سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ وہ جلد ہی گھبراہٹ کا شکار ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں انہیں اپنی پارٹی کے وزارت خزانہ اسد عمر کو ہٹا کر عالمی اداروں کے چہیتے عبدالحفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنادیا۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر کو تبدیل کرکے امپورٹڈ شخصیت کو گورنر بنادیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ فیڈرل بیورو آف ریونیو کے چیئرمین کو بھی تبدیل کیا گیا۔ ملک کے معاشی نظام کو عالمی اسکرپٹ کے مطابق جکڑ نے کے لیے انتہائی قابل اور ایماندار افسر یونس ڈھاگا جو سیکرٹری خزانہ کے عہدے پر خالصتاً ملک کے مفاد میں کام کررہے تھے ہٹادیا گیا۔ حکومت کے ان اقدامات سے یقین کی حد تک شبہ ہورہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت غلط راستے پر گامزن ہوچکی ہے۔ جس سے ملک کو ناتلافی نقصان ہوسکتا ہے۔
ایسے حالات میں ملک کے سیاستدان خصوصاً اپوزیشن کے اراکین حکومت کی رہنمائی کرنے کے بجائے اس کی ناکامی پر ’’بغلیں بجانا‘‘ چاہتے ہیں۔ تاکہ وہ کہہ سکیں کہ ’’ان کے خدشات کے مطابق کھلاڑی حکومت چلانے میں ناکام ہوگئے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ملک کو ایمانداری اور دیانتداری سے چلانے کی کوشش کرے گا تو گدھ کی طرح نظریں جمائے عالمی اور اسلام دشمن قوتیں یکجا ہوکر مقامی کرپٹ سیاسی عناصر سے مل کر اسے ناکام بنادیں گے۔ ان قوتوں کا مقصد اسلام کے نام پر 27 رمضان المبارک کو قائم ہونے والے اس پاکستان کو نقصان در نقصان پہنچانا اور غیر مسلموں کا محتاج بنانا ہے۔ اس لیے جو بھی نیک نیتی کے ساتھ ملک کے لیے کام کرتا ہے اسے ہٹادیا جاتا ہے یا اس کو کام کرنے ہی نہیں دیا جاتا۔ عالمی ادارے کرپٹ حکومتوں کے ساتھ تعاون اس لیے کرتی آئی ہیں کہ وہ بھاری قرضے لیکر 60 فی صد عیاشیوں میں اڑا دیا کرتی ہیں نتیجے میں انہیں مزید قرضے لینا پڑتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ آئی ایم ایف پاکستان کے لیے ایک ایسا ’’بنیا‘‘ بن چکا ہے جو قرضے دے کر ملک پر احسان سے زیادہ اپنا کاروبار کو تقویت دے رہا ہے۔
پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل اور امریکی ڈالرز کی لالچ سے کوئی حکومت بغیر قوم کے عملی تعاون کے نجات نہیں دلاسکتی۔ اس مقصد کے لیے صرف قوم کو نہیں بلکہ پہلے حکمرانوں کو کڑوے گھونٹ پینے ہوںگے۔ پہلے حکومت سے وابستہ وزیراعظم سمیت تمام وزراء اور دیگر شخصیات کی تنخواہوں اور مراعات میں فوری طور پر 50 فی صد کمی کرنا ہوگی۔ جب ایسا کیا جائے گا تو قوم حکمرانوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی لوگوں کو مساجد اور محلوں کی سطح پر یہ بتانا ہوگا کہ ملک کو قرضوں سے نجات دلانے کے لیے امریکی ڈالر سے منہ موڑنا ہوگا اور اس کا بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی قوم کو ملکی کرنسی کی افادیت میں اضافے کے لیے ملکی مصنوعات کو ترجیحی بنیادوں پر خریدنے کی جانب راغب کرنا ہوگا۔ جس طرح مفتی تقی عثمانی صاحب نے ڈالرز کی خرید روکنے کے لیے بیان دیا ہے اسی طرح کے بیانات دینے اور اقدامات کرنے چاہیے۔ حکومت کو مقامی مصنوعات اور مختلف پروڈکٹ کے فروغ کے لیے ماہرین پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دے کر ان کی سفارشات کی روشنی میں اقدامات کرنے ہوںگے۔ ان اقدامات کے ساتھ کرپٹ سیاستدانوں سمیت تمام پاکستانیوں کے بیرون ممالک میں موجود اثاثوں اور بینک اکائونٹس میں جمع شدہ رقوم کو واپس لانے کے لیے بے دردانہ کارروائی کرنی چاہیے۔ یہی نہیں پاکستان میں ڈالرز اکائونٹس رکھنے والوں اور ڈالرز کا ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف بھی جنگی کارروائی کی جانی چاہیے۔ حکومت کو 3 ہزار سے زائد ڈالر گھروں میں رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے قانون بنانا چاہیے۔ یہ وہ اقدامات ہوںگے جنہیں فوج کی مدد سے حکومت کرسکتی ہے جب ایسی سخت کارروائیاں کی جائیں گی تو ملک کا نظام ہی نہیں ملک بھی ترقی کی طرف گامزن ہونے لگے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کون اور کون سی حکومت کرے گی۔ یاد رہے کہ ترکی اپنی کرنسی کی اہمیت اس وقت ہی بڑھ سکی تھی جب وہاں ڈالرز کا بائیکاٹ کیا گیا۔ آج ترکی قوم کے تعاون سے عالمی بینک کو قرض دینے کے قابل ہوچکا ہے۔