ربا اور حکمرانوں کے سوالات

218

وفاق پاکستان کی بڑی مہربانی ہے کہ اس نے وفاقی شریعت کورٹ میں جواب داخل کیا ہے کہ شریعت کورٹ آئین پاکستان کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لے سکتی ہے۔ اگر وفاق یہ بیان نہ بھی دیتا تو کیا وفاقی شریعت کورٹ کو یہ اختیار نہیں تھا؟ عدالت نے تو اتمام حجت کے لیے یہ سوال پوچھا تھا کہ یہ معاملہ ربا کا ہے اور سود ہماری حکومتوں کے رگ و پے میں اس طرح رچ بس گیا ہے کہ اس کے خاتمے کا سوچنا تو درکنار اس کی مخالفت پر بھی برہم ہوجاتے ہیں۔ برسوں قبل اسلامی نظریاتی کونسل، شریعت عدالت پھر عدالت عظمیٰ سود کی حرمت کے حوالے سے فیصلے دے چکے اور حکومت پاکستان کو ہدایت کی جاچکی کہ سودی نظام ختم کیا جائے۔ اس مقدمے کی سماعت تو فی الحال غیر معینہ عرصے کے لیے ملتوی ہے لیکن یہ جواب شریعت عدالت کے چیف جسٹس کی ہدایت ہی پر جمع کرایا گیا ہے۔ گزشتہ سماعت کے موقع پر اسٹیٹ بینک کے مشیر سلمان اکرم راجا نے خوب بات کہی تھی۔ انہوں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ربا کو ختم کرنے کے معاملات آئینی ہیں۔ سلمان اکرم راجا کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ آئینی معاملے سے زیادہ شرعی معاملہ ہے۔ اللہ نے حکمرانوں کو حکم دیا ہے کہ کتاب کے مطابق فیصلے کریں اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ان کو فاسق، کافر اور ظالم قرار دیا ہے۔ اس کے لیے کسی آئینی شق کی ضرورت نہیں لیکن پھر بھی آئین کا ابتدائیہ یہ کہتا ہے کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بن سکتا، اتنی موٹی سی بات موٹی عقل والوں کی عقل میں نہیں آتی، جب ہی تو عدلیہ کے بڑے سے لے کر حکومت کے چھوٹے تک سب یہی پوچھ رہے ہوتے ہیں جو کفار قریش پوچھا کرتے تھے کہ منافع اور سود میں کیا فرق ہے۔ اس کا جواب بھی قرآن میں آچکا ہے کہ سود کو اللہ نے حرام اور سودے کو جائز قرار دیا ہے۔ بات نہ ماننے والوں کو چیلنج دیا ہے کہ اگر نہ مانو گے تو اللہ اور رسولؐ سے جنگ کے لیے تیار رہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم طویل عرصے سے حالت جنگ میں ہیں۔ اس لیے مسلسل ذلت و رسوائی کا شکار ہیں۔
ہم سودی معیشت کو مستحکم کررہے ہیں، کوئی 70 بجٹ تو بنا چکے ہیں، قرضے ہی قرضے لیتے رہے ہیں، لیکن معیشت ہے کہ بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے، اس کی وجہ یہی سود ہے۔ وفاق نے جو جواب داخل کرایا ہے پتا نہیں اس کا اسٹیٹ بینک کے نئے گورنر کو علم ہے یا نہیں، کیوں کہ اب تو اللہ اور رسولؐ سے جنگ کرنے والے پاکستان کی معاشی ٹیم بلکہ معیشت کے ہر شعبے میں گھس گئے ہیں۔ ایک دن بورڈ آف انویسٹمنٹ سرمایہ کاری بورڈ کے سربراہ کو فارغ کیا گیا اگلے دن سیکرٹری خزانہ یونس ڈھاگا کا پتا صاف کیا گیا۔ اسٹیٹ بینک، مشیر خزانہ، ایف بی آر سب کچھ پہلے ہی سودی نظام کے علمبرداروں کے ہاتھ آچکا ہے لیکن پھر بھی خوف ہے کہ کہیں کوئی سود کے خلاف کام نہ دکھا دے۔ حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ سودی قرضوں اور سودی نظام پر تو فتوے لیتے نہیں، ڈالروں کو لگنے والے پَر قینچنے میں ناکامی پر فتویٰ لے لیا کہ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی غلط ہے۔ بالکل درست فتویٰ ہے اور ایسے اقدامات نہیں کرنے چاہئیں۔ لیکن ہمارے حکمران اپنی رٹ کی بے حرمتی پر اس قدر چراغ پا ہیں کہ کچھ سمجھ میں بھی نہیں آرہا کہ کریں کیا۔ کبھی ملک دشمن کبھی غیر شرعی۔ لیکن حکومت پاکستان کو چاہیے کہ علمائے کرام سے سودی نظام، سودی قرضے لینے اور ان کا سود ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لینے کے بارے ہی میں فتویٰ لے۔ یقینی طور پر ہمارے علمائے کرام اس حوالے سے بھی فتویٰ دیں گے اور جسٹس تقی عثمانی تو اس حوالے سے فتویٰ بھی اور فیصلہ بھی دے چکے ہیں۔ ہمارے نوآموز صحافیوں اور بعض جذباتی لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ سوال اُٹھانے پر بے سوچے سمجھے سوال اٹھانے والے پر پل پڑے، حالاں کہ سوال یوں بھی کیا جاسکتا تھا کہ حکومت کو اس پر بھی فتویٰ لینا چاہیے۔ یہ بے چارے صحافی اپنی دانست میں علما کی حمایت کررہے تھے لیکن ان کے جملے اور انداز سودی نظام اور سودی قرضوں کی حمایت میں نظر آرہے تھے۔ حیرت ہے سود کے خلاف فتویٰ مانگنے پر علما کی توہین کیسے ہوجائے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ علما ایک بار پھر سود کی حرمت ہی کا فتویٰ دیں گے۔ اصل بات تو وفاقی حکومت ہے بلکہ پاکستانی حکومتوں کا عمومی رویہ یہی رہا ہے کہ سودی نظام کو سب ہی جاری رکھنا چاہتے تھے۔ موجودہ حکمران تو ویسے بھی ہر طرح سے کورے ہیں انہیںصرف حکومت بچانی ہے اور نواز، زرداری کے خلاف مہم چلانی ہے باقی کام تو آئی ایم ایف اور بین الاقوامی ادارے کر ہی رہے ہیں۔
شاید عدالت عظمیٰ نے یہ سوال اسی تناظر میں کیا ہے کہ ملک کے کیا حالات ہوگئے ہیں، قانون نام کی کوئی چیز ہے یا نہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ قانون نام کی کوئی چیز واقعی نہیں ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہے، جس کے پاس زیادہ مضبوط اور بڑی لاٹھی ہے اس کے پاس زیادہ بھینسیں ہیں۔ عدالت کا بھی حال یہی ہے ورنہ لوگوں کو انصاف مل رہا ہوتا۔ عسکری قیادت کا حکم حرف آخر، چیف جسٹس کا حکم حرف آخر، چیف منسٹر کا حکم حرف آخر، چیئرمین نیب کا حکم حرف آخر، چیئرمین ایف بی آر کا حکم حرف آخر۔ بس اللہ اور رسول کا حکم حکم ثانی بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اپنے اپنے لیڈر کی توہین پر پاگل ہوجاتے ہیں اور آقائے دو جہاں کی توہین کرنے والی ملعونہ کو عزت کے ساتھ ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں۔