ہندوستان میں ہندوتوا کا راج جاری رہے گا؟

216

نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیا جنتا پارٹی نے بھاری اکثریت سے ہندوستان کی لوک سبھا کے انتخابات جیت لیے ہیں۔ ان انتخابات میں بھارتیا جنتا پارٹی کو پچھلے عام انتخابات سے بھی کہیں زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک غیر کانگریس پارٹی کو اتنی بھاری اکثریت سے انتخابی فتح حاصل ہوئی ہے جو ہندوستان کے مستقبل کے لیے بے حد اہم قرار دی جارہی ہے۔ یہ انتخابی جیت دراصل اُس کٹر ہندو قوم پرستی، ہندوتوا کی جیت ہے جسے نریندر مودی نے پچھلے پانچ سال کے دوران فروغ دیا ہے اور دوسرے معنوں میں یہ شکست ہے ہندوستان میں سیکولرزم اور اس کی علم بر دار کانگریس پارٹی اور کمیونسٹوں کے زیر قیادت بائیں بازو کی قوتوں کی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کانگریس پارٹی نے بھی نریندر مودی کے ہندوتوا کا ڈٹ کر سیکولرزم کے جھنڈے تلے مقابلہ کرنے کے بجائے ہندو مت کا سہارا لیا اور کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے بھی اپنے آپ کو جنیو دھاری ہندو (وہ ہندو جو جنیو کا دھاگہ پہنتا ہے) ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی اور مندروں میں پوجا پاٹ کرنے کی مصلحتی تدبیر اختیار کی۔
نتیجہ یہ رہا کہ بھارتیا جنتا پارٹی کے زیر قیادت این ڈی اے اتحاد کو جس میں شیو سینا، جنتا دل یونائیٹڈ، شرومنی اکالی دل اور آل انڈیا ڈی ایم کے شامل ہیں، ان انتخابات میں 45فی صد ووٹ ملے۔ نریندر مودی کی جیت کے جہاں اور کئی اسباب ہیں وہاں بنیادی طور پر گزشتہ فروری میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں پلوامہ میں ہندوستانی فوج کے قافلے پر خود کش حملہ تھا جس کے بعد ہندوستان نے پاکستان پر جو فضائی حملہ کیا گو وہ یکسر ناکام رہا لیکن نریندر مودی نے نہایت عیاری سے یہ نعرہ لگا کر کہ ’’گھر میں گھس کر ماریںگے‘‘۔ عوام کے جذبات بھڑکائے اور یہ تاثر دیا کہ پاکستان کے خلاف کوئی خم ٹھوک کر کھڑا ہونے والا اور ملک کی سلامتی کا ڈٹ کردفاع کرنے والا لیڈر ہے تو وہ نریندر مودی ہے۔ پھر انہوں نے ہندوستان کے عوام پر یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ نریندر مودی ہی ہیں جنہوں نے عالمی اقوام میں پاکستان کو دہشت گردوں کا مدد گار اور ان کا گڑھ ثابت کیا ہے۔ یوں نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف جذبات بھڑکا کر ملک کے ہندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی اور اسی بنیاد پر مغربی بنگال میں بھارتیا جنتا پارٹی کی سخت مخالف ممتا بینرجی کی ترینمول کانگریس کو زبردست زک پہنچائی۔ ممتا بینرجی کو اس قدر اعتماد تھا کہ وہ یہ دعویٰ کرتی تھیں کہ وہ نریندر مودی کو سیاست سے نکال باہر کر دیں گی۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت ممتا بینرجی کی حامی ہے اس تعلق کو توڑنے کے لیے بھارتیا جنتا پارٹی کے صدر امیت شاہ نے بڑے پیمانہ پر فرقہ وارانہ فساد اور کشیدگی بھڑکانے کی کوشش کی تھی۔ مغربی بنگال میں جہاں تیس سال تک کمیونسٹ مارکسسٹ کی حکومت رہی اور پچھلی دو دہائیوں سے ممتا بینرجی کی حکمرانی رہی ہے اب بھارتیا جنتا پارٹی کی کامیابی بنگال کی سیاست کی اہم سنگ میل ہے جس کا بلاشبہ ہندوستان کے ان علاقوں پر بھی اثر پڑے گا جہاں ابھی بھارتیا جنتا پارٹی کے سیاسی قدم نہیں جمے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران، نریندر مودی کی تمام تر کوشش یہ رہی کہ ان کے پانچ سالہ دور کی حکومت کی کارکردگی پر بحث نہ ہواور نہ ملک کو درپیش سنگین اقتصادی مشکلات کی بحث میں عوام کو الجھایا جائے۔ کانگریس نے صرف رافیل طیاروںکی خریداری کے اسکینڈل کو اچھالا اور نوٹ بندی کی ناکام پالیسی۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے مسئلہ اور کسانوں کے سنگین مسائل کو اجاگر کرنے میں ناکام رہی۔ اس کے مقابلہ میں کانگریس کا سارا زور یہ ثابت کرنے پر رہا کہ راہول گاندھی اپنے دادا فیروز گاندھی کی طرح پارسی نہیں بلکہ جنیو دھاری ہندو ہیں۔ راہول گاندھی نے ہندوستان کے نئے حقائق کو بھی اچھی طرح نہیں سمجھا اور اس کے مطابق حکمت عملی وضع نہیں کی۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ نہرو کے دور سے اب تک ہندوستان میں علاقائی جماعتوں کا بے پناہ اثر بڑھا ہے اور یہ علاقائی قوتیں ہمیشہ کانگریس کو جو مرکز میں برسر اقتدار رہی ہے اپنا رقیب سمجھتی رہی ہیں، راہول گاندھی نے اس نئی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے علاقائی جماعتوں سے مفاہمت اور ان سے اتحاد پر زور نہیں دیا اور نہ بھارتیا جنتا پارٹی کے خلاف ایک مضبوط متحدہ محاذ قائم کرنے کی کوشش کی بلکہ اکیلے ہی انتخابی جنگ لڑنے کو ترجیع دی یہ جانتے ہوئے کہ ان کا مقابلہ بھارتیا جنتا پارٹی سے ہے جس کے پیچھے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ہزاروں رضا کاروں کے دستے ہیں۔
راہول گاندھی نے لوک سبھا کے انتخابات میں مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے اور مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے مسلم امیدواروں کو کھڑا کرنے سے عمداً اجتناب برتا کیونکہ نریندر مودی ہمیشہ کانگریس کو مسلمانوں کا حامی قرار دیتے رہے ہیں او ر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ کانگریس پر مسلمانوں کا قبضہ ہے یہی وجہ ہے ہندو ووٹروں کی ناراضی کے پیش نظر راہول نے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے یا مسلم امیدوارکھڑے کرنے میں تردد کیا ہے۔
2017 میں اتر پردیش کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں نریندر مودی کی بنیادی حکمت عملی ہندو اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے اور مسلمانوں کو یکسر نظر انداز کرنے کی رہی ہے جس کی بنیاد پر بھارتیا جنتا پارٹی نے ایک طرف ہندو ووٹوں کی حمایت حاصل کی اور ریاست میں بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت قائم کی دوسری جانب اس حکمت عملی کے بل پر مسلمان سیاسی میدان سے بڑی حد تک خارج ہوگئے۔ پچھلے انتخابات کے بعد ریاستی اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی کم ہو کر صرف 14 اراکین اسمبلی تک رہ گئی جب کہ اتر پردیش میں مسلمانوں کی تعداد تین کروڑ تیرا سی لاکھ ہے یعنی 19 فی صد۔
ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی کو بھارتیا جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے اقتدار حاصل کرنے کی سخت سزا ملی ہے۔ کشمیر کے عوام کی بھاری تعداد نے لوک سبھا کے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس کے باوجود فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے لوک سبھا کی تین نشستیں حاصل کی ہیں اس کے ساتھ بھارتیا جنتا پارٹی نے بھی تین نشستیں حاصل کی ہیں۔ نتیجہ یہ رہا کہ کشمیر میں کانگریس اور محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کا صفایہ ہوگیا ہے۔ ادھم پور سے مہاراجا ہر ی سنگھ کے پوتے جو کانگریس کے امیدوار تھے بری طرح ہار گئے ہیں۔ عام انتخابات میں نریندر مودی کی غیر معمولی جیت کے پیچھے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور امبانی ایسے بڑے تجارتی گھرانوں کی حمایت کار فرما رہی ہے اور اسی کے ساتھ میڈیا کا اہم رول رہا ہے خاص طور پر اس میڈیا کا جسے عام طور پر گودی میڈیا کہا جاتا ہے یعنی بھارتیا جنتا پارٹی کی گود میں بیٹھا میڈیا جو نریندر مودی کو انتخابات میں جتانے کے لیے پیش پیش تھا۔ بلا شبہ پچھلے پانچ برس کے دوران نریندر مودی نے کٹر ہندو قوم پرست ہندوتوا کے ذریعہ ہندوستان کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے، جہاں گائے کے نام نہاد محافظوں نے آزادانہ طور پر مسلمانوں کی جانیں لینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ مسلمانوں کو جبراً ہندو مت اختیار کرنے کے لیے ’’گھر واپسی‘‘ کی مہم شروع کی ہے۔ مسلمانوں کو غیر ملکی حملہ آور قرار دے کر ان سے کہا گیا ہے کہ وہ یا تو ہندو مت اختیار کر لیں یا یہ سرزمین چھوڑ دیں جس پر ان کے آباو اجداد پشتہا پشت سے آباد تھے۔ غرض نریندر مودی کے پچھلے پانچ سال کے دور میں مسلمان سایک دائمی عذاب میں مبتلا رہے ہیں۔ اگلے پانچ برس میں اس عذاب سے نجات کی راہ نظر نہیں آتی۔